تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-05-2017

وزنی معدے کا تازہ بجٹ

منٹو سے منسوب یہ شاہکار فقرہ کس کے لیے کہا گیا،مجھے معلوم نہیں ۔آپ جانتے ہوں تو براہِ کرم ضرور بتائیے گا۔منٹو نے کہا تھا۔
''وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لیے آگے بڑھے ،اُسے لات مار کر باہر نکال دیجئے‘‘ 1947 ء میں ہم کہا ں کھڑے تھے اور آج کہاں آ پہنچے؟ ۔اس کا اندازہ لگانے کے لیے تاجر جمہوریت کے 5ویں بجٹ میں بننے والے2ریکارڈ دیکھ لینا ہی کافی ہو گا۔پہلا ریکارڈ:مزدور کی تنخواہ میں 1 ہزار روپے کا ماہانہ اضافہ۔جب کہ صدر ممنون کی تنخواہ میں 6 لاکھ روپے ماہانہ کا اضافہ ہو گیا۔مزدور کی تنخواہ 14000روپے ماہانہ سے بڑھا کر 15000ماہانہ کر دینے کا صرف اعلان ہوا۔مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ لاری اڈے،ورکشاپوں،اینٹ کے بھٹوں،گھروں میں کام کرنے والے بچے اور بچیاں،کھیت مزدور،دیہاڑی دار،اور بے روزگار کو 15000روپے ماہانہ تنخواہ دے گا کون؟۔اور اگر کوئی آجر یا تاجرکسی ورکر یا اجیر کو 15000 کی بجائے 5000روپے تنخواہ دے گا تو قانون یا مزدور اس کا کیا بگاڑلے گا؟۔لہٰذا مزدور کی تنخواہ میں اضافے کا وعدہ ویسا ہی ہے جیسا لوڈشیڈنگ نہ ختم کرنے پر نام بدلنے کا وعدہ ہوا تھا۔جہاں تک صدر ممنون کی تنخواہ کا تعلق ہے،ان کی دس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ میں 6لاکھ روپے کا ہلکا پھلکا اضافہ گار نٹی شدہ ہے۔کیونکہ بھاری معدے کے تازہ بجٹ کو قانون کی زبان میں فنانس ایکٹ مجریہ2017 ء کہا جائے گا۔اس فنانس ایکٹ کو پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد بھی قانون کا درجہ تب ہی حاصل ہو سکے گا،جب اس میزانیہ پر وہ شخص دستخط کرے گا جس کی تنخواہ میںصرف 6لاکھ روپے ماہانہ کا اضافہ ہوا ۔لہذا اس اضافے کو بلا خوفِ تردید ''منی بیک ‘‘ گارنٹی والا اضافہ کہاجا سکتاہے۔لیکن میں ایسا ہر گز نہیں کہوں گا۔ کیونکہ مزدور اور حکمران میں بندہ و آقا کی ازلی تقسیم چلی آتی ہے ۔ جسے نظامِ سرمایہ داری نے پاکستان کے غریب عوام اورورکنگ کلاس کامقدر بنا دیا ہے۔
صدر کا طبقہ ایلیٹ کہلاتا ہے جبکہ مزدور طبقہ کمیّ۔ بھاری معدے کے تازہ بجٹ کا دوسرا ریکارڈ بھی طبقاتی تقسیم کا عظیم شاہکار ہے۔ایک طرف ملک کی 52 فی صد اکژیت خواتین پر مشتمل آبا دی ہے۔جو کہیں کھیت میں کام کرتی ہے، کہیں پر اینٹیں ڈھونے کی مشقت ۔محنت کش ، مڈل کلاس، دیہاتی خواتین اور ورکنگ وومن کی زندگی میں تفریح یا آوٹنگ نام کی بھی نہیں۔ میلے بم حملوں نے اجاڑ کر ثقافت کے ٹھیلے بنا دیے۔ لے دے کر خواتین کے لیے صاف نئے کپڑے ، زیب و زینت کا سامان اور آرائش کے لیے چند میک اپ ٹپس بچتی تھیں۔ آئی ایم ایف نے خواتین کی خوشیوں کو سزائے موت سنوا دی۔ دبئی میں بیٹھ کر سمدھی اور درآمدی ٹیم نے جو بجٹ بنایا اس میں خواتین کے لیے کوئی ہلکا سا ریلیف رکھنے کی بجائے کاسمیٹکس، پرفیوم، کپڑے وغیرہ پر نئے ٹیکس لگ گئے۔ اس کے مقابلے میں بھاری معدے کے تازہ بجٹ نے ملک کے میگا بلڈرز اور ٹائیکون ڈویلپرز کے آگے سجدہ ِ سہو کیا ۔ کمائی کی ان مشینوں پر فکسڈ ٹیکس واپس لینے کا اعلان کر دیا جو ابھی 11 ماہ پہلے پچھلے سال کے مالی بجٹ میں نافذ کیا گیا تھا۔بجٹ 2017 ء نے کئی اور ریکارڈ بھی بنا دیے ۔مثلاََ ملک کی سیاسی جماعتوں کو انکم ٹیکس فری چندہ اور پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں، اربوں روپے ہتھیانے کی چھوٹ ملی۔ مولوی حضرات پہلے ہی چندہ، فنڈ، فطرہ، زکوٰۃ، اور کھالیں جمع کر کے سیاسی دکانیں چمکا لیتے تھے۔ اب تازہ بجٹ نے محمود اور ایاز مفاد پرستی کی ایک ہی صف میں لا کر کھڑے کر دیے ہیں۔ غریبوں کے لیے مہنگائی کے اس سرجیکل موسم میں سمدھی صاحب نے آئی ایم ایف کا لکھا ہوا ہومیوپیتھک بجٹ اس طرح پڑھا جیسے موصوف نے کشمیر فتح کر لیا ہو یا پھر قبلہ اول کو آزادی دلا دی ۔ وہ بھی کیا دن تھے جب ہم آزاد تھے مگر غریب ۔ اس زمانے میں جب پاکستان بن رہا تھا(1945 ء تا ء1947) تک ایک اور قوم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی تھی۔ گریٹ فیوہرر کی خودکشی نے دوسری جنگ عظیم ختم کر دی۔ نازی فوج کا خاتمہ ہوا۔ 75 لاکھ نہتے شہری بم باری کی نذر ہو گئے۔ یہ قوم دیوارِ برلن کے شرق اور غرب میں قابض فوجوں نے تقسیم کر دی۔ دیوارِ برلن کے دونوں طرف چھوٹے بڑے 114 شہر مکمل طور پر زمین بوس ہو گئے۔ ملک کی 20 فیصد بلڈنگز ملبے اور بارود کا ڈھیر بن گئیں۔ زراعت 65 فیصد فناہو گئی۔ بندر گاہیں نا کارہ ، انڈسٹری زیرو، کرنسی ختم سڑکیں کھنڈرات، بجلی بند، عوام صدیوں پہلے کے ''بارٹر ٹریڈ‘‘ پر مجبور ہو گئے۔ جوتا دے کر ڈبل روٹی اور چائے کی پیالی دے کر سگریٹ کی ڈبی خریدی جانے لگی۔ سال؎1945ء تک 1 کروڑ 40 لاکھ لوگ چھت کے بغیر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔سال 1962 ء یہ ملک امریکی ایڈ پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا ۔ اسے 14 ملک امداد دیتے تھے۔ ناقابلِ یقین سچ یہ ہے کہ ان 14ملکوں میں سے ایک ہمارا پیارا ملک پاکستان تھا۔ اسی دور میں پاکستان نے 20 سال کے لیے اس خانماں برباد قوم کو 12 کروڑ روپے قرض دیا تھا۔ اس مہربانی پر تباہ حال قوم کی حکومت کے سربراہ نے حکومتِ پاکستان کو شکریہ کا جو خط بھیجا وہ آج بھی ہمارے آرکائیو کا حصہ ہے ۔ نصف صدی پہلے کا ہمارا مقروض جرمنی آج دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ ہم 41ء نمبر پر ترقی کے اشتہاروں کے دھمال پر بے حال ہو رہے ہیں۔ جرمن جی ڈی پی 3400بلین ڈالر ہم 271 بلین ڈالر۔ ہمارے مقروض کی برآمدات 2100 ارب ڈالر ہماری محض 29 ارب۔ جرمنی کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 230 بلین پاکستان 21 بلین ۔وہ بھی سمندر پار پاکستانیوں کی مہربانیوں سے ۔ وہاں فی کس آمدنی 41178یہاں 1434 ڈالر ۔ 50 سال پہلے ہم نے اسے 12 کروڑ روپے قرضہ دیا ۔ آج وہ 12 کروڑ روپے کی روزانہ'' پیپر پن‘‘ بناتا ہے۔ 
جرمنی اور پاکستان میں فرق صاف ظاہر ہے وہ کہاں اور ہم یہاں۔ اس کے عروج اور ہمارے زوال کی وجہ جرمن حکمرانوں کی سادہ زندگی ہے۔ ان کی کابینہ کے اجلاس میں بسکٹ کے چند پیکٹ اور سستے جوس کے ڈبے پڑے ہوتے ہیں۔ ہماری پوری قوم بجٹ 2017 کے سائے تلے ر مضان میں مہنگائی کے طوفان کا بھی مقابلہ کرے گی۔ بجٹ والے دن سینٹ میں سپیکر کا بٹن دبایا۔ تقریر کی اجازت نہ ملی۔ نعرہ لگایا تو کرسی سے آواز آئی ایوان میں نعرہ لگانے کی اجازت نہیں۔ ایوان کے دروازے کے باہر پرامن احتجاج کرنے والے کسانوں کو سرکاری لاٹھیوں گولیوں اور اینٹیں مار کر لہو لہان کر دیا گیا۔ جی چاہتا ہے قوم کی تشفی کے لیے کسی سے فتویٰ ہی کیوں نہ لے لوں ۔ سودی قرضے کا یہ بجٹ حلال ہے یا حرام۔
قرآن کی زبان میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کر کے دنیا بھر سے سودی قرضوں کا کے۔ٹو پہاڑ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ 70 سال کے ریکارڈ خسارے کو کم دکھانے کے لیے 70 سال میں سب سے مہنگے کمرشل قرضے لیے گئے۔ وہ بھی پچھلے چند ہفتوں میں۔ بجٹ کیسا ہے پتا کرنے کے لیے محلے کے بازار میں چلے جائیں۔ خون چوسنے والے امیر حاجی صاحب اور خون بیچنے والے روزہ دار کی تفریق ریٹ لسٹ پر لکھی ملے گی ۔
لہو کو بیچ کر ر وٹی خرید لا یا وہ 
فقیہہِ شہر بتا یہ حلال ہے یا حرام؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved