تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     25-05-2017

ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کمال آدمی ہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ قول اور فعل کے استاد ہیں۔ انہوں صدارتی انتخاب جیتا تو اسی مدعے پر کہ انہوں نے اسلام اور دہشتگردی کو ایک سکے کے دو رُخ ظاہر کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنی بات کو اس طرح چمکایا کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف شمشیر اٹھائے ہوئے جنگجو کی طرح دِکھتے رہے۔ امریکہ کے عیسائی اور ہندو ووٹروںکو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ صدر بنتے ہی انہوں نے سات مسلم ممالک کے باشندوں کے امریکہ داخلے پر پابندی بھی عائد کر دی‘ لیکن بحیثیت صدر پہلی بار انہوں نے جب اپنا قدم باہر رکھا تو کس ملک کو چنا؟ سعودی عرب کو‘ جو ظہور اسلام کی جگہ ہے۔ ٹرمپ نے سعودی عرب میں دنیا کے 55 مسلم ممالک کے لیڈروں سے خطاب کیا۔ جو ٹرمپ کہا کرتے تھے کہ اسلام ہم سے نفرت کرتا ہے‘ سعودی عرب نے ہی نیویارک کے ٹوِن ٹاورز گروائے‘ وہی ٹرمپ سعودی عرب جا کر خوشامدی لہجے میں بولتے ہیں: اسلام ایک عظیم مذہب ہے۔ ریاض پہنچے کئی مسلم لیڈروں کو ٹرمپ بھائی بھائی کہہ کر بلا رہے تھے۔ ڈنر سے پہلے وہ محل میں ناچے بھی۔ یہ سب ناٹک کیوں کیا ٹرمپ نے؟ کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ 350 ارب ڈالر کے جنگی سازوسامان اور 200 بلین کے تجارتی سمجھوتے ہوئے ہیں۔ بیشتر ملکوں کے سالانہ بجٹ اتنے بڑے ہوتے ہیں۔ امریکہ کی تھکی ماندی اقتصادیات کے لیے یہ معاہدے خاصا سہارا بنیں گے۔ ادھر سعودی عرب کی جم کر تیل مالش بھی ہوئی۔ ٹرمپ نے بے وجہ ایران کو کوسا۔ اسے دہشت گرد بتایا۔ شاہ سلمان کے سُر میں سُر ملایا۔ ٹرمپ شاید بھول گئے کہ ایران میں حسن روحانی دوبارہ صدر بن گئے ہیں۔ وہ نرم ہیں اور امریکہ سے ایران کے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے انہیں نیک خواہشات کی بجائے نصیحت جھاڑی ہے کہ روحانی اپنا ایٹمی پروگرام بند کرے اور دہشتگردی کو بڑھاوا نہ دے۔ ٹرمپ اور ٹلرسن خارجہ پالیسی کے معاملات میں نوسکھئے ہیں۔ کیا انہیں پتا نہیں کہ روحانی کی سرکار ہی روس اور شام کے ساتھ مل کر آئی ایس آئی ایس کے دہشتگردوں سے لڑ رہی ہے۔ شاید ان دونوں لیڈروں کا ہدف اوباما کی پالیسیوں کو الٹنا بھی رہا ہے۔ اوباما نے ہی ایران کو ایٹمی پروگرام بند کرنے کی صلاح دی تھی۔ اگر ٹرمپ سعودی عرب اور ایران کو لڑا کر امریکی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو طے ہے کہ سنی‘ شیعہ تفرقہ بڑھتا جائے گا۔ سپر طاقت کہلانے والا امریکہ صرف ڈالروں کی خاطر ایسی چالیں چلا تو دنیا میں اس کی عزت کون کرے گا؟ ریاض میں ٹرمپ نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جو جُھنجھنے بجائے ہیں‘ ان کی آواز پر کون فدا ہو گا؟ ٹرمپ نے ریاض میں جو کیا ہے‘ وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے نہیں کیا۔ وہ ڈالر آنند کی حاصلات کے لیے کیا ہے۔
روحانی کی جیت سہانی
ایران کے صدارتی انتخابات میں روحانی کی جیت بہت سہانی ہے‘ کیونکہ گزشتہ کچھ دنوں سے یہ بات کی جا رہی تھی کہ روحانی شکست کھا جائیں گے۔ دنیا کے بہت سے تجزیہ نگاروں کو بھی لگ رہا تھا کہ روحانی ہار جائیں گے کیونکہ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای ان سے ناراض ہیں اور انہوں نے اپنے گہرے خادم ابراہیم رئیسی کو ان کے مقابلہ میں کھڑا کر دیا ہے۔ لوگ یہ مان کر چل رہے تھے کہ سپریم لیڈر‘ جس کے خلاف ہو‘ بھلا وہ ایران کا صدر کیسے بن سکتا ہے؟ ایران میں اب بھی مذہبی لیڈروں کا دبدبا بنا ہوا ہے۔ دیہاتی اور غریب لوگوں پر ان کا جادو اب بھی برقرا رہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ سب لوگ روحانی کے خلاف ووٹ دے کر ابراہیم رئیسی کو فاتح بنوا دیں گے۔ روحانی اپنی سابق سرکار میں ان مذہبی لیڈروں کے بیچ نامقبول ہو گئے تھے‘ جو امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ ان لیڈروں کا کہنا یہ تھا کہ روحانی نے مغربی ممالک کے پریشر میں آ کر ایٹمی معاہدہ کر لیا‘ جس کے سبب ایران بم نہیں بنا پائے گا۔ روحانی کو خامنہ ای نے بُرا بھلا بھی کہا‘ یعنی روحانی کے خلاف اسلام اور وطن پرستی دونوں کو ہتھیار بنایا گیا۔ اس کے باجود روحانی جیت گئے۔
اس شکست کا صدمہ خامنہ ای کو ضرور لگے گا لیکن ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ایرانی عوام کی رائے کا احترام کریں گے اور روحانی کو سرکار چلانے کی مکمل خود مختاری دیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایران اب بھی اقتصادی مشکلات سے جوجھ رہا ہے لیکن روحانی کو اس بات کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے ایٹمی مسئلہ سلجھا لیا ہے‘ جس کی وجہ سے ایران پر لگی کئی بین الاقوامی پابندیاں ہٹ گئی ہیں۔ وقت کے ساتھ اکانومی اپنے آپ پٹڑی پر آئے گی۔ روحانی کیونکہ نرم پنتھی ہیں‘ اس لیے وہ ٹرمپ جیسے ٹیڑھے لیڈر سے بھی تعلق نباہ کر لیں گے۔ اس وقت امریکہ اور روس بشارالاسد کی حمایت کر رہے ہیں‘ اور داعش کی مخالفت! روحانی بھی یہ کر رہے ہیں۔ عراق کی امریکہ پرست حیدری سرکار کو بھی ایران کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ روحانی نے بھارت ایران تعلقات کو بھی گہرا بنانے کی کوشش کی ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ بھارت بنا رہا ہے اور تیل و کانوں میں بھی کام کر رہا ہے۔ کل بھوشن یادیو کے معاملے میں بھی ایران بھارت کے ساتھ ہے۔ روحانی دہشتگردی کے مخالف ہیں۔ ان کا دوبارہ صدر چنا جانا جتنا ایران کے لیے مفید ہے‘ اتنا ہی جنوبی ایشیا (بھارت) کے لیے بھی ہے۔
تدبر کی کمی
نریندر مودی نے 15-14 مئی کو چین کے 'ون بیلٹ ون روڈ‘ پروگرام میں شرکت نہیں کی۔ نہ کوئی وزیر اور نہ ہی کوئی افسر بھیجا جبکہ دنیا کے تقریباً دو درجن ملکوںکے سربراہ اور لگ بھگ پچاس ملکوں کے نمائندے اس میں شریک تھے۔ چین سے یورپ تک زمینی راستہ اور بحری راستہ بنانے کی یہ سکیم اتنی بڑی ہے کہ وہ چین کو دنیا کا سب سے لائق تعریف ملک تو بنا ہی دے گی‘ ساتھ ساتھ وہ بھارت کو حاشیہ پر لا کھڑا کرے گی۔ جنوبی ایشیا کے سارے ملک (بھوٹان کے سوا) اس معاملے میں چین کے ساتھ ہیں۔ چین کے ساتھ بھوٹان کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس تجویز کے تحت چین ایشیا‘ افریقہ اور یورپ میں لگ بھگ چالیس ارب ڈالر سیدھے لگائے گا اور سو ارب ڈالر ایشیائی بینک کے ذریعے دے گا۔ چین کی پچاس کمپنیاں سڑکیں‘ بندرگاہیں‘ ریلوے لائن اور صنعتی علاقے وغیرہ بنانے کے 1700 پروجیکٹ پر کام کریں گی۔ اس تجویز کے پورے ہونے پر لگ بھگ ڈھائی کھرب ڈالر کی عالمی تجارت بڑھے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ مودی اور سشما کو ہمارے افسروں نے یہ سب نہیں بتایا ہو گا‘ لیکن ہماری سرکار کشمیر کو پکڑ کر بیچ میں جھول رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل جب نکلے گا‘ تب نکلے گا۔ ابھی اس کو ہم اپنی بیڑیاں کیوں بننے دیں؟ چینی پروگرام کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے افسروں کو ہی اس میں بھیج دیا جاتا۔ اس موقع پر خود مختاری کا برقع اوڑھ کر بھارت کا ناراض ہو کر بیٹھ جانا مجھے مناسب نہیں لگا۔ یہ دونوں ملک مل کر کام کریں تو جیسا میں کہتا رہا ہوں‘ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی بن جائے گی۔ لیکن بھارت میں اس معاملے میں تدبر کی خاصی کمی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved