تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-06-2017

ایجور روڈ سے بنی گالہ تک!

دو ہزار سات کا سال لندن کی سیاست میں اہم تھا۔ میں اور ارشد شریف کو ہر وقت لندن کی سڑکوں پر چوکس رہنا پڑتا تھا۔ اب لندن اسلام آباد کی پارلیمنٹ کے باہر کا منظر دیتا تھا۔ ہر کیفے میں پاکستانی سیاستدان نظر آتے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی لندن میں موجودگی کی وجہ سے خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ نئے اتحاد بن رہے تھے۔ نئے خواب بیچے جارہے تھے۔ بینظیر بھٹو کنڈولیزا رائس اور مارک رائل گرانٹ کی مہربانیوں سے جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کر کے نئی ڈیل پر کام کر رہی تھیں۔ نواز شریف کیمپ خوش تھا۔ دکھ اٹھائے گی فاختہ بی اور انڈے کھائیں گے کوے۔ انہیں علم تھا جس دن بینظیر بھٹو وطن لوٹ گئیں انہیں بھی واپس آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ انہی دنوں شاہ محمود قریشی ایک فائل بغل میں دبائے رحمن ملک کے ایجور روڈ گھر کے باہر پر انتظار کرتے پائے جاتے کہ کب بینظیر بھٹو اندر بلا لے اور وہ درجنوں مسلم لیگ ق کے ان ایم این ایز کے ناموں کی منظوری لے لیں جو فوری طور پر جنرل مشرف کا ساتھ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کو تیار تھے۔ وقت بھی خوب ہے کبھی رحمن ملک ایف آئی اے کے ملازم تھے اور وزیر داخلہ اعتزاز احسن کے گھر کے چکر لگاتے تھے۔ صاحب کو کچھ چاہیے تو نہیں!! اب وہی اعتزاز احسن لندن میں رحمن ملک کے گھر کے باہر واقع پلاٹ میں بیٹھ کر انتظار کرتے کہ کب دروازہ کھلے گا اور سب کو انٹری ملے گی جہاں بینظیر بھٹو ملاقاتیں کرتی تھیں۔ 
بینظیر بھٹو کسی کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کو تیار نہ تھیں۔ شاہ محمود قریشی کو بھی یہ کہا گیا بھلا بینظیر بھٹو کیونکر جنرل مشرف کے ساتھیوں کو پارٹی میں لے آئیں ۔ ایک طرف جہاں وہ بدنامی مول لیں گی وہاں جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان یہ طے ہورہا تھاکہ جنرل مشرف دوبارہ وردی کے ساتھ ملک کے صدر ہوں گے اور وہ موجودہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی صدر کا ووٹ دوبارہ لے لیں گے۔ تاہم بینظیر بھٹو جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ ووٹ دینے کو تیار نہ تھیں۔ اس
پر یہ طے ہوا بینظیر بھٹو کی پارٹی جنرل مشرف کے الیکشن کے موقع پر اسمبلی سے بائیکاٹ کر جائے گی اور جنرل اپنے ق لیگ کے ایم این ایز سے ووٹ لے کر صدر بن جائیں جن کے ساتھ وہ نئے الیکشن کے بعد وزیر اعظم کے طور پر کام کریں گے۔ اس طرح بینظیر بھٹو کو فیس سیونگ مل جانی تھی کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے جنرل مشرف کو صدر کے طور پر قبول کررہی تھیں تو اس میں ان کا کیا قصور تھا کیونکہ وہ تو دو ہزار سات میں ہی دوبارہ صدر بن گئے تھے جب کہ وہ تو دو ہزار آٹھ کے الیکشن جیت کر وزیراعظم بنیں تھیں۔ اس لیے جب بینظیر بھٹو کو ق لیگ کے ان ایم این ایز کی فہرست دی گئی جو جنرل مشرف کے پانچ سال اقتدار میں مزے لینے کے بعد اب نئے تانگے میں سوار ہونے کے لیے لندن پہنچے ہوئے تھے تاکہ اگلی حکومت میں بھی وہ شامل ہوں تو انہوں نے( فہرست) مسترد کر دی ۔ بینظیر بھٹو نے اپنے تئیں جمہوریت پسند ہونے کا تاثر دیا اور کہا کہ وہ جنرل مشرف کے ساتھ چلنے والوں کو اپنی پارٹی میں نہیں لیں گی کیونکہ یہ جمہوریت کی نفی ہوگی کہ آمر کے ساتھیوں کو شامل کیا جائے۔ اس پر انہوں نے داد بھی وصول کی تھی۔ تاہم بہت کم لوگ جانتے تھے کہ بینظیر بھٹو سمجھتی تھیں کہ اگر انہوں نے جنرل مشرف کے درجنوں ایم این ایز کو ابھی سے پارٹی میں لے لیا تو پھر جنرل مشرف کو پارلیمنٹ میں وردی کے ساتھ صدر بننے کے لیے ووٹ کون دے گا؟ پیپلز پارٹی تو ووٹ نہیں دے گی لہٰذا اگر ڈیل کے تحت جنرل مشرف نے صدر بننا تھا تو پھر ووٹ ق لیگ نے ہی ڈالنے تھے۔ لہٰذا بینظیر بھٹو نے بڑی سمجھداری سے ق لیگ کے کسی ایم این اے کو اپنی پارٹی میں نہیں لیا اور شاہ محمود قریشی کو ان کی فائل واپس کردی گئی۔ انہی دنوں مجھے اسلام آباد سے تنویر ملک کا لندن فون آیا۔ تنویر ملک
سے، میرے میانوالی کے دوست ڈاکٹر شیر افگن کی وجہ سے تعارف ہوا تھا جو بعد میں ذاتی محبت اور پیار میں بدل گیا تھا۔ تنویر ملک کہنے لگا فردوس عاشق اعوان لندن آئی ہوئی ہیں وہ بینظیر بھٹو سے ملنے والی ہیں اور ممکن ہے وہ پیپلز پارٹی جوائن کرلیں۔ تم وہاں رپورٹنگ کررہے ہو لہٰذا اس پر اپنی رپورٹ میں ہاتھ ہولا رکھنا اگر وہ پیپلز پارٹی جوائن کرلیں۔ تنویر ملک پرانا یار تھا۔ میں مسکرا پڑا اور بولا دیکھتے ہیں۔ اگلے دن مجھے فردوس عاشق اعوان کا فون آیا ۔ وہ اس وقت رحمن ملک کے بھائی خالد ملک کے سب وے ریسٹورنٹ کی بیسمنٹ میں بیٹھی تھیں۔ ان کے سامنے رحمن ملک کا بھائی مودب ہو کر سرو کررہا تھا۔ پتہ چلا رحمن ملک اور فردوس عاشق اعوان دونوں کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ رحمن ملک سے فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا نہ صرف بینظیر بھٹو سے ملاقات کرائی جائے بلکہ پارٹی میں شامل بھی کرایا جائے۔ رحمن ملک کو کچھ بھی کہتے رہیں لیکن انہوں نے بینظیر بھٹو پر دبائو ڈال کر فردوس عاشق اعوان کو پارٹی میں شامل کرادیا تھا کہ وہ ان کے علاقے کی تھیں۔ بینظیر بھٹو کے سامنے درجنوں سفارشیں اور نام تھے لیکن وہ رحمن ملک کو انکار نہ کرسکیں اور جنرل مشرف کی پارٹی میں سے کسی ایم این اے کو اگر پیپلز پارٹی نے شامل کیا تو وہ فردوس عاشق اعوان تھیں۔ 
رحمن ملک کے بھائی کے برگر ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر فردوس نے حسب عادت رحمن ملک کے شجرہ نسب کے بارے میں کچھ فرمایا جو مجھے پسند نہ آیا۔ رحمن ملک چھوٹا تھا یا بڑا لیکن اس نے فردوس کو عزت دلائی تھی۔ بینظیر بھٹو سے ملایا تھا ، پارٹی میں شامل کرایا اور بعد میں ایم این اے کا ٹکٹ بھی لے کر دیا اور بعد میں وہ وزیر اطلاعات تک بھی بن گئیں۔ رحمن ملک نے کم از کم فردوس عاشق اعوان پر احسان کیا تھا ۔ اپنے چھوٹے بھائی خالد ملک کو فردوس عاشق کی خدمت پر مامور کیا تھا یہ ہمارے سیالکوٹ سے ہیں ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہیے۔ اس لیے ان کے منہ سے رحمن ملک کے شجرے اور ماضی بارے کچھ نامناسب الفاظ سن کر مجھے اچھا نہ لگا اور میں تھوڑی دیر بعد اٹھ کر چلا گیا ۔ پیپلز پارٹی نے کچھ اور کیا ہو یا نہ لیکن انہوں نے فردوس کو عزت دی۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں وہ اس وزارت کے لائق نہ تھیں جو زرداری نے انہیں دی تھی ۔ وہ گیلانی کابینہ کی وزیر اطلاعات بن گئیں۔ کائرہ اور شیری رحمن کو ہٹا کر انہیں وزیر لگایا گیا تھا ۔ ان میں کیا ٹیلنٹ تھا ، زرداری بہتر جانتے ہوں گے کیونکہ وہ فرماتے ہیں ان سے زیادہ مردم شناس دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا ۔ 
پھر فردوس عاشق اعوان جب پیپلز پارٹی سے رخصت ہوئیں توخبر چھپی جو روزنامہ دنیا میں رپورٹر شہزاد فاروقی نے چھاپی کہ جاتے وقت وہ وزیر گھر سے کیا کچھ اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئیں ۔ پھر خبر آئی انہوں نے این جی او کو دی گئی دس بسیں اپنے گھر پر کھڑی کر لی تھیں ۔ پھر خبر آئی کہ نیب نے ان کے خلاف ایک کرپشن ریفرنس تیار کر لیا ہے۔ جب سپریم کورٹ نے میگا سکینڈلز کی فہرست چھاپی تو اس میں ان کا نام ساتویں نمبر پر تھا ۔ پھر خبر چھپی نیب نے انہیں حسب معمول کلین چٹ دے دی تھی۔ رہی سہی کسر بنی گالہ اور جہانگیر ترین کے گھر پر لگی انصاف لانڈری مل نے پوری کردی اور اب عمران خان انہیں خراج تحسین پیش کرتے نظر آئے۔ پی ٹی آئی نے ٹویٹ کیا کہ فردوس عاشق اعوان کے آنے سے پنجاب میں تحریک انصاف سیاست پر چھا جائے گی ۔ 
عمران خان جب بنی گالہ میں فردوس عاشق اعوان کو خراج تحسین پیش کررہے تھے جو کبھی جنرل مشرف اور زرداری کو اس طرح پیش کرتی تھیں تو مجھے رحمن ملک، ان کا بھائی خالد، ایجورو روڈ کی بیسمنٹ یاد آئے۔ جہاں اس طرح کا ماحول تھا جو بنی گالہ میں نظر آرہا تھا۔ بینظیر بھٹو سے ملاقات کا سین بھی اس طرح کا تھا۔ پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کی شان میں وہی قصیدے پڑھے گئے جو اب عمران خان کی تعریف میں پڑھے جارہے تھے۔ جنرل مشرف کی جگہ بینظیر نے لی تھی تو بینظیر کی جگہ زرداری اور اب عمران نے لے لی تھی۔ وہی سکرپٹ ، وہی تقریر اور وہی خراج تحسین۔رٹی رٹائی تقریروں میں فل اسٹاپ اور کاما تک نہیں بدلا تھا۔ 
انسان کتنی جلدی احسانات بھول جاتے ہیں لیکن یہ اور بات ہے اپنے اوپر کیے گئے ظلم اور زیاتیاں نہیں بھولتے۔ کتنے سمجھدار ہیں یہ سیاسی لوگ ۔کبھی بیروزگار نہیں ہوتے۔ہر وقت ہر دور میں ان کا سیاسی روزگار لگا رہتا ہے۔جنرل مشرف ہوں، زرداری ہوں یا عمران خان یہ لوگ اقتدار میں رہنے کا فن جانتے ہیں ۔ اگر زرداری برے تھے کرپٹ تھے تو اس وقت پارٹی چھوڑتے جب آپ وزیر تھے۔ اس سیاسی کلاس کے ہمیشہ نیا سورج طلوع ہوتے دیکھ کر ہاتھ بے ساختہ سلام کے لیے اٹھ جاتے ہیں ۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ سلام کے لیے ہاتھ ہی تو اٹھانے ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہیں جنرل مشرف، زرداری کے بعد فردوس کا اگلا پڑائو کون سا ہوگا۔ ان دس برسوں میں کوئی اور فرق پڑا ہو یا نہ لیکن اس دفعہ میرے دوست تنویر ملک نے فردوس عاشق اعوان کے پارٹی بدلنے پر ہاتھ ہولا رکھنے کا فون نہیں کیا، جیسے دس برس قبل لندن فون کیا تھا ۔ تنویر ملک بھی بدل گیا ۔ نہیں بدلی تھیں تو ہماری مہربان فردوس عاشق اعوان۔ ہر پانچ سال بعد ایک نئی پارٹی، ایک نیا لیڈر اور اس لیڈر کی شان میں نئے قصیدے ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved