تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     02-06-2017

شریفانہ تفتیش

حسین نواز شریف کی طرح وہ محترمہ بھی روزے سے آئی تھیں۔ میری امی جی کے علاقہ گجر خان سے‘ تھانہ جاتلی کی ایک محترم ریٹائرڈ ٹیچر۔ سراپا عفت، پوٹھوہار کی روایتی ماں۔ ان کے ہاتھ میں 2 عدد FIR تھیں۔ مقدمہ نمبر76/2015، بجرم 365 ت پ، مورخہ 08-12-2014 تھانہ جاتلی گجر خان، ضلع راولپنڈی کا۔ 3 عشروں تک دیہی علاقے کی غریب بچیوں میں علم کا زیور بانٹنے سے ریٹائرڈ ہوئیں ، بچے کو روزگار کے لیے پنشن کیش کرا کے دے دی۔ شریف النفس ماں کا شریف طبع بیٹا نظریں نیچی کیے کام سے کام رکھتا۔
ایک دن پنجاب کی CTD پولیس پہنچ گئی۔ استانی صاحبہ کے رشتے کے کزن کے 2 بیٹے مطلوب تھے۔ وہ نہ ملے گھر الٹ پلٹ کر دیکھے گئے‘ سامان ٹوٹا‘ کچھ غائب ہوا ۔ جاتے ہوئے ''نگ‘‘پورا کرنے کے لئے لڑکوں کا بوڑھا باپ اور محترم استانی کا بیٹا ساتھ بٹھا لیا۔ پڑھی لکھی ماں تھانے پہنچی اس وقوعے کی رپورٹ درج کرا دی۔ ایک خدا ترس پولیس والے نے چند دنوںکے بعد FIR کاٹ دی۔ CTD لاہور کو پرچے کی بھنک پڑی۔ اس نے پرچے کے 2 ہفتے بعد کا وقوعہ بنایا۔ لاری اڈے سے استانی کے بیٹے کی گرفتاری ڈالی۔ بارود ''برآمد‘‘ کیا۔ لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے لڑکے کو 2 دفعہ عمر قید کی سزا سنا دی۔ پہلا الزام دہشت گرد ہونے کا دوسرا بارود کی برآمدگی۔ میں نے واقعات پڑھے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کمال ہے اس شریفانہ نظام تفتیش کا جسے ہائوس آف شریف نے کمال محنت سے شریف برادران کی ذاتی نگرانی میں ملک کے سب سے بڑے صوبے میں رائج کیا۔
یادوں کا واٹس ایپ کھل گیا۔ سال 1997ء‘ مال روڈ کا 5 ستارہ ہوٹل‘ کمرے میں فون کی گھنٹی بجی۔ فرنٹ مینیجر کہہ رہا تھا کوئی صاحب آپ سے بات کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف شہید بی بی والی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر بول رہے تھے: ضروری بات ہے‘ ابھی کرنی ہے۔ تھوڑی دیر میں اوپر آگئے‘ سامنے بیٹھے ان کے چہرے اور لہجے میں تشویش تھی۔ فرمایا: کل صبح آپ آصف زرداری کے ڈرگ ٹرائل کے لئے کوٹ لکھ پت جیل نہ جائیں۔ آپ کی زندگی خطرے میں ہے۔ سبزی منڈی میں ایک ہیوی ٹرک گاڑی پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ میںنے ''y Realit ‘‘ چیک کے لئے کہا: بی بی کو بتا دوں۔ بولے: کیوں نہیں۔ اگلی صبح میں نے اپنی گاڑی ہوٹل میں چھوڑی۔ کرایہ کی کار لی۔ اپنے معاون وکیل مسعود چشتی کو ساتھ بٹھایا۔ فرنٹ سیٹ پر منشی شبیر‘ ڈرایئور کی پچھلی نشست پر پیر مسعود اور ساتھ خود بیٹھ گیا۔ کوٹ لکھ پت صنعتی علاقے میں ریلوے پھاٹک پر پہنچے۔ سامنے اتفاق فونڈری تھی۔ تقریباً 3 فرلانگ بائیں جانب کھیت اور ساتھ کوٹ لکھ پت جیل کا گیٹ۔ گاڑی نے جونہی پھاٹک کراس کیا‘ مسعود چشتی بولے: آگے گڑبڑ ہے۔ اتنی دیر میں ایک بے وردی ایس ایچ او سپاہیوں کے ساتھ لپک کر گاڑی کے آگے آ گیا۔ چشتی صاحب نے بتایا: یہ لاہور میں پولیس مقابلوںکا ماہر ہے۔ ساتھ کہا: شیشہ نہیں کھولنا۔ تھانے دار ڈرائیور والی طرف گیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ ڈرائیور کے پاس شیشہ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لہٰذا میں نے مسعود سے کہا: آپ شیشہ کھولیں اور اسے پیچھے بلائیں۔ ایس ایچ او نے گاڑی کے اندر جھانکا اور حیران کن سوالیہ انداز میں مجھ سے پوچھا: آپ خیریت سے ہیں؟ جواب دیا: آپ کی ملاقات سے پہلے تک خیریت سے تھا۔ اس نے گہری سانس لی۔ میری طرف دیکھا پھر ڈرائیور سے کہا: جانے دو۔
ایک دن ایس جی ایس کیس میں سرکار کے وکلا میں سے ایک نے مجھے سائیڈ پر کیا اور بتایا: رات وزیر قانون کے گھر میٹنگ تھی‘ جس میں بینچ کے ایک فاضل رکن شریک ہوئے۔ بڑے میاں صاحب کا اصرار تھا کہ بی بی کو فوراً سزا دی جائے۔ جج صاحب نے کہا: وکیل (بابر اعوان) کیس نہیں چلنے دیتا۔ اس شام میرے بھائی حاجی صلاح الدین کو اسلام آباد کا ایک بڑا اہلکار ملنے آیا۔ بتایا: کل صبح بابر اعوان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ عدالت جاتے ہوئے مجھے گاڑی سمیت گرفتار کیا گیا۔ گاڑی سے اسلحہ برآمد کیا گیا۔ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کے جج سیف اللہ بُڑ مرحوم نے سنا‘ جو گوجرنوالہ بار کے صدر رہ چکے تھے۔ ان کا ایک صاحبزادہ آج بھی وکالت کرتا ہے۔
وٹس ایپ پر پھر نظر گئی تو پنجاب کے ہر تھانے میں 3 نمبر سے لے کر7 نمبر تک کے لتر لٹکے نظر آئے۔ درجنوں نہیں بلا مبالغہ سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں‘ جن میں شریفانہ تفتیش کے طریقے کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ ان طریقوں میں کیمرے کی آنکھ کے عین سامنے نوجوان بچوں حتیٰ کہ عورتوں کو بھی ٹھڈے، مکے ڈنڈے مارنا، بالوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹنا ابتدائی درجے کی شریفانہ تفتیش ہے جس کے لیے نواز دورِ حکومت کے 36 سالوں میں جو ماہرینِ تفتیش تیار ہوئے وہ کہیں نوجوان کو نہر کے اندر اُلٹا لٹکا کر حقائق برآمد کرتے ملتے ہیں‘ کہیں سرمایہ دار کے ڈیرے پر غریبوں کو کتے کی طرح بھونکنے، پائوں کو پیار کرکے معافی مانگنے پر مجبور کرتے یا پھر دائرے میں کھڑے ہو کر مشتبہ افراد کو ایسے کُوٹتے ملتے ہیں جیسے سوٹوں سے مکئی اور باجرہ کُوٹا جاتا ہے۔ ایک ویڈیو میں ٹرک کے ٹائر کا بنا ہوا 3 فٹ سے زیادہ لمبا لتر لے کر تھانے دار 3 ملزموں کو باری باری چارپائی پر الٹا لٹاتا ہے۔ چارپائی کے عین اوپر سبز رنگ والا لمبا سائن بورڈ‘ جس پر جلی حروف میں کلمہ طیبہ لکھا ہے۔ تفتیشی ٹیم کا ایک سپاہی مشتبہ کے بازو پکڑتا ہے دوسرا پیر اور پھر لتر مارنے والا سر کے اوپر سے لتر کمر تک لے جا کر مشتبہ کے چوتڑوں پر مسلسل مارتا ہے۔ براہِ کرم یہ ویڈیوز دیکھ لیں۔ میرا قلم کلمہ کے سائے تلے کیمرے کے سامنے فلم بند کی گئی اس ظلم کی داستان کو آگے بڑھانے سے انکاری ہے۔
ذرا پیچھے چلئے، سیف الرحمن کے احتساب کمشن والے تھانے میں شرمیلا فاروقی کی تصویر دیکھ لیں یا اُس وفاقی سیکرٹری کی نعش‘ جو اسی شریفانہ تفتیش کے دوران عزت پر جان قربان کر گیا۔ ملتانی وزیر اعظم کے لڑکوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر شامل تفتیش کیا گیا۔ اس کی بھی ویڈیوز وائرل ہیں۔ شریفانہ تفتیش کے ماہرین کہتے ہیں‘ آصف زرداری نے اپنی زبان خود کاٹی۔ تفتیش کے ان شریفانہ طریقوں پر سینکڑوں مقالے اور درجنوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ 
دوسری جانب ''مسٹر H‘‘ سے غیر شریفانہ تفتیش ہوئی۔ ڈرائنگ روم کی بجائے ملزم کو جوڈیشل اکیڈمی بلایا گیا، کرسی پیش ہوئی، وکیل کو اندر آنے کی اجازت ملی، ایمبولینس بلوائی گئی۔ آپ جناب کہہ کر مخاطب کیا گیا، اس کے باوجود پاکستان کے مالکان مُنصف تفتیش کاروں پر یوں برس پڑے۔ 
''اور سن لو! حساب ہم سے لے رہے ہو‘ وہ نواز شریف کا بیٹا ہے‘ ہم نواز شریف کے کارکن ہیں۔ حساب لینے والو ہم تمہارا یومِ حساب بنا دیں گے۔ جنہوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں کان کھول کے سن لو ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو۔ آج حاضر سروس ہو‘ کل ریٹائرڈ ہو جائو گے‘ تمہارے بچوں کے لیے تمہارے خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے ہم۔ تم پاکستان کے باضمیر باکردار نواز شریف کا زندہ رہنا تنگ کر رہے ہو۔ پاکستانی قوم تمہیں تنگ کر دے گی اور بنی گالہ میں رہنے والو سنو! یہ عمارت جو ماڈل ٹائون کا گھر ہے یہ یہودی سرمایہ سے نہیں بنا‘ یہ جمائمہ کے پیسے سے نہیں بنا یہ محمد شریف کے تھے‘ محنت اور ٹیکس کے پیسے سے بنا اور یہ قوم تمہارے لیے زمین تنگ کر دے گی‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved