تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-05-2017

کام نے بالکل نِکمّا کردیا!

ہمیں اِس بات پر اب تک حیرت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اِس منزل تک پہنچ کیسے گئے؟ وہاں اب تک کام کو زیادہ سے زیادہ آسان اور پُرلطف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہر آجر شعوری یا لاشعوری طور پر اِس امر کے لیے کوشاں رہتا ہے کہ اپنے ہر اجیر کو زیادہ سے زیادہ سُکون اور راحت پہنچائے۔ اور ایسا ممکن بنانے کے چکر میں وہ کام ہی کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ کام کو آسان تر اور زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنانے والے پر زور دینے والے ماہرین نفسیات دن رات تحقیق میں مصروف ہیں اور آجر اور اجیر دونوں کے سامنے اِس حوالے سے عجیب و غریب تجاویز کے ڈھیر لگاتے رہتے ہیں۔ 
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں کام ہی سب کچھ ہے ... جو کرتے ہیں اُن کے لیے بھی اور جو نہیں کرتے اُن کے لیے بھی! جس منزل تک ترقی یافتہ معاشرے تین صدیوں کے اعصاب شکن سفر کے بعد پہنچے ہیں ہم وہاں تک ایسی آسانی سے پہنچ گئے ہیں کہ دنیا ہمیں دیکھ کر حیران ہو تو اِس میں حیرت کی کوئی بات نہ ہوگی۔ 
کبھی آپ نے اِس نکتے پر غور کیا ہے کہ کام کے معاملے میں ہم اور ترقی یافتہ معاشرے ایک پیج پر ہیں؟ جی ہاں، کام کے معاملے میں آپ کو شرمندہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ فخر سے سَر اُٹھاکر چلیے اور جو بھی بات کہنی ہے سینہ تان کر کہیے۔ کام کوئی ایسا معاملہ نہیں جو ہمیں پچھاڑ دے اور دنیا کی نظروں میں شرمندہ کردے۔ ہم نے اِس اہم معاملے کو سینگوں سے پکڑ کر زیر کرلیا ہے۔ 
آپ سوچیں گے یہ کارنامہ کیسے انجام دیا گیا ہے؟ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کام کے حوالے سے تحقیق کے الاؤ کو زیادہ سے زیادہ دہکایا جارہا ہے۔ گویا تحقیق نہ ہو، جنہم ہو جس میں گنہگاروں کو ڈالا جانا ہے! ترقی یافتہ معاشرے ڈھائی تین صدیوں سے کام کرتے آئے ہیں اور اب اُنہیں خیال آیا ہے کہ کام تو بہت ہوچکا، اب اُس پر تھوڑی بہت تحقیق بھی کرلی جائے! آپ حیران نہ ہوں، ترقی یافتہ معاشرے ایسے ہی جیا کرتے ہیں۔ کیا آپ نے اپنے ماحول میں ایسے پیٹ بھرے لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں طرح طرح کی مستیاں سُوجھتی رہتی ہیں؟ جی جناب، پیٹ بھرے کی مستی ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ سب کے مسائل ایک سے نہیں ہوتے۔ بہت سوں کے لیے پیسہ کمانا مسئلہ ہوتا ہے تو چند ایک کے لیے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے رات دن بڑھتی ہی رہنے والی دولت کو خرچ کرنا! ترقی یافتہ معاشروں کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں تو ایسے میں مستی ہی سُوجھے گی اور سُوجھ رہی ہے۔ 
ترقی یافتہ معاشروں میں جاپان بھی شامل ہے۔ جاپانیوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ کام کے معاملے میں جنونی اور دَھتّی ہوتے ہیں۔ انہیں دن رات کام کے سوا کچھ نہیں سُوجھتا۔ اُن کی زندگی سے سب کچھ نکل چکا ہے۔ خانہ و اہلِ خانہ پر بھی وہ زیادہ توجہ نہیں دے پاتے۔ اور جب اہلِ خانہ پر توجہ نہیں دے پاتے تو پالتو جانوروں پر بھلا کیا توجہ دے پاتے ہوں گے۔ بس، یہی سوچ کر ایک جاپانی کمپنی نے اپنے دفاتر میں درجنوں بِلّیاں چھوڑ دی ہیں! کمپنی کو مشورے دینے والے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے کارکردگی کا گراف بلند ہوگا، ملازمین زیادہ دل جمعی سے کام کرسکیں گے۔ اُن کا استدلال ہے کہ لوگ گھر میں پالتو جانوروں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے اس لیے اُن میں کسی حد تک احساسِ جرم پایا جاتا ہے جو کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اچھا ہے کہ دفتر میں کام
کرتے ہوئے وہ بِلّیوں سے بھی پیار کرتے رہیں، اُن کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر اپنے احساسِ جرم کا گراف نیچے لاتے رہیں۔ ایسی صورت میں وہ گھر سے بھی خوش خوش آئیں گے اور دفتر میں کام کے دوران بھی خوش رہیں گے۔ 
بہت خوب۔ کام کا ماحول بہتر بنانے اور کارکردگی کا گراف بلند کرنے کا خوب نُسخہ ڈھونڈا ہے جاپانی ماہرین نفسیات نے۔ اگر واقعی ایسا ہے کہ بِلّیاں رکھنے سے دفتر میں کام کرنے والوں کو زیادہ سُکون سے کام کرنے کی تحریک مل سکتی ہے تو کل کو وہ یہ فرمائش بھی کرسکتے ہیں کہ چونکہ وہ اہلِ خانہ کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے اور اِس حوالے سے بھی احساسِ جرم کے اسیر ہیں لہٰذا کام کے دوران اہلِ خانہ بھی آنکھوں کے سامنے رہیں تو کام زیادہ اور آسانی ہوگا! 
ملازمین کو اِس نوعیت کی سہولتیں دینا ترقی یافتہ معاشروں کے چونچلے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسا کرنے سے کام زیادہ اور اچھا تو کیا ہوگا، جو تھوڑا بہت کام ہو پاتا ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اور آجروں کو ہوش اُس وقت آئے گا جب پانی سَر سے گزر چکا ہوگا۔ کام اوّل و آخر کام ہوتا ہے۔ اور اُسے کام کے طور پر ہی لینا چاہیے۔ 
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کام کے معاملے میں پاکستانی کتنے منفرد ... بلکہ وکھری ٹائپ کے واقع ہوئے ہیں؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ماہرین سے مدد لینا بھی ضروری نہیں۔ جو کچھ آنکھوں کے سامنے ہو اور سمجھ میں بھی آرہا ہو وہ بھلا ماہرین کی رائے کا محتاج کیوں ہونے لگا؟ آپ اپنے ذہن پر زور دیجیے یعنی ذرا سا سوچیے تو اندازہ ہوگا کہ دنیا بھر میں کام کیا جارہا ہے ... اور ہمارے ہاں؟ ہمارے ہاں کام ہو رہا ہے! جس چیز کے لیے باقی دنیا کو زور لگانا پڑ رہا ہے وہ ہمارے ہاں خود بخود واقع ہو رہی ہے! ہم پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں اور اِتنا جانتے ہیں کہ کام کے چکر میں پڑے تو سمجھ لیجیے گئے کام سے۔ ہمارے ہاں کام ہم نہیں جانتے، ہماری بلا جانتی ہے! 
اہلِ جہاں کو شاید کچھ اندازہ ہی نہیں کہ کام کو سنجیدگی سے لینا اور اُسے اپنے وجود یا معمولات کا حصہ بنالینا کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ تان بالآخر نفسیات کے ماہرین پر ٹوٹتی ہے۔ اور جس معاملے میں نفسیات کے ماہرین ملوث ہو جائیں اُس کی ناؤ کہاں بچتی ہے بلکہ حق تو یہ ہے اُس معاملے کا بیڑا غرق ہوکر ہی رہتا ہے! 
اور آپ نے دیکھ لیا کہ ماہرین نفسیات نے کام کے ماحول میں پالتو جانوروں کو انٹری دلاکر ہی دم لیا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی کارکردگی کس کام کی جس کا معیار بلند کرنے کے لیے بِلّی جیسے معمولی سے جانور کا سہارا لینا پڑے؟ 
کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے حوالے سے مرزا تنقید بیگ کی رائے ذرا وکھری ٹائپ کی ہے۔ وہ سرکاری ملازم رہے ہیں اور زندگی بھر کچھ نہیں کیا مگر اُنہیں معلوم ہے کہ کارکردگی کا گراف کس طور بلند کیا جاسکتا ہے۔ مرزا کا استدلال ہے کہ ہمارے ہاں لوگ جس انداز سے کام کرتے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے اُن کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے لیے دفاتر میں بِلّیاں نہیں، شیر چھوڑنے پڑیں گے! جنگل کا بادشاہ ہی ہمارے لوگوں کو کام کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے! 
اگر آپ حقیقی معنوں میں ''ٹپیکل‘‘ پاکستانی واقع ہوئے ہیں اور ترجیحاً مرزا کے ''پیٹی بھائی‘‘ (سرکاری ملازم) واقع ہوئے ہیں اور دفتر یا کام کے دوسرے کسی بھی ماحول میں کام سے زیادہ زندگی کے درجنوں دوسرے معاملات سے محظوظ ہونے پر یقین رکھتے ہیں تو مرزا کی رائے سے متفق ہونا آپ کے لیے ہرگز ضروری نہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved