تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-05-2017

سید انیس شاہ گیلانی کا سفرنامہ اور خانہ پری

بیکل اتساہی غزل بھی لکھتے ہیں : فرمایا مشاعروں میں گیت پڑھنا میں نے شروع کیا۔ جگر مراد آبادی کی موجودگی میں گیت الاپے تو وہ بہت جز بز ہوئے‘ چپ کیوں رہتے‘ برملا کہا یہ مشاعرہ ہے یا نوٹنکی‘ لیکن اب گیت مقبول ہے‘ میں نے ہندی کے لفظ گیتوں سے لیے ہیں۔ بے شمار ہندی گیت لکھے کوئی مشاعرہ میرے بغیر مشاعرہ نہیں سمجھا جاتا۔ اپنے حلقے میں اسکول اور مدرسوں کا جال پھیلا چکا ہوں۔ زرعی زمینیں ہیں اور اپنی پٹھان برادری کو متحد بھی کر لیا ہے۔ سول سروس سے شاکی تھے۔ مانیکا کے ساتھیوں کی غیر ضروری پکڑ دھکڑ نے کہتے تھے مانیکا کو آگے بڑھایا ہے۔ بیکل صاحب کی سیاہ داڑھی میں سفید بالوں کی دو گچھیاں سی بھلی لگ رہی تھیں۔ میں نے ''محفلے دیدم‘‘ کا ایک نسخہ پیش کیا۔ نام بے حد پسند آیا۔ بار بار پڑھتے تھے‘ محفلے دیدم‘ محفلے دیدم‘ بھئی خوب نام ہے۔ میں اس داد پر آداب بجا لایا اور اپنی بیاض کچھ عطا کرنے کے لیے آگے بڑھا دی۔ لکھتے ہیں کچھ اشعار جو میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ معلوم نہیں مجھ ایسے دیہاتی ماحول کے پروردہ سے کیسے ہو گئے۔ کاش آپ بھی پسند فرما لیتے ؎
سب کے ہونٹوں پہ تبسم تھا مرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا
آپ اور یہ لب دریا‘ یہ سلگتے نغمے
آگ لگ جائے گی پانی میں‘ کنارے رہیے
سُکھا کے سارا سمندر برس گیا کھُل کر 
وہ ایک قطرہ جو خاموش آنسوئوں میں تھا
جس کی ہر شاخ پہ رادھائیں مچلتی ہوں گی
دیکھنا کرشن اُسی پیڑ کے نیچے ہوں گے
اونچی اونچی بلڈنگیں بنیں
لوگ بے مکان ہو گئے
بیکل اُتساہی بلرام پوری‘ 11 اکتوبر 1972ء دہلی
رئیس صاحب کو تو کہیں جانا آنا تھا نہیں۔ میں نے سوچا چلو آج پیدل چلتے ہیں۔ تلک روڈ نئی دہلی سے اردو بازار پرانی دلی تک سیر دیکھتا ہوا چلا گیا۔ کہیں والی بال ہو رہا تھا کہیں کرکٹ۔ ایک کارخانے میں بھی گھُسا‘ دو سے چار ہزار روپے پرانی موٹر کو نئے پرپرزے لگانے کی اجرت بتائی گئی۔ سائیکل رکشہ جگہ جگہ پیدل چلنے والوں کا راستہ روکے ہوئے۔ اس کا مطلب ہے رکشہ چلانے والے کہیں آرام فرما ہیں۔ برقع ابھی تک مسلمان خواتین میں رائج ہے کالا برقع تو خیر ہے ہی‘ تعجب سفید برقعے پر ہوا۔ اسے حرارت ایمانی پر محمول کر سکتے ہیں‘ آپ اور روایات کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ ایک زنانہ ہسپتال ہمیں راستے میں پڑا۔ اندر جا کر دیکھا۔ نہایت گندہ اور بدبودار۔ دیواروں پر میل جمی ہوئی۔ بالکل کالک لگی ہوئی حوض قاضی اور آس پاس کی گلیوں کا معاملہ(ٹریفک) یکطرفہ کر دیا جائے تو آنے جانے کی سہولت ہو جائے ورنہ بقول رئیس صاحب پرانی دلی سے بہ عافیت گزر جانا پل صراط عبور کرنے سے کم نہیں۔ ایک جنازہ بھی جاتے ہوئے دیکھا۔ آگے آگے ڈھول تاشے باجے اجمیری دروازہ خونی دروازہ سبھی دروازے دیکھے۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی پرانی تاریخی چھوٹی موٹی یادگار موجود بڑے دروازوں کے اردگرد تو آہنی جالی دار دیواریں کھینچ دی گئی ہیں۔ باقی سب مٹتی جاتی ہیں۔ بڑی بڑ عمارتوں کی نشاندہی کی گئی ہے صرف دیواریں کھینچ کر۔ محفوظ رہ جائیں مدتوں ایسی کوئی بات نہیں۔ سائیکل رکشائوں سے بھی چھکڑوں کا کام لیا جا رہا ہے۔ ایک ڈبا سا‘ ایک ڈربہ سا بنا دیا گیا ہے جس میں میں نے دیکھا تو چھوٹی چھوٹی بچیاں اسکول لے جائی جا رہی ہیں۔ ہندوستان میں ہر کام ملکی مصنوعات سے لیے جانے کی روش عام ہے۔ وہ کسی کا دست نگر بن کر جینا نہیں چاہتے۔ فضول خرچ نہیں بے حد کفایت شعار‘ یہ بڑی بات ہے۔ فلموں کی نہیں ایسی باتوں کا چربہ ہمارے یہاں بھی اترے تو بہت اچھا ہو۔ یورپ سے ہمارا کیا مقابلہ لیکن ہندوستان سے تو ہمارا ہر بات میں موازنہ ہونا چاہیے۔ اچھی باتوں کی نقالی کیوں نہ کی جائے۔ ہم نے اپنی اچھی باتوں کو چھوڑا‘ یورپ نے اپنایا۔ 
اسٹار پبلی کیشنز کے امرناتھ کی طرف نکل گیا۔ یہ ہمارے فیروز سنز کی ٹکر کا اشاعتی ادارہ ہے آصف علی روڈ پر‘ صرف ہندی اور انگریزی کتابیں چھاپتے ہیں اردو کا گزر نہیں ہے۔ امرناتھ تو بیرون ملک دورے پر گئے ہوئے تھے دوچار روز میں آنے والے ہیں ان کے صاحبزادے نے یہی بتایا لیکن وہ میری موجودگی میں وارد ہی نہ ہوئے۔ نوجوان نے چائے سے تواضع کی۔ کافی دیر تک کتابیں سونگھ سونگھ کر میں چلا آیا۔اور اب بطور خانہ پری یہ تازہ غزل:
گناہوں سے رخصت نہیں چاہیے
ابھی مجھ کو جنت نہیں چاہیے
محبت کو نیکی سمجھتا ہوں میں
مجھے اس کی قیمت نہیں چاہیے
جو بے عزتوں کی طرف سے ملے
مجھے ایسی عزت نہیں چاہیے
تمہاری توجہ کا طالب ہوں میں
تمہاری نصیحت نہیں چاہیے
میں خود ہوگیا ہوں شریف ایک دم
سو‘ مجھ کو شرافت نہیں چاہیے
فسانہ ہی اتنا مزے دار ہے
کسی کو حقیقت نہیں چاہیے
خدا کا بھی ایک آدھ ٹکڑا تو ہو
مجھے صرف خلقت نہیں چاہیے
ہوئے ایسے فارغ زرومال سے
اب اُن کو حفاظت نہیں چاہیے
مجھے بات کرنے کی خاطر‘ ظفرؔ
کسی کی اجازت نہیں چاہیے
آج کا مطلع
عجب کوئی روانی کر رہا ہوں 
کسی پتھر کو پانی کر رہا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved