تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-05-2017

سب پلان کے مطابق ہورہا ہے

مقبول حسین کی چھب ہی نرالی تھی ۔آج جب میں اسے یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اسے ہم پہچان نہ سکے ۔ ایک ہزار آدمیوں کے برابر ایک شخص ، ساری زندگی بدترین حالات میں جسے کبھی مایوس نہ دیکھا گیا ۔
اس کی یاد کا ہر لمحہ انمول ہے ۔پہلی بار میں نے اسے کالج کے احاطے میں دیکھا۔ درمیانی عمر کی ایک خاتون ، بعد میں جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اس کی سوتیلی ماں تھی ، اسے بالوں سے گھسیٹے ہوئے لے جا رہی تھی ۔ اچھا خاصا تماشا تھا ۔ مجھے یاد آیا کہ گھنگریالے بالوں والا یہ لڑکا تو میرا کلاس فیلو ہے ، بیالوجی کی کلاس میں جسے سر سے بھی ڈانٹ پڑی تھی ۔ کسی نے بتایا کہ گھر میں اس کی حیثیت ایک نوکر سے زیادہ نہیں ۔ سگی ماں مرچکی، باپ اکثر مختلف شہروں کے دورے پر رہتاہے ۔ سوتیلی ماں زدو کوب کرتی رہتی ہے ۔ اگلے روز کلاس ختم ہونے کے بعد میں اس کے قریب گیا اور ہمدردی کا اظہار کرنا چاہا ۔ وہ ہنسا اور ایک آنکھ بند کر کے اس نے یہ کہا '' سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ‘‘ ۔ میں حیران رہ گیا۔ 
یہ فقرہ وہ اکثر دہراتا ۔ گھر جا کر اسے نصاب دہرانے کا موقع ہی کہاں ملتا تھا ۔ سوتیلی ماں اکثر لوگوں کے سامنے اسے ذلیل کیا کرتی ۔ کھیل کے میدان میں جانے کی اسے اجازت نہ تھی ۔ روزانہ کی بنیاد پر بے عزتی ایک ایسا معمول بن گیا تھا ، کالج کے طلبہ اور راہگیر جس سے محظوظ ہوا کرتے ۔ ہمدردی جتانے والے ہر شخص کو اس کا جواب یہ تھا '' سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ‘‘آہستہ آہستہ ہم تین دوستوں کا ایک گروپ بن گیا ۔ میں ، مقبول حسین اور امتیاز ملک ۔تین بالکل مختلف بلکہ متضاد طبع لڑکوں کا یہ گروپ بجائے خود ایک عجوبہ تھا۔ 
پہلے سال کے نتائج آئے تو مقبول حسین دو مضامین میں فیل تھا ۔ حسب ِ توقع کالج کے اندر اساتذہ اور باہر اس کی ماں کے ہاتھوں مجمع ء عام میں اس کی خوب دھلائی ہوئی ۔ اگلے روز وہ آیا تو اس کے چہرے اور ہاتھوں پر کئی جگہ سوجن تھی ۔ ''سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا ۔ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ 
وقت گزرتا گیا ۔ایف ایس سی کے بعد امتیاز نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ میں بی ایس سی کے بعد بیرونِ ملک جانے کی تگ و دو میں تھا۔ مقبول کی سوتیلی ماں نے اس کے باپ سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ اس کی زندگی میں اب کسی حد تک قرار پیدا ہوا ۔ ہم اس سے ملنے گئے ۔ معلوم ہوا کہ اس کا باپ اب مہینوں گھر لوٹتا ہی نہیں ۔ اپنی ایک الگ دنیا اس نے بسا لی ہے ۔ اس بات پر ایک آنکھ بند کر کے اس نے وہی فقرہ دہرایا '' سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ‘‘ ۔ پھر اس نے ایک منصوبہ بتایا۔ وہ ایک ناکارہ گاڑی کا ڈھانچہ خرید کر اسے دوبارہ سے تیار کر کے بیچنا چاہتا تجا ۔ یوں پہلی بار اس نے ایک کاروباری منصوبہ بنایا۔ کچھ پیسے میں نے بھی دئیے ۔ امتیاز کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ کامیابی سے وہ ایم بی بی ایس پاس کرنے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ گاڑی کے کام میں اسے نقصان ہوا ہے ۔ میں اس سے ملنے گیا۔ میرے پیسے نکال کر اس نے مجھے دئیے اور یہ کہا '' سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ‘‘ پہلی بار میں نے دیکھا، اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی ۔ 
میں بیرونِ ملک چلا گیا۔ امتیاز ڈاکٹر بن گیا ۔ شام کے اوقات میں وہ نجی پریکٹس کرتا۔ اپنی فیلڈ میں وہ کامیاب سے کامیاب تر ہوتا چلا گیا۔ پانچ برس بعد اس کی شہرت یہ تھی کہ وہ ان لوگوں کا کامیابی سے علاج کرلیتا ہے ، تمام معالجوں نے جن سے ہاتھ اٹھا لیا ہو۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ اس کے عوض وہ مریض کو کنگال کر دیتاہے ۔ مقبول سے وہ ملتا رہتا تھا۔ مقبول منصوبے بنا تا رہتا ۔ ناکام ہوتا مگر یہ کہتا رہتا '' سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ‘‘ امتیاز کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے یا پلان کے خلاف ۔ میں بیرونِ ملک بیٹھا تھا۔ 
اس وقت وہ چالیس کے پیٹے میں تھا ، جب اس کا منصوبہ کامیاب ہوا۔ امتیاز نے بتایا کہ ربڑ سے کچھ مصنوعات بنانے کا یہ کام تھا، جس میں غیر معمولی کامیابی اسے نصیب ہوئی ۔ وہ پیسے میں کھیلنے لگا ، بڑی گاڑیوں میں پھرنے لگا۔ جب کوئی اسے مبارک باد دیتا تو ہنس کر وہ یہ کہتا '' سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ‘‘۔
تین سال بعد جب میں واپس آیاتو یہ خبر ملی : مقبول حسین نے خودکشی کر لی ۔ روتا بلکتا، میں امتیاز سے ملنے گیا۔ اس کا کلینک بند پڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ پرائیویٹ پریکٹس اس نے چھوڑ دی ہے اور صرف سرکاری ہسپتال ہی میں مریض دیکھتا ہے ۔ یہ مقبول حسین کی خودکشی سے بھی بڑی خبر تھی کہ وہ تو آخری درجے کا لالچی شخص تھا۔امتیاز مجھے مقبول کی قبر پر ملا۔ معلوم ہوا کہ فارغ وقت میں ، وہیں وہ بیٹھا رہتاہے ۔ 
اس نے بتایا کہ کسی لڑکی سے مقبول حسین کی منگنی ہوئی تھی ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کوئی لڑکا اسے بلیک میل کر رہا ہے ، جس سے کبھی وہ محبت کرتی تھی۔ امتیاز نے بتایا کہ وہ ٹھیک ٹھاک بدمعاش قسم کا لڑکا تھا۔امتیاز نے مقبول کو اس سارے کھیل سے الگ رہنے کی نصیحت کی
تھی۔ مقبول کا کہنا یہ تھا کہ ان دونوں میں سے کوئی دوسرے کو قتل کر دے گا اور وہ ایسا ہونے نہیں دے گا۔ ایک زیرِ تعمیر پلازے کی چھت پر وہ تینوں مذاکرات کیا کرتے تھے ۔اس روز حسبِ معمول ڈاکٹر امتیاز نیچے بیٹھا مقبول کا انتظار کررہا تھا۔ سیڑھیوں سے آنے کی بجائے وہ ہوا میں اڑتا ہوا آیا ۔ سامنے کی طرف سریے کا ڈھیر پڑا تھا، جن میں سے کچھ کو سرے سے موڑدیا گیا تھااور ان کا رخ آسمان کی طرف تھا۔ ایسے دو سریے مقبول حسین کے پیٹ اور سینے سے پار ہو گئے ۔امتیاز نے بتایا کہ مقبول حسین نے خودکشی نہیں کی ، اسے قتل کیا گیا ہے ۔ اس نے کہا کہ اگر اس نے خود چھلانگ لگائی ہوتی تو اس کے منہ کا رخ زمین کی طرف ہوتا ، جب کہ وہ آسمان کی طرف تھا۔ امتیاز نے بتایا کہ وہ لپک کر اس کے پاس گیا۔ ''ہائے میرا دوست‘‘ اس نے سر پیٹتے ہوئے کہا '' ابھی تو تیری شادی ہونا تھی ‘‘ مقبول نے کہا ''مجھے ہسپتال لے چل امتیاز ، میں بچ جائوں گا‘‘۔ امتیاز نے اس پر اور زور سے رونا شروع کر دیا۔ مقبول نے اپنے پیٹ اور سینے میں گڑے ہوئے سریے کو دیکھا۔ ''جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ مرنے لگا ہے تو اس نے کہا ، غم نہ کر میرے یار۔ سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے ۔‘‘ ڈاکٹر امتیاز نے بتایاکہ پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا '' اُس کے پلان کے مطابق ‘‘ ۔ 
اس روز ہمیں معلوم ہوا کہ مقبول کے پاس کوئی پلان تھا ہی نہیں ۔ جو حالات اسے درپیش ہوتے، ان میں اپنی بہترین کوشش وہ کرتا رہتا ۔ وہ تو صرف یہ بتانے کی کوشش کرتا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ایک کامل پلان کے تحت ہورہا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved