بجلی کی ڈیمانڈ‘ سپلائی اور پیداوار کے
صحیح اعداد و شمار پیش کئے جائیں : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بجلی کی ڈیمانڈ‘ سپلائی اور پیداوار کے صحیح اعدادوشمار پیش کئے جائیں‘‘ کیونکہ مجھے ہمیشہ ہی غلط اعدادوشمار پیش کئے جاتے رہے ہیں اور اسی لیے نہ کوئی منصوبہ مکمل ہو سکا ہے اور نہ ہی ترقی کی رفتار برقرار رکھی جا سکتی ہے چنانچہ ترقی کے ضمن میں ہر روز جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور غلط سلط دعوے کرنے پڑتے ہیں‘ اور اب تک تو خیر تھی‘ کم از کم اب تو کچھ خیال کیا جائے کیونکہ اب تو آخری ٹیپیں چل رہی ہیں اور اس طرح غلط اعداد و شمار پیش کر کے میری عاقبت تو خراب نہ کی جائے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''وزارت پانی و بجلی پہلے کہاں تھی؟‘‘ اب تو کابینہ کے تقریباً سارے ارکان سپریم کورٹ ہی میں پائے جاتے ہیں‘ کبھی میرے لیے اور کبھی برخوردار حسین نواز کیلئے؛ تاہم ساتھ ساتھ کچھ خدا کا خوف بھی کیا جائے۔ آپ اگلے روز ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
جے آئی ٹی میں پیش ہو کر حسین نواز
کے حالات خراب ہو گئے : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''جے آئی ٹی میں پیش ہو کر حسین نواز کے حالات خراب ہو گئے‘‘ اگرچہ سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہی میرے حالات بھی کافی مخدوش ہو گئے ہیں کیونکہ مجھے بھی کم و بیش اُسی صورت حال کا سامنا ہے جو شریفوں کو درپیش ہے اور یہ کم بخت منی ٹریل میرے بھی گلے پڑی ہوئی ہے‘ تاہم اُمید ہے کہ سپریم کورٹ مستقبل کے وزیراعظم کا مستقبل تاریک کر کے سارے ملک کا مستقبل تاریک نہیں کرے گی کیونکہ میری نااہلی سے میری ساری پارٹی ہی کا بستر گول ہو جائے گا اور شاید فردوس عاشق اعوان کو اس صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں تھا ورنہ وہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتیں لیکن خواتین کی عقل بقول شخصے چونکہ ٹخنوں میں ہوتی ہے اور اُن کے ٹخنے بھی اکثر اوقات صحیح کام نہیں کر رہے ہوتے اس لیے بے عقلی کر ہی جاتی ہیں۔ آپ اگلے روز بنی گالہ سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اعتراضات کے باوجود حسین نواز پیش ہوئے : مریم اورنگزیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''اعتراضات کے باوجود حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے‘‘ اور ایسا کر کے انہوں نے جے آئی ٹی کی سات پشتوں پر صحیح معنوں میں احسان کیا ہے ورنہ آج تک کسی وزیراعظم کا بڑا چھوڑ‘ چھوٹا صاحبزادہ بھی کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا‘ قیامت کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حسین نواز روزے سے تھے‘ اس کے باوجود ان سے چھ گھنٹے تک تفتیش کی گئی‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کے اپنے روزے نہیں تھے ورنہ روزے کے ساتھ تو چھ گھنٹے تک تفتیش کی ہی نہیں جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ''حسین نواز کو ملزم کہنا غلط ہے‘‘ جبکہ انہیں معزز فریق دوم کے نام سے پکارا جا سکتا ہے‘ ان حالات میں وزیراعظم کی شبانہ روز کوششوں کے باوجود ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
نوشتہ دیوار
ایسا لگتا ہے کہ بالآخر حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے جو خاصے جلی حروف میں تحریر تھا اس لیے بعض وزرائے کرام کے بوکھلاہٹ زدہ بیانات سے اندازہ ہو رہا ہے جبکہ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اس قدر یقینی آثار دیکھ کر خود نوازشریف کسی ردعمل کا اظہار نہ کریں‘ اس لیے کسی بھی لمحے ان کی طرف سے فی الحال کسی چھوٹے موٹے دھماکے کا اظہار سامنے آ سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہ جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں لیکن اس سے بھی ان کے سیاسی شہادت حاصل کرنے کا خواب پورا ہونے والا ہے جبکہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ موجودہ اور آگے بنتی ہوئی صورت حال پر خاموشی سے سب کچھ ہوتا دیکھتے رہیں تاہم فی الحال تو وہ قطری شہزادے کو ہر صورت جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کے لیے آمادہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے اگرچہ آ کر بھی وہ اپنے انتہائی مشکوک خط کے مندرجات کو ثابت نہیں کر سکیں گے بلکہ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ مخالف وکیلوں کی دھواں دھار جرح کا سامنا کرنے کو تیار ہی نہ ہوں۔
ایک شعر
ہمارے ایک بہت ہی عزیز کالم نویس نے جو خود بھی شاعر ہیں اپنے آج کے کالم میں یہ شعر دو بار اس طرح درج کیا ہے ؎
کیسے دور میں زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
یہ شعر ہمارے دوست افتخار عارف کا ہے جبکہ اصولی طور پر شاعر کا نام بھی لکھنا ضروری تھا۔ تاہم اصل شعر اس طرح سے ہے ؎
تجھ سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
اور اگر کالم نگار نے اس میں دانستہ تصرف کیا ہے تو انہیں وہ بھی بتا دینا چاہیے تھا جبکہ یہ شعر افتخار کے ضرب المثل اشعار میں شامل ہے۔
ایک مصرع
ایک غلطی مُجھ سے بھی سرزد ہوئی ہے حالانکہ میں اس معاملے میں کافی محتاط رہتا ہوں۔ میرا شعر ہے ؎
حسرت سے دیکھتے رہے دریا کو دیر تک
پھر ہم نے اُس کو پار کیا اور چل پڑے
اس کا احساس ہمیں غزل شائع ہونے کے بعد ہوا کیونکہ مصرع اوّل اس طرح چھپا ہے ع
دریا کو دیکھتے رہے حسرت سے دیر تک
اس طرح رہے اور حسرت کی ہ اور ح آپس میں مل کر عیب تنافر کی ایک صورت اختیار کر لیتی ہیں جبکہ مصرعے کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے۔
آج کا مطلع
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سربسر باقی ہوں میں
پیشِ خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں