تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     30-05-2017

اسلامی تحریکوں کی پُرامن جدوجہد…(قسط:4)

سید مودودیؒ، سید حسن البناؒ شہید اور بدیع الزماں سعید نورسیؒ برصغیر، عالم عرب اور ترک علاقوں میں جدید اسلامی تحریک کے بانی شمار ہوتے ہیں۔ ان سب کے افکار و ملفوظات مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ان شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی تحریکوں کی بنیادیں رکھیں۔ جغرافیائی اور لسانی تفاوت کے باوجود چونکہ سب کا منبع قرآن و سنت تھا اس لیے سب کی دعوت ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کیے بغیر بھی یکساں ہے۔ سعید نورسی مرحوم نے مصطفی کمال کے سیکولر دستور بنانے کے موقع پر دستور ساز اسمبلی کی گیلری سے اس سیکولر نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کا قبلہ خانہ کعبہ ہے۔ اسے سیکولر دستورکی بھینٹ چڑھا کر تم قبلہ بدلنے کی کوشش کر رہے ہو، اسے کبھی کامیابی نہیں ملے گی۔ اس کلمہ حق کی پاداش میں سعید نورسی زندگی بھر جیلوں میں مقید رہے۔ ان کے پیروکارپُرامن انداز میں ان کا لکھا ہوا رسالۂ نور جیل سے حاصل کرتے اور اس کی کاپیاں بنا کر ملک میں پھیلا دیتے۔ کسی نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ 
سعید نورسی کی برپا کردہ تحریک مختلف انداز میں کام کرتی رہی ہے۔ ترکی میں موجودہ حکومت اپنے مخصوص ملکی و سیاسی حالات میں اسی فکر کی ترجمانی کرتی ہے ۔ ان لوگوں کو ماضی میں بارہا مارشل لا حکومتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر پابندیاں لگیں، ان کی سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا گیا اور انھیں پابند سلاسل کر کے ہر طرح کی آزادی چھینی گئی۔ انھوں نے ہر بدلتے موسم میں نئے نام سے میدان میں قدم رکھا اور سیاسی و جمہوری جدوجہد جاری رکھی۔ مظالم کے خلاف کبھی بھی جمہوریت کا راستہ چھوڑ کر تشدد اور مسلح جدوجہد کی راہ نہیں اپنائی۔ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردوان کو عالمِ کفر اسلامسٹ قرار دیتا ہے۔ جبکہ مسلمان ملکوں کے سیکولر اور لبرل اسے لادین سیاست دان کے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ وہ حقیقت میں اسلامسٹ ہے اور حکمت و جمہوریت کے راستے سے اپنے ملک کے سیکولر دستور کو قوت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی اسلامی سوچ اس وقت پوری دنیا کے سامنے آ گئی تھی جب استنبول کے میئر کی حیثیت سے اس نے مشہور ترک شاعر ضیا گوکل کی تاریخی و انقلابی رباعی جلسۂ عام میںپڑھی تھی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے: ''مسجدیں ہماری چھائونیاں ہیں، مسجدوں کے مینار ہمارے میزائل اور گنبد ہمارے ٹینک ہیں۔ مساجد کے نمازی ہمارے لشکری ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس کے اندرکسی قسم کے تشدد کی بات نہیں کی گئی بلکہ دین سے وابستگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس پر میئر استنبول (اردوان)کو جیل جانا پڑا۔ اس کے باوجود ان کے پیروکاروں نے قانون کو ہاتھ میں لے کر کوئی کارروائی نہیں کی۔ 
ترکی میں موجودہ صدر کے خلاف جولائی ۲۰۱۶ء میں فوجی بغاوت انتہائی خطرناک سازش تھی۔ چونکہ عوام الناس حکومت کے ساتھ تھے اس لیے پوری دنیا یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئی کہ نہتے عوام ٹینکوں اور فوج کی بکتربند گاڑیوںکے سامنے ڈٹ گئے۔ ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا جبکہ فوج ایسے اسلحہ سے لیس تھی جس سے کسی بھی مسلح فوج کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ نہتے اور پُرامن عوام کی قوت اتنی زیادہ ہے کہ وہ ٹینکوں اور توپوں کے منہ موڑ سکتے ہیں۔ اس ناکام فوجی بغاوت میں ابتدائی طور پر 265 لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے مگر پورے ملک کے اندر سڑکوں اور گلیوںمیں نکلنے والے عوامی ہجوم نے ثابت کر دیا کہ جب رائے عامہ منظم اور بیدار ہو اور ان کی قیادت مقبول و ہر دل عزیز ہو تو کوئی بڑے سے بڑا طوفان ان کی بنیادوں کو نہیں ہلا سکتا۔ اس موقع پر اردوان اور ملک کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جب عوام کو پکارا تو ہر مسجد کے مینار سے رات کے وقت یہ اعلان ہونے لگے کہ سب لوگ ملک کی سالمیت اور جمہوری حکومت کی حفاظت کے لیے گھروں سے نکلیں۔ کئی سال پہلے اردوان نے مسجدوں کے بارے میں جو رباعی جلسۂ عام میں پڑھی تھی اس کا ایک ایک حرف حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔ پھر سی این این پر یہ منظر بھی اسی رات لوگوں نے دیکھ لیا کہ ہر جگہ سیکڑوں باغی افسران اور جوان ہینڈز اپ کیے ہتھیار ڈال رہے تھے۔ یہ ایک واقعہ ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ مغربی دنیا کے نزدیک جو اسلامسٹ انتہا پسند اور تشدد کی علامت بنا کر پیش کیے جاتے ہیں وہ پُرامن انداز میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ 
اخوان کی دعوت مصر سے شروع ہو کر دیگر تمام عرب ممالک میں پھیلتی چلی گئی۔ شام، اردن، لبنان، سوڈان، تیونس،مراکش، الجزائر اور دیگر عرب ممالک میں اس تحریک نے اپنی جڑیں مضبوطی کے ساتھ عوام میں گاڑ دیں۔ آج تیونس کی تحریک نہضہ ہو یا مراکش کی الاصلاح، مصر کی اخوان ہو یا الجزائر کی حرکۃ مجتمع السّلم یا کسی بھی دوسرے عرب ملک کی اسلامی تحریک، کوئی ایک بھی مسلح جدوجہد کے ذریعے تبدیلی کی حامی اور مؤید نہیں ہے۔ یہ اہل حق ظلم برداشت کرتے ہیں مگر قانون کی حدود میں جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مصر کے ظالم حکمرانوں نے اخوان کے موجودہ مرشدِ عام جناب ڈاکٹر محمد بدیع صاحب کو ان کے دیگر ساتھیوں سمیت عمرقید کی سزا سنا دی ہے اس پر بھی اخوان نے پُرامن احتجاج تو کیا مگر کہیں تشدد کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، تشدد ہوا ہے تو حکومت کی جانب سے۔ فلسطین کا معاملہ البتہ مختلف ہے کیونکہ وہاں فلسطینیوں کی سرزمین پر غیرملکی قبضہ اور ناجائز ریاست کا قیام فلسطینیوں کے لیے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑتا سوائے اس کے کہ وہ غاصب قوت کے خلاف مسلح جدوجہد کریں۔ 
برصغیر میں جماعت اسلامی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کشمیر میں کام کر رہی ہے۔ ان میں سے کسی بھی خطے میں جماعت اسلامی نے کبھی ہتھیاروں کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ظلم و ستم برداشت کیے، جماعت پر پابندیاں لگیں، قیادت کو جیلوںمیں ڈالا گیا اور ہر طرح کے مظالم روا رکھے گئے مگر جماعت نے کبھی بھی اپنے معاشروں میں اسلحہ نہیں اٹھایا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی پوری قیادت بشمول امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی لگا کر شہید کر دیا گیا۔ بزرگ رہنما جناب پروفیسر غلام اعظم کو91سال کی عمر میں90 سال قید سنائی گئی۔ وہ جیل کے اندر طبعی موت کے ذریعے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ اس کے باوجود بنگلہ دیش جماعت کی قیادت و کارکنان نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا بلکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ان مظالم کے باوجود جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا مؤقف ہر روز دنیا کے سامنے آتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں مسلح جدوجہد کے ذریعے قتل و غارت گری کرنے والے اسلام دشمن ہیں۔ہر چند کہ اس مؤقف سے وہ خطرات کی دو دھاری تلوارکے درمیان ہیں مگر اپنے طریقہ کار سے نہیں ہٹے۔ (جاری)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved