تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-06-2017

تکبر

تکبر۔شریف خاندان اور بھٹو خاندان میں تکبر قدرِ مشترک ہے ۔ ایک کا سورج ڈوب گیا اور زرداری اس کے وارث ہیں۔ دوسرے کا ڈوبنے والا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کا وارث کون ہوگا ۔
یہ 1977ء کے آخری ایام کی طرح ہے ۔ سینکڑوں اور ہزاروں حامیوں کے ہمراہ کوئی رہنما پیپلزپارٹی کا حصہ بنتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی لازوال قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتا۔ نومبر 1976ء میں پاکستان قومی اتحاد نے لاہور میں پہلا جلوس نکالا تو زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار لوگ اس میں شامل تھے ۔ لاہور پریس کلب کی بالکونی پر کھڑا ایک اخبار نویس پی این اے کا مضحکہ اڑا رہا تھا۔ عرض کیا: خوف کا حصار ختم ہونے دو، پتہ چل جائے گاکہ کتنے لوگ فخرِ ایشیا پر فدا ہیں ۔ 
بے شک ذوالفقار علی بھٹو سب سے مقبول لیڈر تھے ۔ بہت ہی پڑھے لکھے، کرشمہ ساز ، ایک عظیم خطیب اور نثر نگار ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی پارٹی تشکیل دینے والے ۔ اپنے ساتھ محبت میں مگر مبتلا تھے۔ صحافت کو کچل کے رکھ دیا ۔ 1973ء کا دستور انہوں نے دیا تھا ۔ ایٹمی پروگرام کی نیو اٹھائی تھی ۔ 1971ء کی ہولناک شکست کے باوجود بھارت کو ٹھکانے پر رکھا اورمرعوب ہونے سے انکار کر دیا۔ 
با ایں ہمہ انتقام کی خو سے مغلوب رہتے ۔ خود کو دیوتا سمجھتے ۔ اختلاف کا تصور ہی ان کے لیے قابلِ برداشت نہ تھا۔ اپوزیشن لیڈر جیلوں میں پڑے رہتے یا منمناتی آوازوں میں پریس کانفرنس کیا کرتے ۔ ائیر مارشل اصغر خاں ، جماعتِ اسلامی اور طلبہ لیڈروں کے سوا۔ 
فیڈرل سکیورٹی فورس کے نام سے اپنی ذاتی فوج بھٹو نے تشکیل دے رکھی تھی ۔ فوج دبکی ہوئی تھی ۔ قبل از وقت الیکشن کا بھٹو نے اعلان کیا۔ قصد یہ تھا کہ دو تہائی اکثریت لے کر پارلیمانی کو صدارتی نظام میں بدل ڈالیں ۔ حکمران طبقات ان کے سامنے سرنگوں تھے ۔707افسروں کی برطرفی کے بعد افسر شاہی کا دم خم ٹوٹ چکا تھا ۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وقار احمد کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا " Waqar living and God willing, I'll sort out the bureaucracy" 
کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ انتخابی مہم میں ایسی تند و تیز مخالفت کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا ۔ خوف زدہ اپوزیشن کے لیے یکجا ہونے کے سوا چارہ بھی کیا تھا۔ انتخابی مہم شروع ہوتے ہی بپھر کر لوگ گھروں سے باہر نکلے اور حکومت کی ہیبت و جلال کو ہوا میں اڑا دیا۔ 
کاروباری طبقے کی جیسی تذلیل بھٹو نے کی تھی ، اشتراکی ملکوں کے سوا کہیں اس کی مثال نہ تھی ۔ ان کے کارخانے تو قومیائے ہی ، حتیٰ کہ آٹے کی ملیں تک ۔ ان کے پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے ۔ پھر ایک تقریب میں ، ٹی وی کیمروں کے سامنے واپس کیے ۔ ریلوے ، سٹیل مل ، واپڈا اور پی آئی اے پر جو پانچ سو ارب روپے سالانہ ہم برباد کر رہے ہیں ، یہ بعد والوں کے کارنامے ہیں ۔ قومی معیشت کو تباہ کرنے کی بنیاد بہرحال بھٹو نے رکھی ۔ 
صرف بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو قومیانے سے 25بلین ڈالر کا نقصان ہوا، جو ملک کی پوری معیشت کا شاید ایک تہائی ہوگا۔ 
پاسپورٹ کی آزادی اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک سے مراسم بہتر بنا کر عام آدمی کے لیے رزق کا دروازہ بھٹونے چوپٹ کھو ل دیا مگر وہ ان کی ہولناک خودپرستی۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ اپنی ہی تصویر سامنے رکھ کر اسے سجدہ کریں ۔
23مارچ 1977ء کو پاکستان قومی اتحاد کے پیش رو ،اپوزیشن اتحاد کا راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ ء عام تھا۔ بسوں میں سوار ، عبد الولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے ایک ہزار سے زیادہ کارکن پختون خوا سے آئے تھے، تب جسے سرحد کہا جاتا۔ لیاقت باغ کی مشرقی سمت یہ 30،35 بسیں ایک قطار میں کھڑی تھیں ۔ 
نواب زادہ نصر اللہ خاں ، ائیر مارشل اصغر خان ، پیر صاحب پگاڑہ شریف ، خان عبد الولی خان اور اپوزیشن کی بازوئے شمشیر زن ، جماعتِ اسلامی کے میاں طفیل محمد ابھی جلسہ گاہ نہ پہنچے تھے ۔ صرف شوکت حیات سٹیج پر تھے کہ شمال کی چھتوں سے گولیاں برسنے لگیں ۔ کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ، درختوں کی اوٹ میں کچھ نے پناہ لی۔ اتنی دیر میں درجن بھر لاشیں گر چکی تھیں ۔ مشرق میں بسوں کی قطار دھڑا دھڑ جلنے لگی ۔ یہ ایک ہولناک منظر تھا، کبھی بھی جو بھلایا نہ جا سکے گا۔ 
اس وحشت و درندگی کا انجام وہی ہوا، جو ہونا چاہیے تھا۔ 1977ء میں بھٹو کے مخالفین گھروں سے نکلے تو کشتیاں انہوں نے جلا دیں ۔انتخابی دھاندلی کے خلاف مہم کا آغاز ہوا تو 50ہزار سیاسی کارکن گرفتار کر لیے گئے ۔ 321شہید کر دئیے گئے ۔ ایک دن پھر ایسا طلوع ہوا کہ فوجی دستے بھی مظاہرین کو روک نہ سکے ۔ آخر کار فوج کو مداخلت کرنا پڑی ۔ 
جنرل محمد ضیاء الحق کے جانشین میاں محمد نواز شریف نے پچاس ہزار کارکنوں کو جیلوں میں نہیں ڈالا ، چند سو اور چند درجن بھی نہیں ۔ کسی کو انہوں نے قتل نہیں کیا۔ ان کے کارناموں کی نوعیت مختلف ہے ۔ میڈیا کو کچلنے کی بجائے سرکاری خزانے سے زر و جواہر کی بارش ہے ۔ صنعتوں کو قومیانے کی بجائے اپنا حصہ وہ وصول کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم کے ہلّہ دودھ کا کارخانہ بند کر کے ، جو 55روپے کلو خالص دودھ ہسپتالوں کو مہیا کیا کرتا ، خود اپنے خاندان کے لیے کاروبار کی راہ ہموار کی ۔ پولٹری تو ہے ہی ان کا میدان ۔ پنجاب بھر میں ناقص گوشت پر چھاپے مار ے گئے ؛حالانکہ سب سے زیادہ بیماری شیور مرغی میں ہوتی ہے ۔ اسی پر بس نہیں ، جمہوری سیاست کی تاریخ میں ، شاید وہ پہلے وزیرِ اعظم ہیں ، جن کی دولت کا ایک بڑا حصہ ملک سے باہر پڑا ہے ۔ دنیا کے کسی ملک میں ، کوئی حکمران اس طرح ڈٹ کر کاروبار نہیں کر سکتا، جس طرح شریف خاندان ۔ 
مخالفین کو بھٹو نے خوف زدہ کیا تھا۔ نواز شریف سیاستدانوں کی خریدار ی کرتے ہیں ۔جس طرح زرداری اور خورشید شاہ کو خرید رکھا ہے ۔ جو آمادہ نہ ہوں ، انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش۔ کردار کشی اور ابتلا کا خطرہ مول لیے بغیر میدان میں کوئی کھڑا نہیں رہ سکتا۔ کوئی ادارہ بھی نہیں ۔ 150بڑے مقدمات کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کرنے پر پرویز رشید اینڈ کمپنی نے نیب کی بے عزتی کی ۔ یہ کہا کہ اس کے ناخن اور پر کترنے کا وقت آگیا ہے ۔ 
ججوں کے لیے نہال ہاشمی کی دھمکی کوئی الگ تھلگ اور اتفاقی واقعہ ہرگز نہیں ۔ وزیرِ اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب اور دانیال عزیز اس سے پہلے کم و بیش یہی کچھ کہہ چکے ۔ نیم سرکاری میڈیا گروپ میں رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کا مفہوم بھی یہی ہے ۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اگر رام نہیں ہوتی ، عدالت شریف خاندان کے حق میں اگر فیصلہ نہیں دیتی تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے ۔ عسکری قیادت اگر سرنگوں نہیں ہوتی تو یہی سلوک اس کے ساتھ کیا جائے گا۔ 
تکبر۔شریف خاندان اور بھٹو خاندان میں تکبر قدرِ مشترک ہے ۔ ایک کا سورج ڈوب گیا اور زرداری اس کے وارث ہیں۔ دوسرے کا ڈوبنے والا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کا وارث کون ہوگا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved