سر
جسم میں سب سے اُوپر واقع ہے اس لیے سختی نرمی اور گرمی سردی سب سے پہلے یہی جھیلتا ہے۔ سرسام کی بیماری بھی اسی حوالے سے نازل کی گئی۔ کسی بات کا سر پیر نہ ہونا غلط محاورہ ہے کیونکہ دونوں میں فاصلہ ہی اتنا ہوتا ہے کہ کیا کہا جائے۔ سرسرانا کا مطلب ہے سر کو ہلانا۔ سر کو نیچے جھکایا جائے تو اس کا مطلب ہے‘ ہاں۔ اور اگر دائیں بائیں ہلایا جائے تو مطلب ہے نہ۔ سر کو قطعاً نہ ہلایا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ سوال ہی فضول تھا۔ اسے جھکایا اور پیٹا جاتا ہے۔ سر کی بلائیں لینا بھی درست نہیں کیونکہ بلائیں تو سارے جسم کی لینا چاہئیں۔ سرپٹ بھاگنے کا مطلب ہے سر کے بغیر بھاگنا۔ سر کھُجانے کی فرصت نہ ملنا بھی غلط ہے کیونکہ اگر سر میں سے جوئیں نکلوا لی جائیں تو اسے کھُجانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ سر پر پائوں رکھ کر بھاگنا بھی ناممکن ہے۔ اولے پڑنے کا خطرہ ہو تو سر ہرگز نہیں منڈوانا چاہیے۔ سرگم کا مطلب ہے وہ سر جو گُم ہو چکا ہو۔ سرخیل کا مطلب ہمیں بھی معلوم نہیں۔ اسے دُھنا بھی جاتا ہے۔ بالوں کی وجہ سے مشہور ہے‘ سر ٹکرانے کے لیے صرف ایک دیوار کی ضرورت ہوتی ہے‘ درخت بھی کام دے سکتا ہے۔
ماتھا
سر کے جس حصے پر بال نہ ہوں‘ ماتھا کہلاتا ہے‘ یہ ٹھنکتا بھی ہے۔ خندہ پیشانی کا مطلب ہے ماتھے کا ہنسنا۔ ماتھے پر بل لانا اپنی مرضی کی بات ہے۔ یہ مخالفین سے لگایا بھی جاتا ہے۔ ٹیکنے کے بھی کام آتا ہے۔ اس پر پسینہ بھی آتا ہے جسے پونچھ لینا چاہیے جیسا کہ ایک شاعر نے تاکید کر رکھی ہے ؎
نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے
اس پر تیوڑی بھی چڑھائی جاتی ہے۔ سجدہ کرنے کے بھی کام آتا ہے جس کی کثرت سے اس پر محراب بھی پڑ سکتا ہے۔ تھوڑی کوشش کر کے یہ محراب خود بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ پنجابی میں اسے متھا کہتے ہیں جیسے کہ مُنہ نہ متھا‘ جن پہاڑوں لتھا‘ جس کا مطلب ہے کہ جن صرف پہاڑوں ہی پر پائے جاتے ہیں۔ مہ جبیں اس عورت کو کہتے ہیں جس نے سر پر ماتھے کی بجائے چاند لگا رکھا ہو۔ دروازے کے پتھر پر رگڑا بھی جاتا ہے۔ اس پر بل بھی پڑتے ہیں جو خود بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ یہ روشن بھی ہو سکتا ہے اور بُجھا ہوا بھی‘ بندیا اسی پر لگائی جاتی ہے۔ اسے ہاتھ لگا کر سلام بھی کیا جاتا ہے اور اس کے بغیر بھی۔
سینہ
اسے چھاتی بھی کہتے ہیں جس کا مذّکر چھاتہ ہے جو دھوپ اور بارش سے بچنے کے کام آتا ہے۔ چھاتہ بردار ہوتا ہے جس نے چھاتہ اُٹھا رکھا ہو۔ سینہ بہ سینہ کا مطلب ہے سینے کے ساتھ سینہ ملا کر چلنا‘ حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ گرنے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ اسے چھتری کی طرح تانا بھی جاتا ہے۔ ماتم کے لیے اسے پیٹتے ہیں۔ اس پر ایک شعر دیکھیے ؎
چھاتی سے بھی لگایا
گئی نہ اُس کی اکرّ
گولیاں کھانے کے بھی کام آتا ہے‘ اسے چوڑا کر کے اور پھُلا کر بھی چلتے ہیں۔ پسینے اور سینے کا آپس میں کوئی خاص تعلق نہیں کیونکہ پسینہ کہیں بھی آ سکتا ہے۔ سینا اور پرونا ایک ہی کام ہے۔ گلے ملنا غلط ہے کیونکہ سینے سے سینے کو لگایا جاتا ہے‘ گلا اس میں کہاں سے آ گیا۔ یہ زیادہ تر پسلیوں ہی کا مجموعہ ہوتا ہے جبکہ ہڈی پسلی ایک کرنا بھی اسی قبیل کی چیز ہے۔ اس میں راز بھی رکھے جاتے ہیں۔ اس پر ''ح‘‘ لگا دی جائے تو حسینہ بن جاتی ہے۔
کندھے
عام طور پر انہیں ملا کر چلا جاتا ہے جسے شانہ بشانہ بھی کہتے ہیں۔ یہ اُچکائے بھی جاتے ہیں۔ یہ کسی جنازے وغیرہ کو دیا بھی جاتا ہے جبکہ بوجھ بھی اسی پر اُٹھایا جاتا ہے‘ یہ نازک بھی ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے ان پر بوجھ نہ لادا جائے۔ اسے ایک دوسرے کے ساتھ بدلا بھی جاتا ہے‘ جیسا کہ بقول غالب ؎
پینس سے گزرتے ہیں جو کُوچے سے ہمارے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
کندھوں پر سوار ہونا بھی محاورہ ہی ہے ورنہ کوئی اپنے کندھوں پر کس کو سوار ہونے دیتا ہے۔ ذرا لمبا ہو تو اسے کاندھا کہتے ہیں۔
بغل
کندھوں کا اندرونی حصہ۔ بازار میں ڈھنڈورا پیٹتے وقت بچہ بغل میں ہونا چاہیے۔ بغل بچہ اور چیز۔ منہ میں رام رام کرنے کے لیے بغل میں چُِھری کا ہونا ضروری ہے۔ بغل گیر ہونے کا مطلب بغل حاصل کرنا نہیں بلکہ گلے ملنا ہے‘ یہ نہیں کہ بغلیں مشترکہ ہوں۔ بغل میں کامطلب قریب یا ہمسائے میں ہونا ہے‘ بغل کے اندر نہیں۔ یہ بالعموم ناگوار سی بُو بھی چھوڑتی رہتی ہیں۔ بغلی گھونسہ وہ ہے جو بغل میں مارا جائے جو ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے کیونکہ ایک ہاتھ سے کسی کا بازو اُٹھانا اور پھر اس کی بغل میں گھونسہ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کے اندر بال بھی ہوتے ہیں جن کا کوئی مقصد کم از کم ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ اس میں دل کے ٹکڑے بھی رکھے جا سکتے ہیں جیسا کہ ایک شاعر نے کہہ رکھا ہے ع
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
دل کو اس میں مارا بھی جاتا ہے جیسا کہ ایک اور شاعر کے بقول ع
ہم نے دل اپنا اُٹھا اپنی بغل میں مارا
اس سے ظاہر ہوا کہ یہ بھی ایک‘ بلکہ دو‘ کثیرالاستعمال اعضاء ہیں۔ کاغذات وغیرہ بھی آپ بغل میں تھام سکتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ ((جاری
آج کا مطلع
اگرچہ منع بھی کرتا نہیں مروّت میں
ملائے رکھتا ہے انکار بھی اجازت میں