تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-05-2017

گوادر کا گھیراؤ

جنوری2008 ء میں بھارت کے سابق نیول چیف ایڈ مرل سریش مہتا نے نئی دہلی میں ڈیفنس سٹڈیز سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ بھارت کیلئے سنجیدہ نوعیت کی سٹریٹیجک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ گوادر آبنائے ہر مز کی خارجی گزر گاہ سے محض180 ناٹیکل میل کے فاصلے پر واقع ہے جس کے ذریعے پاکستان عالمی توانائی کی شہ رگ کا کنٹرول سنبھال کر جب چاہے بھارتی آئل ٹینکروں کیلئے رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے جبکہ چین بحر ہند اور بحیرہ عرب میں اپنی توانائی کی گزر گاہ کو محفوظ اور مضبوط بنانے کیلئے اس میں اپنے اڈے بنائے گا اور یہ گزرگاہ شمال کی جانب سے گوادر کے گہرے پانیوں تک آتی ہے۔ جنرل مشرف گوادر سے منسلک منصوبے کیلئے کراچی سے گوادر تک ایک بڑی سڑک تعمیر کر ا رہا ہے جسے قراقرم تک توسیع دی جائے گی جس سے چین کو بحر ہند تک رسائی ملے گی۔
Expand operational foot print in Indian Ocean یہ وہ '' آر ڈر آف دی ڈے‘‘ ہے جو بھارت کے موجودہ نیول چیف سنیل لانبا نے اپنے سینئر کی رپورٹ سامنے رکھنے ہوئے 9 سال بعد چار مئی2017 ء کو جاری کئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے ہنگامی اقدامات اس وقت تک جاری کئے ہی نہیں جا سکتے جب تک وزیر اعظم کی شامل نہ ہو۔ حالات یک دم ا س لئے پلٹا کھانے لگے ہیں کیونکہ گوادر پر چینی نیول بیس کی خبروں نے بھارت کوبحر ہند کا چوکیدار بنانے کا امریکی خواب چکنا چور کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ ماضی اور مستقبل میں بنائے گئے امریکی منصوبوں کو اب چین کے جنگی اور تجارتی جہازMalacca Dilemma کو روندتے Malacca Straight کو بائی پاس کر جائیں گے ۔ اس طرح چینی بحریہ خلیج اومان اور بحیرہ عرب میں مستقل موجود رہے گی اور یقینی طور پر چین کو '' میری ٹائم سلک روٹ‘‘ سے بحر ہند سے جنوبی چین تک محفوظ اور سستا ترین راستہ مل جائے گا۔ 
یہی وہ وقت تھا جب امریکہ اور بھارت نے ملا فضل اﷲ اور بیت اﷲ محسود کے ذریعے مہران بیس کراچی اور ڈاک یارڈ میں پاکستان کی حساس ترین دفاعی بحری قوتوں کو نشانہ بنایاحالانکہ یہ پی اورین جاسوس طیارے جنرل مشرف کی درخواست پر امریکہ نے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی بحریہ کو مہیا کئے تھے۔ ہمیںیہ بھی سامنے رکھنا ہو گا کہ انڈین نیوی کے بحر ہند میں پہنچتے ہی بلوچستان میں گوادر اور اس کے ارد گرد کے علا قوں، کراچی اور کے پی کے میں سی پیک پر کام کرنے والے مزدوروں اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے اچانک کیوں بڑھ گئے ہیں؟۔ 
موجودہ سمندری صورت حال بتا رہی ہے کہ چین کے جنگی بحری بیڑے سی پیک کی حفاظت کیلئے اس وقت تک گوادر بندرگاہ کے ارد گرد اور بحر ہند اور بحیرہ عرب میں موجود رہیں گے جب تک بھارتی بحریہ واپس اپنے ٹھکانوں پر نہیں پہنچ جاتی۔دفاعی نقطہ نظر کو سامنے رکھیں تو بھارت کے ارادے اس وجہ سے خطرناک لگ رہے ہیں کہ '' بھارتی بحریہ کے تمام آپریشنل کمانڈرز اور نیوی کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں اور بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن روات اور بھارتی ایئر فورس کے ایئر چیفB.S Dhanoa کا حال ہی میں ایک طویل اجلاس منعقد ہونے کی خبریں آئی ہیںجس کے بعد ہی انڈین نیول چیف سنیل لانبا نے اپنی تمام سمندری جنگی طاقت بحر ہند میں جھونک دی ہے۔
بھارت کے نیول چیف سنیل لانبا کی اس وقت کی باڈی لینگوئج کاعمیق نظروں سے جائزہ لینا ہو گا جب انہوں نے بھارتی بحریہ کے سینئر کمانڈرز کی چار روزہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کے دوران اختیار کی۔۔۔ نیول چیف لانبا نے کہا ہمیں چین کے اس اقدام کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی کمزوری سے اجتناب کرنا ہو گا کیونکہ وہ بحر ہند پر قابض ہونے کے ارادے سے آ رہا ہے۔ انڈین نیوی کے سینئر کمانڈرز کی اس چار روزہ کانفرنس میں بھارت کے وزیر دفاع ارون جیٹلی اور سیکرٹری وزارت خارجہ ایس جے شنکر نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہدایت پر خصوصی طور پر شرکت کی۔۔۔اس کانفرنس کی سب سے اہم بات سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر کی انڈین نیوی کے سینئر آپریشنل کمانڈرز سے علیحدگی میں ہونے والی وہ خصوصی میٹنگ ہے جس کے بارے میںکہا جا رہا ہے کہ اس دوران کچھ اہم کاغذات ان کمانڈرز کے حوالے کئے گئے۔۔۔ انڈین نیول چیف سنیل لانبا نے خطاب کے آخر میں کہا '' کل کسی وقت مجھے کسی بھی کمانڈر سے یہ نہ سننا پڑے کہ آپریشنل تیاری میں کچھ کمی رہ گئی تھی !!
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت کے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے تینوں افواج کے سربراہوں سے کہا ہے کہ وہ انڈین اوشین ریجن کے کسی بھی حصے میں چین یا کسی دوسرے ملک کی مداخلت یا پیش قدمی کو پوری طاقت سے روکنے کیلئے ہمہ وقت جنگ کیلئے اپنے فلیٹ تیار ر کھیں۔بھارت کے انگریزی روزنامہ بزنس سٹینڈرڈ کی21 جنوری2017 کی اس رپورٹ کو سامنے رکھنا ہو گا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکہ اور بھارت مشترکہ طور پر بحیرہ عرب کی حدود میں چین کی آبدوزوں کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک کسی بھی طور پر گوادر بندرگاہ کے مکمل فنکشنل ہونے کا رسک نہیں لے سکتے۔۔اور عوامی جمہوریہ چین کی بحیرہ عرب میں آبدوزوں کا سراغ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ امریکی نیوی کے ایڈمرل HARRIS نے خود یہ کہتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ دونوں ممالک کی بحری افواج مشترکہ طور پر چین کی بحری فوج کی بحر ہند میں نقل وحرکت کوبغور مانیٹرنگ کر رہی ہیں۔۔۔اس سلسلے میں بہت آگے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے امریکی حکومت نے بھارت کو وہ مشہور زمانہ اور جدید ترین بوئنگ P-81ایئر کرافٹ فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے جسے ' ' آبدوزوں کے شکاری‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ویسے تو یہی کہا جاتا ہے کہ امریکہ، بھارت اور جاپان کی بحری افواج ہر سال مشترکہ مشقوں کے ذریعے مالا بار میں '' اینٹی سب میرین آپریشن‘‘ کرتی رہتی ہیں لیکن اس دفعہ نئی دہلی میں کانفرنس کے اختتام پر امریکی ایڈمرلHARRISکے بھارتی اخبار بزنس سٹینڈرڈ کے نمائندے کے موجودہ صورت حال پر کئے گئے سوال کے جواب میں کئے جانے والے انکشاف سے واضح ہو گیا کہ امریکہ اور بھارت گوادر کے خلاف کسی مشترکہ سمندری کارروائی کا حصہ بننے جا رہے ہیں یا پاکستان پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں۔امریکہ کے فور سٹار جنرل نے ہوائی میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے ایک سوال کے جواب میں جو کہا اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی طور بھی نظر انداز کر نا منا سب نہیں ہو گا، اس کہنا تھا کہ ''ہماری مشترکہ بحری مشقوں اور مدد کے بعد بھارت کے پاس موجود VIKRAMADITYA بحری بیڑہ چین کے کسی بھی بحری بیڑے سے انتہائی طاقتور اور موثر ہے۔بھارتی نیوی نے وکرم جنگی جہاز سے فضا میں ایئر میزائل کا کامیاب تجربہ بھی کر لیا ہے اس کے علا وہ براہموس کے نا م سے سپر سانک میزائل کا بھارتی تجربہ بھی سب کے سامنے ہے۔۔۔ ایسا کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ چین کے پاس اس وقت50 سب میرینز کے علا وہ8 ایٹمی سب میرینز ہیں جبکہ مقابلے میں بھارت اس وقت old diesel electric 13 آبدوزوں کے علاوہ INS CHAKRA آبدوز ہے لیکن وہ بھی نیوکلیئر میزائل کے بغیر۔۔۔!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved