جس وقت Unrepresentated Nations and Peoples Organisation (UNPO) مہاتما گاندھی انٹرنیشنل AISBLکے اشتراک سے گلگت بلتستان اور بلوچستان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات کی فہرست پڑھ پڑھ کر سنا رہی تھی تو اسی وقت '' پیپلز واچ ‘‘ کے نام سے انسانی حقوق کیلئے بھارت میں کام کرنے والی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم کے سربراہHENRI TRIPHAGNE کی جانب سے برلن میں ایک تقریب سے خطاب میںجرمن چانسلر انجیلا مرکل سے اپیل کی جا رہی تھی کہ دس نکات پر مشتمل اپنے چار ملکی دورہ کے آغاز پر 30 مئی کو جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آپ سے ملاقات کیلئے آئیں گے تو ان سے بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی بارے ضرور پوچھا جائے کیونکہ بھارت جو سب سے بڑی جمہوریت کے نام سے پہچانا جاتا تھا نریندر مودی اور اس کی انتہا پسند سوچ کے پیرو کاروں کی وجہ سے کمزوروں اور اقلیتوں کیلئے جہنم بنتا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس نے اپنی برلن کی اس تقریب میں جرمن سرمایہ کاروں اور کمپنیوں سے بھارت میں سرمایہ کاری نہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا ہے کہ جس قسم کی ''محدود جمہوریت‘‘ کا بھارت میں اس وقت راج اور غلبہ ہے اس سے انہیں ذہنی اذیت اور خسارے کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا ۔ بھارت میں خواتین کا اکیلے نکلنا تو دور کی بات اب دو تین مل کر کہیں جاتے ہوئے گھبراتی ہیں۔ دہلی اور ممبئی نہیں بلکہ بھارت کے صرف ایک صوبے اتر پردیش میں راہ چلتی خواتین کے اغوا اور ان کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے واقعات اس قدر عام ہو چکے ہیں کہ صوبائی حکومت کو اس کیلئے علیحدہ سے ایک پولیس فورس تشکیل دینی پڑ گئی ہے ۔ غیر ملکی خواتین کو اب گائو رکھشا کے نام پر اس طرح مارا پیٹا جاتا ہے کہ اگر وہ راہ چلتی یا اپنی جانب دوڑتی ہوئی کسی گائے کو ہاتھ بھی لگا دیں تو ہندوئوں کا ہجوم ان پر پل پڑتا ہے جس کی ایک جھلک گوا کے ساحل پر ابھی حال ہی میں دیکھنے میں آئی ہے۔
آر ایس ایس اور حکمران جنتا پارٹی کی انتہا پسندی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے برلن میں تقریب سے خطاب میں ہنری ٹرائفن نے کہا کہ پیپلز واچ جیسی نامور ایوارڈ یافتہ تنظیم کے ارکان کو بھارتی ایجنسیاں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے وارننگ دے رہی ہیں کہ آپ کے بینک اکائونٹس بھی دوسری تنظیموں کی طرح منجمد کر دیئے جائیں گے اوراس سے بھی دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے بھارت میں اقلیتوں سے بد ترین سلوک اور انسانی حقوق کی پامالی کی رپورٹس تیار کرنے والی سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں کو بلا کر ان کے پاسپورٹ ضبط کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔ UNPO جب گلگت بلتستان میں ''ہمارے اداروں‘‘ کے ظلم کی کہانی بیان کر رہے تھے تو کاش وہ سری نگر بڈگام کے گائوں چھل کے رہنے والے فاروق احمد ڈار کی فلمیں بھی دیکھ لیتے جن میں وہ ضمنی انتخاب کیلئے قائم کئے گئے ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اپنے گائوں کی جانب واپس جا رہا تھا کہ بھارتی فوج کے میجر لیتل گوگوئی اپنی جیپ کے آگے انسانی ڈھال کے طور پر باندھ کر اسے وادی کی سڑکوں پر ادھر ادھر دوڑا رہا تھا اور تو اور کیرالہ میں موجود بھارت کا سرکاری میڈیا شرم سے اپنے پاس کھڑے ساتھیوں سے نظریں ملانے سے گریز کرنے لگا جب بھارت کی ریا ست کیرالہ کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کدیاری بالا کشن ایک جلسۂ عام میں بھارتی فوج کو اس امر کا سرٹیفکیٹ جاری کر رہا تھا کہ جموںوکشمیر ، جھاڑ کھنڈاور آسام میں اپنے حقوق کیلئے اگر چار سے زائد افراد کھڑے نظر آئیں تو فوج کو انہیں دیکھتے ہی گولیوں سے اڑا دینے کا پورا پورا حق دے دینا چاہئے اور ہمارے فوجی کیونکہ کئی کئی ماہ گھروں سے دور رہ کر بہت کٹھن ڈیوٹی کرتے ہیں اس لئے ان فوجیوں کو ان علا قوں کی عورتوں کو اغوا کرنے اور ان سے جبری زیا دتی کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔ ستم دیکھئے یہ وہ الفاظ ہیں جو چند ماہ پہلے اسرائیل فوج کے ہمراہ مذہبی فرائض انجام دینے والے ان کے ''ربّی‘‘نے غزہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہے تھے کہ اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینی عورتوں سے جنسی زیا دتی کا پورا پورا حق ہے کیونکہ وہ جنگی صورت حال کی وجہ سے اپنے گھروں کو نہیں جا سکتے۔
اسرائیلی فوج سے منسلک ان کے مذہبی رہنما کے اس فتوے کی دیکھا دیکھی دو ماہ قبل بھارتیہ جنتا پارٹی اور یو پی کے نئے وزیر اعلیٰ یوگی نے بھی اعلان کر دیا کہ مسلمان عورتوں سے جبری زیا دتی کا بھارتی فوج کو پورا پورا حق ہے۔۔۔جس پر کسی دل جلے نے فقرہ کسا تھا مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو جان لینا چاہئے کہ بہت جلد اس کی باری بھی آنے والی ہے جب بھارتی فوج کاکوئی میجر یا کرنل اس سے جبری زیا دتی کرے گا ۔
اقلیتوں کو قتل کرنا ان کے گھروں کو جلانا ان کے چہروں پر سیاہی پھینک کر ان کو گدھوں پر بٹھا کر جوتے اور تھپڑ مارتے ہوئے گائوں میں گھمانا بھارت میں عام رواج بن کر رہ گیا ہے جبکہ ٹی وی کی سکرینوں پر یہ جانتے ہوئے بھی ' ' شائننگ انڈیا‘‘ پینٹ کیا جارہاہے کہ ان کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا کپور خاندان کب سے پکاراٹھا ہے '' رام تیری گنگا میلی ہو گئی‘‘ ۔۔۔ہاں اگر پاکستان کے سوشلسٹ کمیونسٹ اور بھارت نواز میڈیا کے لوگ غور سے دیکھیں تو جگہ جگہ اقلیوں کے چہروں پر تھوپی گئی سیا ہی سے بھارت ضرور چمک رہا ہے۔
بھارت میں کمیونسٹ فلسفہ اب اس قسم کے غلیظ ترین گٹر میں گرتا جا رہا ہے کہ کمیونسٹوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹی کا سیکرٹری جنرل بھی اب کھلے عام کہہ رہا ہے کہ فوج کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ چار سے زائد افراد کو کھڑے دیکھ کر ان کو گولی مار دے اور جو لوگ اپنی آزادی کی بات کریں ان کی عورتوں کی جبری آبرو ریزی کی جائے۔۔۔۔پاکستان میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹی کے نام سے کام کرنے والی ویب سائٹس اور ان سے منسلک ترقی پسندی کے مارے ہوئے خواتین اور مرد حضرات سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پاکستانی اداروں کے نام نہاد مظالم کے بارے میں راء اور بھارتی سفارتی عملے کی فراہم کی جانے والی نت نئی کہانیاں اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کیرالہ کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے جاری کئے گئے اس ''فتوے‘‘ بارے کیا خیال ہے؟؟