تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-05-2017

کلبھوشن کے ’’بلیک چینل‘‘ رابطے

حکومت پاکستان اپنے ایک خط کے ذریعے بھارت کو یقین دہانی کراتی ہے کہ وہ پاکستان میں اس کے قونصلر کو دہشت گرد بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو تک رسائی دینے کو تیار ہے اور یہی وہ خط تھا جس نے عالمی عدالت انصاف کو بھارت کے حق میں عبوری حکم نامہ دینے میں معاونت کی۔۔۔ عیار اور چالاک بھارت نے اپنی پٹیشن کے ساتھ اسی خط کو منسلک کرتے ہوئے عالمی عدالت سے درخواست کی کہ اس کے قونصلر کو یادیو تک رسائی تک کلبھوشن یادیو کو سنائی گئی پھانسی کی سزا ملتوی کر دے۔ 29 مارچ کو وزیر اعظم ہائوس سے ایک خط جاری ہوتا ہے جس میں یو این او کی وساطت سے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی Jurisdiction کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔۔۔ ایسا کیوں اور کس لئے کیا گیا یہ نہایت ہی اہم سوال ہے جس کا جواب اگر حکومت پاکستان نہیں تو پھر دیگر اداروں کو دینا ہو گا کیونکہ ہم تو آ ج تک تمام ترقی پسندوں، سیکولر اور لبرل میڈیا کے لوگوں سے سنتے آئے ہیں کہ سول حکومت تو بے بس ہے اس کو تو کچھ کرنے ہی نہیں دیا جاتا، ملک کی خارجہ پالیسی بھی سول حکومت کے لوگ نہیں بلکہ کوئی اور بناتا ہے۔۔۔تو پھر کسی سے تو پوچھنا ہے کہ 29 مارچ کا یہ خط کس نے اور کس کی اجا زت سے لکھا اور اگر حکام اس سے بے خبر ہیں تو کیا یہ ڈان لیکس سے بھی زیا دہ خطرناک اور ملکی سلامتی اور مفاد کے منا فی نہیں ۔ 
جون 2000 میں جب جنرل مشرف کی حکومت تھی تو اس وقت بھارت نے پاکستان نیوی کا جہاز گراتے ہوئے ہمارے افسروں اور جوانوں کو شہید کر دیا جس پر پاکستان نے عالمی عدالت انصاف سے بھارت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تواس وقت اسی عدالت نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کر دی کہ آپ دونوں ممبر ملک ہیں آپس میں معاملہ طے کر لیں ہم اس معاملے میںکچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں اس بارے کوئی اختیار ہی نہیں ہے ۔ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کا محاورہ اکثر سننے میں آتا ہے، سوچا کرتے تھے کہ اپنے پائوں پر کلہاڑی غلطی سے تو ماری جا سکتی ہے جان بوجھ کر تو کبھی بھی نہیں ماری جاتی لیکن یہ مثال اس طرح درست ثابت ہو گئی کہ یہی کام پاکستان نے اس طرح کر دکھایا ہے کہ خواہ مخواہ عالمی عدالت انصاف میں جا کودا اور کودنے سے پہلے بھارت اور عالمی عدالت کو اپنی رضامندی دے دی، یقین جانئے اگر پاکستان عالمی عدالت انصاف کو جون 2000ء کے پاکستان نیوی کے بھارت کے ہاتھوں گرائے گئے اس جہاز کا جس میں ہمارے افسر اور جوان شہید کئے گئے حوالہ دیتے ہوئے کہہ دیتا جناب والا آپ کے اسی حکم کے تحت ہم بھی اس عدالت میں فریق بننے کو تیار نہیں۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ہم دنیا بھر میں تما شا بن گئے۔ کلبھوشن کی دہشت گردی سے ۔۔بچے بھی ہمارے ذبح ہوئے مزدور بھی ہمارے ہی قطاروں میں کھڑے کر کے قتل کئے گے اور تما شا بھی دنیا کے سامنے ہم ہی بنے ۔۔۔ Declarations recognizing the Jurisdiction of the court as compulsory یہ ہے وہ کلہاڑی جو ہم نے اپنے ہی پائوں پر مارنے کیلئے اس پر دستخط کر دیئے ،ایسے وقت میں جب کلبھوشن کا معاملہ سامنے تھا یہ دستخط کیوں کئے گئے؟۔ ۔۔۔۔یہ ایک ایسا راز ہے جس سے آج نہیں تو کل کسی وقت پردہ ضرور اٹھے گا ۔
حیرانگی اس بات پر ہے کہ انڈیا نے تو 18 ستمبر1974 کو اس پر دستخط کئے تھے جبکہ پاکستان29 مارچ 2017 کو اس پر دستخط کر رہا ہے۔ 43 سال بعد پاکستان کو یہ خیال کیوں اور کس لئے آیا؟۔ اس کا پس منظر قوم کو بتانے کی کوشش کون کرے گا؟۔ کیا پاکستان میں کوئی ہے جو جواب طلبی کر سکے؟۔ ۔۔۔۔کیا پاکستان کی سینیٹ اور پارلیمنٹ کو فرصت ہے یا کہہ لیں کہ اتنی ہمت ہے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کی مشترکہ اجلاس بلا کر جواب طلبی کرے کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟کس کی ا جا زت سے کیا گیا؟۔ عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی درخواست پر اٹھارہ مئی کو متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کی خفیہ ایجنسی راء کے کمانڈر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر اس وقت تک عمل در آمد روک دیا ہے جب تک وہ اس مقدمے کا با قاعدہ کوئی فیصلہ نہیں کرتی دوسرے لفظوں میں کلبھوشن یادیو کو اس وقت تک سزائے موت نہیںدی جا سکتی جب تک بھارت کے پاس ایک بھی دلیل باقی ہے۔۔۔پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جو کارنامہ انجام دیا وہ بے حسی کی انتہا ہے ۔ ہمارے مقرر کئے گئے وکلاء نے اپنے فرائض کس حد تک ایمانداری اور حب الوطنی سے انجام دیئے اس کا فیصلہ بہت جلد آنے والا وقت کردے گا لیکن اب تک کا جو ریکارڈ سامنے آیا ہے اس نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ہمارے وکلاء نے کسی بھی موقع پر اس مقدمے کو سنجیدگی سے لینے کی کوشش ہی نہیں جبکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے جس طرح اپنے دہشت گرد جاسوس کا مقدمہ لڑا اس کی تعریف نہ کرنا زیا دتی ہو گی۔۔۔بھارت نے دنیا بھر میں اپنے جاسوسوں اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردی کیلئے بھیجے جانے والے اپنے ایجنٹوں کو پیغام دے دیا ہے کہ گھبرانا نہیں دل کھول کر دہشت گردی کرو جس قدر ہاتھ لگیں پاکستانی قتل کرتے جائو اگر کبھی پکڑے گئے تو تمہیں اسی طرح مکھن سے بال کی طرح نکال لائیں گے ۔ 
سجن جندال افغانستان سے لاہور پاکستان لینڈ کرتا ہے۔۔۔وہ افغانستان کس مقصد کیلئے گیا تھا؟۔ کیا یہ درست ہے کہ جندال کی افغانستان میں موجو دگی کے دوران پاکستان کے ایک اہم ترین ادارے کی شخصیت بھی افغانستان میں موجود تھی؟۔ اب تک کی اطلاعات کے مطا بق جندال نے اپنے قیام افغانستان کے دوران سوائے بھاتی سفیر کے وہاں کی کسی بھی کاروباری شخصیت سے ملاقات نہیں کی؟۔ تو کیا اس کا یہ قیام محض دھوکہ دینے کیلئے تھا؟۔ 
کسی کی نیت پر شک نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے کتنے ہی سیا ستدانوں کے خلاف مقدمات یا ریفرنسز کی ملک کی مختلف عدالتوں میں جیسے ہی سماعت ہونے لگتی ہے یا انہیں کسی بھی وفاقی یا صوبائی ادارے کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے کا نوٹس موصول ہوتا ہے تو ان کے وکلاء سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی متعلقہ عدالت میں ایک درخواست فائل کر دیتے ہیں کہ '' آپ کو میرا یہ مقدمہ یا پٹیشن سننے کا اختیار ہی نہیں ہے‘‘ سمجھ نہیں آتی کہ کلبھوشن کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایسا کیوں نہ کیا گیا؟ اگر ICJ نے پاکستان کو اس مقدمے کیلئے نوٹس بھیجا تھا تو پاکستان اس کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے وکلاء کی تیاری کیلئے مقدمے کی سماعت ملتوی کرا سکتا تھا۔ کلبھوشن کے مقدمے میں ہم نے ایسا کیوں نہ کیا ہمیں کس نے منع کیا ہم عالمی عدالت انصاف میں کیوں بھاگے بھاگے گئے ؟۔ ۔۔پاکستان کے خلاف عبوری فیصلہ آنے کے پانچ گھنٹوں بعد ہماری وزارت خارجہ عجب منطق لئے کہتی ہے کہ ہم اس فیصلے کے پابند نہیں۔۔۔ وقت کے بعد اٹھا ہوا مکہ اپنے منہ پر مارا جاتا ہے ؟۔ کوئی بھی ذاتی دوستی یا '' بلیک چینل‘‘ رابطے ملکی سلامتی کی قیمت پر نہیں کئے جا تے۔۔۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مودی کشمیر کی بیٹیوں کی آنکھوں پر پیلٹ گنوں کی بارش کرتے ہوئے انہیں زندگی بھر کیلئے اندھا نہ کرتا۔ لائن آف کنٹرول پر آئے روز گولہ باری اور اسنیپ فائرنگ کرتے ہو ئے بچوں اور عورتوں کو شہید نہ کرتا۔ گوادر میں مزدوروں کو قطار میں کھڑا کر کے قتل نہ کرتا کس طرح بتائوں ، کیسے یقین دلائوں کہ مودی ہمارا دوست نہیں ہے ‘بد ترین دشمن ہے!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved