سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں دو دِنوں کے اندر تین سربراہی کانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے بین الاقوامی دورے کا آغاز ریاض سے کر رہے تھے۔ انہیں سب سے پہلے تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کرنا تھی۔ اس کے بعد خلیجی ممالک کے سربراہان سے مذاکرات کا اہتمام تھا۔ تیسری اور آخری کانفرنس میں 55 مسلمان ممالک کے انتہائی اعلیٰ (یا کم تر) سطح کے ذمہ داران کو شریک ہونا تھا۔ آخری اجتماع چونکہ بڑا تھا، اس لئے یہ جلسہ ٔ عام کی صورت اختیار کر گیا۔ ہم کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ریاض پہنچے تھے، ہماری دلچسپی بھی اسی سے تھی... کانفرنس سنٹر ایک انتہائی وسیع عمارت ہے، اور اس میں سینکڑوں کیا ہزاروں افراد کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہاں ایک میڈیا سنٹر قائم کیا گیا تھا جبکہ دوسرا ایسا سنٹر یہاں سے کچھ فاصلے پر میریٹ ہوٹل میں تھا۔ پاکستانی میڈیا پرسنز میں سے جو اول الذکر جگہ پر پہنچ گئے، وہ وہیں چپک گئے کہ یہاں بیٹھ کر معزز مہمانوں کی قربت کا (نفسیاتی) احساس ہوتا تھا‘ جو یہاں آتے اور چند قدم کے فاصلے پر بند دروازوں اور اونچی دیواروں کو باری باری پار کرتے جا رہے تھے۔ ہر چند کہ ان سے ہماری ملاقات ٹی وی سکرینوں ہی کی مرہون منت تھی۔ 81 سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز چھڑی کے ساتھ کھڑے تھے اور ایک ایک مہمان سے مصافحہ کر رہے تھے۔ عرب روایات کے مطابق میزبان اپنے ہر مہمان کو ذاتی طور پر خوش آمدید کہتا ہے کہ اس کے بغیر مہمان نوازی کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ سعودی بادشاہت عجمی تکلفات میں پوری طرح ڈوب نہیں سکی، اپنے عوام سے بادشاہ کا براہِ راست تعلق ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ برسوں پہلے جب شاہ فیصل شہید نے ایران کا دورہ کیا تھا تو سعودی سفارت خانے میں شہنشاہ ایران کے لیے جوابی عشائیے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ اس میں تہران کے معزز شہری سینکڑوں کی تعداد میں مدعو تھے۔ شاہ فیصل دروازے پر کھڑے ہو کر مہمانوں سے مصافحہ کرنے لگے تو پروٹوکول کی مجبوری سے شہنشاہ ایران کو بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا۔ یوں ایرانی باشندوں کو اتنی بڑی تعداد میں پہلی بار اپنے بادشاہ سے مصافحے کا شرف حاصل ہوا کہ شہنشاہ ایران کے نزدیک عام شہریوں سے مصافحہ کرنا، ان کو خلعت فاخرہ عطا کرنے کے مترادف تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف کانفرنس میں وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے ہمراہ پہنچے۔ کیمروں کی چکا چوند نے ان لمحات کو محفوظ کیا، اور اس کے بعد وہ ہجوم میں گم ہو گئے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئے تو دوسرے مہمانوں کے ساتھ گھل مل گئے۔ وزیر اعظم سے بھی ان کی گرما گرم ملاقات ہوئی، اور رسمی جملوں کے تبادلے میں ڈھل گئی۔ کانفرنس دیر سے شروع ہوئی، لیکن اس کا اختتام وقتِ مقررہ پر کر دیا گیا۔ ہم لوگ ٹیلی ویژن پر ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے، اور اپنے وزیر اعظم کی تقریر کا انتظار کر رہے تھے، لیکن جب یہ منظر دیکھنے کو نہ ملا، تو سب کے چہرے لٹک گئے۔ طیارے میں وزیر اعظم کو اپنے رفقا کے ساتھ تقریر کی نوک پلک درست کرتے پایا تھا، یا یہ کہیے کہ اس کا اندازہ لگایا تھا۔ یہ تقریر کانفرنس کے منتظمین کو پیشگی بھجوا بھی دی گئی تھی... لیکن کانفرنس کے خاتمے کی وجہ سے اسے سننے کا موقع نہ مل سکا۔ وزارتِ خارجہ یا سفارت خانے کا کوئی اہلکار بریف کرنے کے لیے موجود نہیں تھا، اس لیے اپنے اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑائے جانے لگے۔ کانفرنس میں ایران کے بارے میں تند و تیز لہجہ اختیار کیا گیا تھا۔ شاہ سلمان نے کھلے الفاظ میں اس پر تنقید کی تھی، توقع تھی کہ جلالۃ الملک پاکستان کا ذکر کریں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے ہزاروں افراد شہید ہو چکے، اور اس کی مسلح افواج کے سابق سربراہ کو سعودی سائے میں قائم ہونے والی اسلامی فورس کی کمان سونپی گئی ہے لیکن یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ ہماری وزارتِ خارجہ اگر بروقت کچھ حرکت کر لیتی تو شاید برکت پڑ جاتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی میزبانِ اعلیٰ کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے پُر زور تھے، دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ممالک کا ذکر کرتے ہوئے انڈیا کا نام لے کر، اور پاکستان کو نظر انداز فرما کر ہمارے سینے پر چرکے لگا چکے تھے۔ اس ماحول میں فقہ جعفریہ کے مطابق غم و غصہ بے پایاں تھا، جبکہ فقہ حنفیہ حالات پر غیر جذباتی نظر رکھنے کی تلقین کر رہی تھی... یہ کانفرنس دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو مربوط کرنے کے لئے تھی، ایران اور شام یہاں مدعو نہیں تھے۔ مصر، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے سربراہ بھی ایران کو ہدفِ تنقید بنانے میں پیچھے نہیں رہے۔ ہم پاکستانیوں کو یہ اندازہ تو تھا کہ ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ناخوشگوار ہیں، لیکن اس اندازِ اظہار کے لیے ہم تیار نہیں تھے۔ ہم میں سے ایک، دو دِل پکڑ کر بیٹھے تھے، اور ایک، دو اپنا غصہ اپنے آپ پر، اپنی حکومت پر اور اپنے وزیر اعظم پر نکال رہے تھے۔
یہ بات درست ہے کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے، اس سے ہمارے تعلقات کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے جو بھی شکایات رہی ہوں، انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ جھٹکا نہیں، لیکن عالمِ اسلام اور امریکہ بہادر کے اس مشترکہ اجتماع میں جہاں 55 مسلمان ملکوں کی نمائندگی تھی، ایران کے خلاف شدید جذبات کا اظہار خیال کیا جا رہا تھا۔ سعودی بادشاہ اور ان کے ہونہار فرزند محمد بن سلمان نے اپنی متحرک ڈپلومیسی کے ذریعے اپنی چھتری کے نیچے سب کو جمع کر لیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو وہ شیشے میں اتار چکے تھے، (یا ان کے شیشے میں تشریف فرما تھے) اپنے عوام کو مطمئن کر گزرے تھے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ ایک دنیا ان کے ساتھ ہے اور کوئی میلی آنکھ اٹھا کر ان کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔ سعودی حکومت تاریخ میں پہلی بار ڈرائیونگ سیٹ پر تھی یا یہ کہہ لیجئے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا تہیہ کئے ہوئی تھی۔ یہ کانفرنس پاکستان کے لئے نہیں تھی، نہ وہ اس کے میزبانوں میں شامل تھا۔ وہ عالمِ اسلام کا ایک حصہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود تھا کہ اس کے نظریاتی تعلقات اور مفادات سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے وابستہ ہیں۔ نواز شریف دولہا تھے نہ شہ بالا، وہ ایک باراتی تھے اور اس پر غیر مطمئن نہیں تھے۔ تقریر کرنے والوں میں ان کا نمبر حروف تہجی (پی فار پاکستان) کے اعتبار سے درج تھا لیکن اگر ان کی تقریر ایران کے معاملے میں محتاط نہ ہوتی تو شاید اس کا نمبر پہلا یا دوسرا ہو جاتا۔
عرب دُنیا میں چالیس لاکھ سے زائد پاکستانی برسرِ روزگار ہیں، دس سے پندرہ ارب ڈالر کما کر ہر سال پاکستان بھیجتے ہیں۔ مشکل کی ہر گھڑی میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا اور اسی کے تعاون نے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمیں دیوالگی سے بچایا۔ عالمِ اسلام کے کسی دوسرے ملک نے پاکستان کے ساتھ وسعت قلبی کے وہ معاملات نہیں کئے جو سعودی عرب کے حصے میں آئے۔ پاکستان سعودی عرب کو ناراض نہیں کر سکتا۔ ہمیں ہر قیمت پر عالمِ اسلام کے ساتھ تیرنا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہماری سیاست اور صحافت کے کئی حصے ہر تعلق کو نشانہ بنا گزرتے ہیں‘ شاید اس ہی کے سبب متحدہ عرب امارات کے شہزادہ محمد سے (مبینہ طور پر) فاصلہ پیدا ہو چکا ہے، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گہرے رابطے میں ہیں، اگر وہ چاہتے تو ان کی تقریر میں پاکستان نظر انداز نہ ہوتا۔ ایران اس وقت جہاں ہے، اس سے ہمدردی کا اظہار ہو سکتا ہے، وہ اگر اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لئے سفارت کاری پر آمادہ ہو، شکایات کو دور کرنے کے لئے تیار ہو تو پاکستان اس کی معاونت کر سکتا ہے، لیکن اس کی بلا اپنے سر نہیں لے سکتا۔ اس کی تنہائی دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو تنہا نہیں کر سکتا۔ ایران کو حالات کا ٹھنڈے دل اور گہری نظر سے جائزہ لینا ہو گا۔ پاکستان ایران سے نہ لڑنا چاہتا ہے، نہ عالمِ اسلام کو اس سے لڑنے دینا چاہتا ہے کہ اس کا نقصان صرف ایران کو نہیں ہو گا۔ سعودی عرب کو ناراض کئے بغیر ہمیں ہوا کا رخ بدلنا ہے، لیکن اس کے لئے ایران کا تعاون درکار ہو گا۔ یہ ایک نیا پل صراط ہے، اس پر چلنا پڑے گا کہ گڑھے میں گرنے سے تبھی بچ سکیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)