جے آئی ٹی میں سٹیٹ بینک کے جناب عامر عزیز اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جناب بلال رسول کی شمولیت کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ کی کالز کی کہانی کو کامران خان نے گزشتہ شب دنیا نیوز پر اپنے پروگرام میں آگے بڑھایا،یہ انصار عباسی کی سٹوری کا فالوپ تھا۔ہم 22روز قبل( 7مئی کے جمہور نامہ میں) قدرے احتیاط کے ساتھ یہی بات کہہ چکے تھے۔پانامہ کیس بینج کے حکم کے مطابق چھ اداروں نے تین تین نام ارسال کر دئیے تھے۔ان میں سے ایک ایک نام خود فاضل بینچ نے منتخب کرنا تھا۔ 7مئی کے جمہورنامہ میں ہم نے لکھا،''افواہ‘‘یہ تھی کہ انہیں مزید دو ،دو نام اورارسال کرنے کیلئے کہا گیا ہے اور ان میں ایک ایک نام تجویز بھی کر دیا گیا ہے۔سٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے نام مسترد کرتے ہوئے فاضل بینچ کا ان دونوں اداروں کے سربراہوں کو حکم تھا کہ گریڈ 18اور اس سے اوپر کے افسروں کی فہرست کے ساتھ خود عدالت میں پیش ہوں۔ان میں سے ایک ایک نام خود فاضل جج صاحبان منتخب کریں گے۔
28مئی کو حسین نواز جے آئی ٹی کے سمن کی تعمیل میں پیش ہو گئے۔ یہ اتوار کا دن تھا سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے جے آئی ٹی کو اپنے کام کی تکمیل کیلئے جو 60دن دئیے ہیں ان میں ہفتے اور اتوار کی 2ہفتہ وار چھٹیاں شامل نہیں۔اس کے باوجود جے آئی ٹی نے اتوار کو بھی کام کرنا ضروری سمجھا اور حالت یہ تھی کہ اس کے دو فاضل ارکان سلیپنگ سوٹ میں ہی چلے آئے تھے۔
صرف ایک دن کی بات تھی۔ زیر تفتیش فرد کو تفتیشی اہلکار کے حوالے سے تحفظات کے اظہار کا قانونی حق حاصل ہے۔حسین نواز نے عامر عزیز اور بلال رسول کے حوالے سے اپنے اسی قانون حق کا استعمال کیا تھا اور سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے اپنی ہی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کے دو ارکان کیخلاف حسین نواز کے تحفظات کی سماعت کیلئے سوموار 29مئی کی تاریخ دیدی تھی،فاضل بینچ نے اس تاریخ کو حسین نواز کی درخواست ان ریمارکس کے ساتھ مسترد کر دی کے اعتراضات ریکارڈ پر آگئے ہیں۔اگر کسی مرحلے پر محسوس کیا گیا کہ کسی ممبر نے زیادتی کی ہے تو اسے فوری طور پر ہٹا دیا جائے گا۔کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ جے آئی ٹی 28مئی کی سماعت ایک دن کیلئے ملتوی کر دیتی کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سامنے آ جاتا۔
30مئی ایک اور سخت دن تھا جب حسین نواز 6گھنٹے تک جے آئی ٹی کے رو برو رہے اور ان الفاظ کے ساتھ رخصت ہوئے کہ ہر سوال کا جواب دیدیا۔پھر بلایا تو آئوں گا،کوئی چیز والد اور بہن بھائیوں کیخلاف ثابت نہیں ہو سکے گی۔حسین نے یہاں وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ میرے بھی کچھ قانونی حقوق ہیں ان سے ہٹ کر کوئی کاغذ پیش نہیں کرئوں گا۔اگلے روز وزیراعظم کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز کی ''باری‘‘ تھی۔ وہ لندن سے اسلام آباد پہنچ گیا تھا لیکن اسے تیاری کیلئے دو دن کی مہلت درکار تھی ،جے آئی ٹی جس اندازمیں اپنا کام کررہی ہے ،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پر حکومت کا کوئی دبائو نہیں۔وزیراعظم کا بیٹا بھی کسی رورعایت کا مستحق نہ ٹھہرا۔ جے آئی ٹی مکمل آزادی ( بلکہ کچھ زیادہ ہی آزادی) کے ساتھ بروئے کار ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر اس آزاد و خود مختار جے آئی ٹی کی رپورٹ نواز شریف اور ان کے خاندان کو بے گناہ قرار دے دیتی ہے تو ان کے خون کے پیاسے سیاسی مخالفین اور ہمارے بعض دانشور دوست اسے تسلیم کرلیں گے۔؟
سال2017-18کا وفاقی بجٹ آ گیااس حوالے سے ایک دلچسپ ایکٹویٹی ہمارے صدر ممنون حسین کے ساتھ ہو گئی۔ جناب صدر ویسے بھی ہمارے بعض کالم نگاروں کا مرغوب و محبوب موضوع ہیں۔سچی بات ہے کہ میڈیا کے ایک حصے میں اس خبر پر ہمیں بھی جھٹکا سا لگا تھا کہ جناب صدر کی ماہانہ تنخواہ 10لاکھ روپے سے بڑھا کر16لاکھ کی جارہی ہے۔اس پر ہمارے بعض دوستوں نے خوب طبع آزمائی کی۔اگرچہ فاروق عادل اور رائو لیاقت جیسے فعال و مستعد افسران پر مشتمل ایوان صدر کے شعبہ تعلقات عامہ نے وضاحت میں تاخیر نہ کی تھی۔جس کے مطابق جناب صدر کی موجودہ تنخواہ 80ہزار روپے ماہانہ ہے یہ سالانہ 9لاکھ 60ہزار روپے بنتی ہے۔ پچاس ہزار ماہانہ کے اضافے کے ساتھ یہ 15لاکھ 60ہزار سالانہ ہو جائے گی۔یار لوگوں نے سالانہ کو ماہانہ بنا دیا اور اس پر دل کے پھپھولے خوب پھوڑے۔
ہم اس جمعے کو اسلام آباد میں تھے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کیلئے ساڑھے تین بجے تک پارلیمنٹ ہائوس پہنچنے کی تاکید تھی۔صبح گیارہ بجے صدر صاحب کے پریس سیکرٹری فاروق عادل سے رابطہ کیا،اس کا کہنا تھا نماز جمعہ یہاں پڑھو اور لنچ بھی ہمارے ساتھ کرو۔ایوان صدر کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے میں،جناب صدر کی زیارت (حسب توفیق دست بوسی) کے شرف کی اضافی کشش(Added Attraction) بھی تھی لیکن ہم نماز جمعہ پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد میں پڑھنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ جس کے بعد برادر بزرگ سعود ساحر اور یارکردار فرخ سعید خواجہ کے ساتھ ایوان صدر کا ر خ کیا۔فاروق عادل کو ڈپٹی ڈائریکٹر رائو فضل الرحمن جیسے سرگرم افسر کی معاونت بھی حاصل ہے۔رائو تو ایک بھی مان نہیں ہوتا،یہاں خیر سے دو ،دو رائو ہیں۔رائو لیاقت اور رائو فض الرحمن۔
اسلام آباد میں دو روز قیام کی خواہش بھی تھی جو پوری نہ ہو سکی ۔لیکن یہاں جس سے بھی بات ہوئی رائو تحسین کو ڈان لیکس کے حوالے سے ملنے والی سزا پر اس کا کہنا تھا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے؟ فاروق عادل کے ساتھ لنچ ،سچی بات ہے اسمیں جس کفایت شعاری سے کام لیا گیا تھا،ہمیں تو یوں لگا جیسے اس پر ایوان صدر کا لنچ ہونے کی تہمت ہو۔ہمیں جناب صدر کے ساتھ لنچ کا دو تین بار اتفاق ہو چکا ہے ،شاید مہمانوں کی تکریم کیلئے وہ واقعی ایوان صدر کا لنچ تھا۔ہم نے ایک،دو دن پہلے اپنی آمد کی اطلاع دے دی ہوتی تو شاید فاروق عادل اور رائو لیاقت ،جناب صدر کے ساتھ مختصر لنچ میٹنگ کا اہتمام کر دیتے،اگرچہ جناب صدر نئے پارلیمانی سال کے آغاز کیلئے پارلیمنٹ سے اپنی سالانہ خطاب کی تیاری میں مصروف تھے۔جناب صدر کی یہ تقریر جمعرات کو ہونا ہے۔اب دیکھنا ہے جارحیت آمادہ حزب اختلاف اس سال ممنون حسین صاحب کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔
یہ تیسری بار وزیراعظم بننے والے نوا ز شریف کی حکومت کا پانچواں بجٹ ہے ۔اگرچہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے بھی پانچ سال پورے کیے لیکن اس میں گیلانی صاحب کی حکومت نے چار بجٹ پیش کیے تھے۔وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نذر ہوئے تو پانچواں بجٹ راجہ پرویز اشرف کی حکومت نے پیش کیا۔ اب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا پانچواں بجٹ پیش کرتے ہوئے ،ڈار صاحب کا کہنا تھا کہ اس حکومت کی موجودگی میں وہ چھٹا بجٹ بھی پیش کرکے نئی تاریخ رقم کریں گے۔ وزیراعظم نواز شریف نے پانچ جون 2013 کو حلف اٹھایا تھا۔اس حساب سے ان کی آئینی مدت چار جون 2018ء تک ہے جس کے بعد نئے انتخابات کیلئے نگران حکومت آ جائے گی جس کا آئینی مینڈیٹ نئے انتخابات کا انعقاد اور اس دوران ڈے ٹو ڈے معاملات تک محدود ہے۔تو کیا آئوٹ گوئنگ گورنمنٹ اپنے آخری دنوں میں آنے والے مالی سال کا بجٹ بھی دے کر جائے گی ؟اس حوالے سے آئینی قانونی پوزیشن جو بھی ہو اس کا ایک سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی تو ہے۔الیکشن مہم میںہر سیاسی جماعت اپنے اپنے منشور عوامی فلاح و بہبود اور قومی تعمیروترقی کے حوالے سے اپنے اپنے پروگرام کے ساتھ عوام میں جائے گی۔سبکدوش ہونے والی حکومت کا نئی منتخب حکومت کو مالی معاملات کے حوالے سے ایک سال کیلئے پابند کر جانا کیسا ہو گا؟
موجودہ حکومت کا یہ آخری بجٹ ہے ،ایک خیال تھا '' الیکشن ایئر‘‘ کیلئے ڈار صاحب '' الیکشن بجٹ‘‘ دیں گے لیکن انہوں نے اپنی جماعت کے سیاسی و انتخابی مفادات کی بجائے قومی معیشت کا مفاد سامنے رکھا اور قوم کے سبھی طبقات کو خوش کرنے کیلئے بوریوں کے منہ نہیں کھول دئے کہ اس صورت میں وہ سب کچھ ضائع ہو جاتا جو گزشتہ چار برسوں میں حاصل ہوا۔
ڈار صاحب کی '' میثاق معیشت‘‘ کی تجویز سے کسی کو اختلاف ہو گا لیکن بدترین سیاسی محاذ آرائی کی موجودہ فضا میں اسے '' دیوانے کی بڑ‘‘ کہنا شاید مناسب نہ ہو،شاعر کا خیال تو کہا جا سکتا ہے۔