تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-05-2017

گروی گھر اور پولیس

بوڑھی اور بیوہ ماں کے مدتوں سے غم زدہ اور دکھوں تکلیفوں سے مرجھائے چہرے پر آج خوشی دیدنی تھی۔ خوشی کیوں نہ ہوتی وہ گھر جو اس نے اپنے مر حوم خاوند کے ساتھ تپتی کڑکتی گرمیوں میں بنوایا تھا دو سال بعد وہ آج پھر اس کا ہونے والا تھا۔ وہ گھر جو اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو سعودی عرب بھجوانے کیلئے گروی رکھوا کر اس کا کرایہ ادا کئے جا رہی تھی آج پھر اس کی ملکیت بننے والا تھا وہ اکیلے ہی میں بیٹھی اس تصور سے ہولے سے مسکرا دیتی کہ ہر ماہ جو پیسے وہ اس گروی رکھے گئے مکان کے بدلے میں کرائے کے طور پر ادا کیا کرتی تھی اس کی کمیٹی ڈال کر بڑی بیٹی کی شادی کر دے گی۔ اس کا سعودی عرب سے آیا ہوا اکلوتا بیٹاارسلان گروی گھر چھڑانے کیلئے بینک سے رقم لینے گیا تھا جیسے جیسے اسے آنے میں دیر ہو رہی تھی ماں کو بے چینی سی ہونے لگی جن کے پاس مکان گروی رکھا ہوا تھا وہ بھی کئی بار ارسلان کا پوچھ چکے تھے بارہ بج گئے اور پھر ایک بج گیا اب ماں کی حالت یہ تھی کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ماں کا دل بہت سے خیالوں اور وسوسوں میں گھر چکا تھا۔ اس نے سوچا شائد ارسلان بینک سے رقم لے کر خود ہی ادائیگی کرنے چلا گیا ہو گا کہ ماں اس گرمی میں کہاں جائے گی۔ اچانک گلی میں شور سا اٹھا۔ دیکھا تو پولیس کے سپاہی ان میں سے کسی نے پاس آ کر نہ جانے کیا کہا کہ ۔ممتا دھک سی رہ گئی اور پھر اسے کچھ ہوش نہ رہا۔۔۔تین بجے کے قریب تمام ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز دے رہے تھے کہ شاہدرہ کے پرانے پل کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے پچیس سالہ نوجوان ارسلان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے اور جاتے ہوئے اس سے تمام رقم چھین کر فرار ہو گئے۔ موقع واردات پر موجود لوگوں نے بتایا ڈاکوئوں نے اس سے رقم چھینتے ہی اس کے پیٹ میں گولی مار دی۔ 1122 پر کال کی گئی لیکن اس دوران خون اس قدر بہہ چکا تھا کہ ارسلان ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی خالق حقیقی سے جا ملا۔ ارسلان جولاہور کی بڑی اور مرکزی سبزی منڈی کے بینک سے ڈھائی لاکھ روپے کے قریب رقم لے کر شاہدرہ اپنے گھر آ رہا تھا پرانے پل کے قریب وحشی درندوں کی بے رحمی کا نشانہ بن گیا۔
باپ کی شفقت سے محروم پچیس سالہ ارسلان تین بہنوں کا اکلوتا بھائی جب اپنی بیوہ بوڑھی ماں کو صبح سے شام تک گھر گھر کام کرتے ہوئے دیکھتا تو اندر ہی اندر کڑھنے لگتا اور پھر ایک دن اس نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہتے ہوئے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ کوشش اور بھاگ دوڑ کے باوجود سرکاری نوکری نہ ملی تو بڑی مشکل سے اس نے ایک چھوٹی سی فیکٹری میں معمولی سی ملازمت کر لی۔ صبح گئے گھر سے نکلتا اور شام کو واپس آتا اور پورے ماہ کی محنت کے بعد بجلی کے بل کی ادائیگی کے بعد اتنا بچتا کہ روکھی سوکھی کھا کر بشکل پندرہ دن گزرتے۔ چھوٹی بہنوں کا سلسلہ تعلیم بھی ختم کرنا پڑا وہ تو خدا کا شکر تھا کہ باپ اپنی زندگی میں ہی دو کمروں کا مکان بناکر دے گیا ورنہ کرایوں کی ادائیگی بھی وبال جان بن جاتی۔ فیکٹری میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ جتنا وہ کسی اچھی نوکری کی تلا ش کرتا اتنا ہی وہ اس سے دور بھاگتی اور پھر ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ''باہر چلا جائے‘‘ تاکہ گھر کے حالات سدھر سکیں اور ساتھ ہی جیسے تیسے ہو سکے اپنی تین چھوٹی بہنوں کے ہاتھ بھی پیلے کر سکے ۔
اس دفعہ جب اس کے محلے کا ایک جاننے والا سعودی عرب سے واپس آیا تو اس نے اپنی خواہش کاا ظہار کرتے ہوئے اس سے درخواست کی وہ اسے باہر بھجوانے میں مدد کرے جس پر ایجنٹ سے بات ہوئی اور معاملات دو لاکھ روپے میں طے ہو گئے لیکن یہ دو لاکھ روپے کہاں سے آتے ؟ یہ وہ سوال تھا جو پہاڑ کی طرح سامنے کھڑا تھا کئی دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کی گئی لیکن یہ سب لوگ ان کی طرح ہی غریب لوگ تھے اگر چند ایک تیار ہوئے بھی تو یہ دس بیس ہزار روپے سے زیا دہ کی قوت نہیں رکھتے تھے۔
اور پھر ایک شام دونوں ماں بیٹے نے ڈھائی لاکھ روپے میں گھر کو گروی رکھنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اس میں سے دو لاکھ روپے باہر بھجوانے والے ایجنٹ کو دینے کے بعد کچھ تیاری کیلئے اور باقی ایک ماہ کے ا خراجات کیلئے رکھ لئے جائیں اور پھر ایک صبح ماں بیٹے نے ڈبڈبائی آنکھوں میں روشن امید کے دیئے جلاتے ہوئے ڈھائی لاکھ میں اپنا مکان گروی رکھ دیا ۔فیصلہ ہوا کہ ارسلان دن رات محنت کرے گا اوور ٹائم لگائے گا اور ایک سال بعد واپس آ کر اپنے گروی رکھا ہوا گھر واپس لے لے گا۔۔۔اور پھر ارسلان نے ایسا ہی کیا وہ اپنا پیٹ کاٹتا رہا جس قدر ہو سکا اس نے محنت کی بھاگ بھاگ کر اوور ٹائم کرنے لگا۔۔۔اور جب دو سال مکمل ہوئے تو اس نے اپنے کچھ دوستوں سے ادھار رقم لینے کے بعد پاکستان کا رخ کیا تاکہ اپنے ماں باپ کے ہاتھوں بنائی جانے والی چھت کو پھر سے واپس لے سکے۔
ارسلان سعودیہ سے پاکستان پہنچا اور ایک دن 9 ہزار ریال لئے ہوئے گھر سے نکلا تاکہ بینک سے پاکستانی روپوں میں تبدیل کرا کر گھر کو واپس چھڑا لیا جائے لیکن خونخوار درندوں نے اس گھر کی سب خوشیاں چھین لیں ماں کی ممتا اجڑ 
گئی۔ تین بہنوں کا اکلوتا سہارا خون میں اس طرح نہلا دیاگیا کہ سب کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ ارسلان کو ڈاکوئوں نے سب کے سامنے دن دہاڑے قتل کر دیاجس کا مقدمہ لاہور کے تھانہ شفیق آباد میں ایف آئی آر987/2017 کے تحت درج ہو چکا ہے لیکن افسوس ناک بات دیکھئے کہ گھر والوں کو ابھی تک ایف آئی آر کی کاپی تک نہیں دی جا رہی۔ ارسلان کا باپ فوت ہو چکا ہے اب بیوہ ماں اور تین جوان بہنیں تھانوں کے چکر لگانے سے رہیں؟۔ دنیا میڈیا گروپ کے پرنٹ اور الیکٹرانک شعبوں سے تعلق رکھنے والے کرائم رپورٹرز سے گذارش ہے کہ اس بیوہ ماں کا یہ مقدمہ خود دیکھیں اس کی رپورٹس نشر کریں تاکہ اس کا فالو اپ لیا جاتا رہے یہ ان کے وقت اور جسم کی زکواۃ ہو گی ۔۔ لاہور میں بہت سے ایسے پولیس افسران موجود ہیں جو ڈاکوئوں کو پکڑ کر ان سے لوٹی گئی رقم بر آمد ہونے تک ڈھائی لاکھ روپے ادا کر کے ارسلان کی ماں کا گروی رکھا گیا گھر واپس کرا سکتے ہیں۔۔۔ لاہور میں اس وقت 80 سے زائد پی ایس پی پولیس افسران تعینات ہیں اگر ہر ایک اپنی زکواۃ میں سے پانچ ہزار روپے اس ماہ رمضان میں ارسلان کی ماں کیلئے وقف کر دے تو گروی رکھا گیا گھر اور ارسلان کا قرض اتر سکتا ہے؟۔ امجد جاوید سلیمی، ڈاکٹر حیدر اشرف اور مبشر میکن جیسے انسان دوست پولیس افسران کیلئے کوشش کرنا کوئی مشکل بھی نہیں۔۔۔ اچھی طرح یاد ہے شفیق آباد جب راوی روڈ تھانے کی پولیس چوکی ہوا کرتی تھی تو اس کی حدود سے اکٹھی کی جانے والی منتھلی سات لاکھ روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی ۔۔۔اور یہ تو صرف ڈھائی لاکھ روپے کی بات ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved