تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     31-05-2017

ہمارے اعضاء (4)

بال
ہونٹوں پر اُگے ہوں تو مونچھ کہلاتے ہیں۔ بال بال بچنے کا مطلب یہ ہے کہ حجامت کے دوران اگر کوئی بال کٹنے سے بچ جائے۔ ایک شخص کے سر پر بال بہت کم تھے۔ وہ حجامت کروانے بیٹھا تو اس نے حجام سے اس کی اُجرت پوچھی جو اُس نے بہت زیادہ بتائی۔ شخص مذکور نے وجہ پوچھی تو حجام بولا کہ جناب آپ کے سر پر بال ہیں ہی اتنے تھوڑے کہ انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کاٹنا پڑے گا۔ بال کی کھال بھی نکالتے یا اُتارتے ہیں۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کھال کس کام آتی ہے۔ انکا ایک فائدہ یہ ہے کہ ان سے پکڑ کر گھسیٹا جا سکتا ہے۔ بال گرتے بھی ہیں لیکن انہیں چوٹ نہیں آتی۔ یہ گرگٹ کی طرح رنگ بھی بدلتے ہیں یعنی کوئی پتا نہیں کہ کس وقت سفید ہو جائیں۔ وِگ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ٹوپی کی جگہ پہنی جا سکتی ہے۔ بال بچوں کا مطلب ہے کم عمر بال۔ بالم زلفوں والے محبوب کو کہتے ہیں۔ چوٹی کو گونُدھتے ہیں‘ آٹے کی طرح۔ سر کے درمیان میں ہو تو بودی کہلاتی ہے۔ یہ بھُورے اور سنہری بھی ہوتے ہیں اور اگر خود نہ ہوں تو ڈائی کروا کر کئے جا سکتے ہیں۔ انگوروں کی طرح انکے بھی گچُھے ہوتے ہیں۔ گھنگھریالے نہ ہوں تو کروائے جا سکتے ہیں۔ بال برابر کا مطلب ہے بال کی لمبائی کے برابر۔ مُنہ پر ہوں تو داڑھی کہلاتے ہیں ورنہ روزانہ شیو بنانی پڑتی ہے۔ بالی عمر یا بالوں کی عمر کو کہا جاتا ہے۔ فارسی میں انہیں مُوکہتے ہیں لیکن مُوا کچھ اور ہوتا ہے۔ بالوں والی خاتون کو والی بال بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں مانگ بھی نکالتے ہیں حالانکہ اسے مانگ کہنے میں کوئی تُک نہیں ہے۔ تاہم‘ یہ واردات کنگھی یا برش کی مدد سے کی جاتی ہے۔ آدمی بالوں کے بغیر ہو تو گنجا کہلاتا ہے۔ گنجی عورت کو بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ بنائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ گنجے کے لیے دُعا کی جاتی ہے کہ خدا اُسے ناخن نہ دے۔ جوئوں کے لئے بہترین رہائش گاہ ہے جو سر سے نکلیں تو کانوں پر رینگنے لگتی ہیں۔ سر دھونا دراصل بال ہی دھونے کو کہتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے‘ سر اپنی جگہ اور بال اپنی جگہ۔ خواتین سجاوٹ کے لیے کبھی ان میں کلپ لگایا کرتی تھیں۔ جُوڑا سر کے پچھلی طرف بنایا جاتا ہے‘ سکھ حضرات سر کے درمیان میں بناتے ہیں۔ انہیں کھُلا چھوڑنے سے یہ آوارہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف بڑھتے ہیں‘ گھٹتے نہیں ماسوائے جھڑنے کے۔ چونکہ یہ باقاعدہ عضُو نہیں ہوتے اس لیے عضُوِ معطل کہلاتے ہیں۔
ناخن
اسے ناخُون بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں خون نہیں ہوتا۔ ان کی حجامت نیل کٹر سے کی جاتی ہے۔ خواتین انہیں آلۂ ضرب کے طور پر بھی استعمال کرتی ہیں۔ جُوتوں کی طرح یہ بھی پالش کئے جاتے ہیں۔ یہ ہر انگلی پر ہوتے ہیں چاہے وہ ہاتھ کی ہو یا پائوں کی۔ جوئیں مارنے کے لیے مثالی ہیں‘ اس کے علاوہ ان کا مصرف شاید ہی کوئی ہو۔ ایک ناخن تدبیر بھی ہوتا ہے۔ کیوں ہوتا ہے اس کی ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اسے تدبیر کیسے سوُجھ سکتی ہے۔ مشُکل کشُا کی طرح یہ گرہ کشُا بھی ہوتا ہے۔ غالب نے کہا ہے ؎
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا
سب کو پتا ہے کہ بڑھ آئیں گے‘ اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے‘ ویسے کچھ باتیں ایسی ہوتی بھی ہیں شاعر لوگوں کو جن کا پتا نہیں ہوتا۔ منقول ہے کہ ایک باز کسی بُڑھیا نے پکڑ لیا اور اُس کے ناخن دیکھ کر کہنے لگی‘ ہائے اس کے کسی نے ناخن ہی نہیں کاٹے۔ یہ کہہ کر اُس نے قینچی سے اس کے ناخن کاٹ دیئے اور وہ بھُوک سے مر گیا۔ اس کے بعد آج تک کوئی باز اُس بُڑھیا کے ہتھے نہیں چڑھا۔
اُنگلیاں
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں‘ یہ بھی سب کو پتا ہے اور صاف نظر بھی آ رہا ہے۔ انگلیوں پر نچانا بھی غلط محاورہ ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کا مذکر انگوٹھا ہے۔ حالانکہ اس میں انگوٹھی نہیں پہنتے۔ یہ دکھایا بھی جاتا ہے اور لگایا بھی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے گلا بھی دبا سکتے ہیں۔ تاہم‘ انگوٹھا لگایا صرف بائیں ہاتھ ہی کا جاتا ہے جبکہ دائیں ہاتھ والا انگوٹھا محض بیکار ہوتا ہے۔ انگلیوں میں انگشت شہادت سب سے اہم اور کارآمد ہے کیونکہ کسی زمانے میں اسے اُٹھا کر گواہی دی جاتی تھی۔ اس کا شہادت حاصل کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گھی نکالنا ہو تو اُنگلی کو ٹیڑھا کیا جاتا ہے حالانکہ اگر جما ہوا ہو تو سیدھی اُنگلی سے بھی نکل سکتا ہے۔ انگلیوں سے گنا بھی جاتا ہے یعنی ان سے کیلکولیٹر کا بھی کام لیا جاتا ہے۔ اس سے اشارہ بھی کیا جاتا ہے جو کہ بذات خود خاصی معیوب بات ہے۔ کم تعداد والی کوئی بھی چیز اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ مختلف ساز بجانے کے بھی کام آتی ہیں۔ انہیں چاٹا بھی جاتا ہے۔ قے کرنی ہو تو اسی سے کام لیتے ہیں۔ سب سے چھوٹی انگلی چھنگلی کہلاتی ہے جو تقریباً بیکار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ والی انگلی انگوٹھی پہننے کے کام آتی ہے‘ خاص طور پر شادی کے لیے پروپوز کرنا ہو تو انگوٹھی اسی انگلی میں پہنائی جاتی ہے۔ اگر بعد میں خاتون ارادہ بدل لے تو اُتار کر واپس بھی کر دیتی ہے۔ درمیان والی انگلی اگرچہ سب سے بڑی ہوتی ہے لیکن اسے کوئی اہمیت یا فضیلت حاصل نہیں ہے۔ کان کی طرح انگلی مروڑی بھی جاتی ہے‘ راستہ دکھانے کے بھی کام آتی ہے یعنی انگشت شہادت‘ بڑی انگلی نہیں۔ چھنگلی میں چھلا پہنتے ہیں تاکہ اس کا بھی تھوڑا بھرم رہ جائے۔ تاہم پائوں کی انگلیوں کا کوئی خصوصی کردار نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ پیروں کی مٹی انہی کی مدد سے پکڑی جاتی ہے اگر اسے نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہو۔ مہندی ہاتھوں کے علاوہ ناخنوں پر بھی لگائی جاتی ہے۔ ایک شاعر کا مصرعہ ہے ؎
پانی میں ترا رنگِ حنا اور بھی چمکا
جبکہ پائوں کے ناخن پر حنا کی تصویر ڈاکٹر تاثیر نے اس طرح کھینچی ہے ؎
حنائے ناخن پا ہو کہ حلقۂ سرِزُلف
چھپائو بھی تو یہ جادُو نکل ہی آتے ہیں
آج کا مطلع
یہ رات‘ یہ گھن گرج‘ یہ برسات
دیکھو مری صبح کے نشانات

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved