تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     26-05-2017

وزیرِ اعظم نے ٹرمپ کو لفٹ نہ کرائی

دنیا کی سب سے بڑی خبر کو جمہوریت مخالف رپورٹروں نے توڑ مروڑ کر پیش کر دیا۔ سوشل میڈیا پر ترقی دشمن جتھے حرکت میں آئے۔ تصویر پر تصویر اپ لوڈ کی۔ ساتھ لکھا فوٹو زوم کرو۔ نواز شریف کو عالمی اجتماع میں ڈھونڈ کر دکھا دو تو ٹرمپ اپنا نام بدل دے گا۔ حالانکہ ریاض میں اسلامی کانفرنس میں یوایس صدر ڈی جے ٹرمپ کی سربراہی پر پھڈا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ عالمی لیڈروں نے ہمارے طائرِ لاہوتی کی مِنت کی، ٹرمپ کے ساتھ فوٹو سیشن ہی کرا لیں۔ لیکن خیر ہو شیرکی اور2 سیکنڈ کی'' ہتھ جوڑی‘‘ میں ڈی جے کو ناک آئوٹ کر دیا۔ ریاض کانفرنس کی اصلی تے وڈی خبر تو یہ تھی کہ دنیا کے سب سے مقبول وزیرِ اعظم نے ٹرمپ کو لفٹ نہ کرائی۔ مگر آزادیِ اظہار کے نام پر اصلی خبر چُھپا لی گئی۔ ایک اور خبر بھی چُھپائی گئی۔یہی کہ اسلامی ممالک کے آزاد، خود مختار، دلیر اور نہ ڈرنے والے، نہ جھکنے والے لیڈر وں نے ٹرمپ کی کمر کس کر رکھ دی۔72 سال کے سینئر سیٹیزن کی گردن میں سونے، ہیرے، زیورات کے اس قدر تمغے لادے گئے کہ ٹرمپ کی گردن جُھک کر رہ گئی۔ جُھکی ہوئی گردن کی وجہ سے امریکی صدر یہ دیکھنے سے بھی قاصر رہے کہ ان کی تیسری یا چوتھی بیگم صاحبہ کی سکر ٹ کس قدر مقبول ہوئی۔
اگلے روز میں نے دوستوں کے ساتھ شام چکری میں گزاری۔ اپنے ہاتھ سے لگائے پودے سے آڑو توڑ کر کھانے کا مزہ چکھا۔ ملاوٹ کے بغیر تازہ دودھ حلق سے اُتارا پھر اسے ہضم بھی کر لیا ۔ چھت پر بچھی چار پائی پر لیٹ کر قطبی ستارے سے آنکھیں چار کیں۔ نہ مچھر ،نہ ٹریفک ،نہ پانامہ، نہ ڈان لیکس۔ ساتھ والے گائوں ڈھیری کے محب بزرگ چو ہدر ی مشتاق ٹھیکے دار نے تمغوں کی بات چھیڑ دی ۔ ان گنت ستارے اور کہکشائیں مجھے ورغلانے لگیں۔ خیال آیا افغان صدر اشرف غنی نے یقینا ٹرمپ کو'' مدر آف آل تمغہِ بم باری‘‘ پیش کیا ہو گا۔ یمن کے مفرور صدر نے امریکہ بہادر کے تازہ خلیفہ جی کو ''نیپام بم البم‘‘ بطور تمغہ پیش کی ہو گی ۔ ساتھ ہی صنعا اورعد ن میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکہ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی جانب سے ''امن کا ضامن گولہ بارود‘‘ تیار کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا ہو گا ۔ بلاد الّشا م کی انتہائی پُر امن اپوزیشن کے عین جمہوری اتحاد نے شام کے دس لاکھ بچوں کو یتیم کر کے پھر انہیں بین الاقوامی پدرانہ شفقت کا سایہء عاطفت مفت مہیا کرنے پر '' تمغہِ سلامتی‘‘ پیش کیا ہو گا۔اسی طرح عراق کے مقبول ترین عرب دوست لیڈر نے صدام حسین کے بعد ہر علاقے میں وارلارڈز پیدا کرنے ، پھر ان کے ذریعے،پانچ صد مکمل طور پر خود مختار علاقے تخلیق کرنے پر ''تمغہ ِ سلامِ اخُوت‘‘ پہنچایا ہو گا ۔ ساتھ ہی ٹرمپ کو عراقی تیل کی بدبو سے مقامی آبادی کو مکمل نجات دلانے پر ''عربی تمغہِ پیٹرولیم‘‘ بھی پیش کیا ہو گا ۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے جب سے ڈی جے کو لفٹ کرانا چھوڑی تب سے حسین نواز شریف نے پاناما کی جے آئی ٹی کو لفٹ کرانا بند کی۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے جے آئی ٹی کے 2 ارکان کے سخت رویے پر سخت ترین احتجاج کیا۔ ان کا احتجاج100 فیصد جائز ہے ۔ آپ خود دیکھیں دنیا کے کس ملک میں 17/18 گریڈ کے سرکاری ملازم وزیرِ اعظم ، ان کے بچوں اور عزیزوں کی تفتیش کرنے کی جر ات کر سکتے ہیں۔ پچھلے 36 سال میں نواز شریف نے ٹرمپ کی طرح ایسی کسی تفتیشی ٹیم کو بھی لٖفٹ نہیں کرائی ۔ یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی ہدایت کے بل بوتے پر شیروں پر بھی شیر بن گئی ۔سپریم کورٹ میں اخباروں اور ٹی وی چینلز کے کورٹ رپوٹروں نے جے آئی ٹی پر ٹیمِ شریف کے انتہائی شریفانہ اعتراضات پر سوال پوچھے۔ کچھ سوال و جواب یہ تھے۔ 
سوال: پاناما کیس کی جے آئی ٹی پر شریف فیملی کے اعتراضات کی قانونی حیثیت کیا ہے ؟
جواب: شریف فیملی کی حد تک یہ اعتراض قانونی ہیں۔ آئینی طور پر بھی ٹھیک ۔ہاں البتہ اگر ایسا اعتراض ایڈمرل فصیح بخاری کرے توظاہر ہے توہینِ عدالت ہو گی، یہی اعتراض کوئی پارٹ ٹائم پوٹھوہاری وزیرِ اعظم کرے اور کہے وزیرِ اعظم کو صوابدیدی فنڈ رکھنے کا اختیار ہے تو یہ بھی توہینِ عدالت ہے۔ 
سوال: سپریم کورٹ کے کسی آرڈر یا ٖ فیصلے پر اعتراض اُٹھانا درست ہے؟ 
جواب: اگر الزام خادمِ اعظم پر یا خادمِ اعلیٰ پر آئے تو بالکل غلط ہے ۔ خادمِ اعظم سپریم کورٹ کو ڈوگر کورٹ کہنے کا استحقاق رکھتے ہیں اور مرضی کے منصفوں کے چُنائو کا بھی ۔ خادمِ اعلیٰ پر الزام آئے تو انہیں یہ کہنے کا مکمل اختیار ہے جسٹس باقر نجفی نے ماڈل ٹائون رپورٹ دے کر قانون کا مذاق اُڑایا۔ اگر ملزم لاڑکانے کا وزیرِ اعظم ہو تو اس کا مقدمہ مولوی مشتاق کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جچتا۔ملزم نواب شاہ کا زرداری ہو ساتھ شہید ذولفقار علی بھٹو کا داماد تو اس کے کیس کے لیے جنرل ضیاء الحق کے بھانجے سے اچھا جج کون ہو سکتا ہے ۔ 
سوال: آئین یا قانون میں سپریم کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے کا طریقہ کار کیا ہے ؟
جواب: اگر مقدمہ اس نائب قاصد کا ہو جسے پاک سیکرٹریٹ کے بڑوں نے ریٹائرمنٹ کے آخری دنوں میں ڈگری یافتہ بیٹے کو نائب قاصد کی نوکری یہ کہہ کر دینے سے انکار کر دیا کہ ملازم کی زندگی میں اس کے بیٹے کو نوکری نہیں مل سکتی۔ نائب قاصد سیکرٹریٹ کی چھت پر پہنچا، چھلانگ لگائی۔ اپنی لاش بیٹے کے کندھے پر ڈالی اور اسے باپ کے کوٹے پر نوکری کا حق دار بنا دیا۔ایسی صورت میں اعتراض کرنے والاآئین کے آرٹیکل 188 کے تحت دس ہزار روپے خزانے میں جمع کروائے گاسپریم کورٹ رولز اینڈ آرڈرز نمبر 26 کے نیچے نظر ثانی کی درخواست دائر کرے گا۔ لیکن اگر الزام علیہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے توپھر وہ اعتراض پہلے میڈیا میں اُٹھائے گا ۔ اس کے بعد سوچے گا کہ اسے طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ ساڑھے 9 سال بعد کس کے پاس سنوانا ہے۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے ، اس پہ شہری قوانین کہاں لا گو ہو سکتے ہیں۔ شہری قوانین شہریوں یعنی رعایا پر لاگو ہوتے ہیں۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا۔
اصل موضوع کی طرف واپس چلتے ہیں ،وہ ہے ہماری برگزیدہ عالمی ہستیوں کے بارے میں غلط خبروں کی تشہیر۔ کچھ نادان سمجھتے ہیں امریکی صدر نے اسرائیل سے زیادہ محبت کا اظہار کیا ۔ یہ پراپیگنڈا سرا سر جھوٹا ہے، جس عقیدت سے ٹرمپ نے مسلم قیادت کو '' اُمہ‘‘ کی فلاح و بہبود کے لیے مفت مشورے دیے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں موصوف نے اسرائیل کوذرہ برابر لفٹ نہیں کروائی۔ ٹرمپ جیسے عالمی سکالرنے مسلم ملکوں کے بادشاہوں، صدور، وزرائے اعظم سے خطاب کر کے ہماری عالمی برتری کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ٹرمپ نے مسلمانوں کی طاقت میں مز ید اضافہ کرنے کا نسخہ بھی بتا دیا ۔ فرمایا، آپس میں مزید لڑو، فرقہ بازی کو مضبوط بنائو، ایک دوسرے کو دہشت گرد جانو، مسلم زمینوں پر فرمائشی بم باری کرانے کے بل وقت پر ادا کرو، اسی میں تمہاری نجات ہے ۔ اسی ذریعہ سے تم اقوامِ عالم میں سُرخرو ہو سکتے ہو۔ ساتھ ہی پوری درد مندی اور دردِ دل سے یہ تک کہہ دیا۔'' اپنی دنیا کو جنت میں تبدیل کرنا چاہتے ہو تو ایک دوسرے کی صفوں میں دشمن تلاش کرو اور انہیں سفرِ آخرت پر بھجوانے کا سکور بہتر کرو‘‘۔ جہاں تک وزیرِ اعظم کا ریاض میں تقریر نہ کرنے کا سوال ہے اس کی وجہ سیدھی ہے۔ اگر کوئی پیر صابر شاہ جیسا خالص پاکستانی وہاں گو نواز گو کہہ دیتا تو ہمیں خواہ مخواہ ٹرمپ کو لفٹ کرانی پڑ جاتی جو ہماری عزت کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ 
ہاں البتہ ریاض کانفرنس اس ہفتے میں رکھی گئی جب اسرائیل 24 مئی کو یومِ فتح القدس کی چُھٹی مناتا ہے۔(بلاتبصرہ)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved