تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     02-06-2017

ریاض میں کانٹے اور گلاب

شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ریاض شہر میں 55مسلمان ممالک کے سربراہ اکٹھے کر لئے۔ صرف دو تین ملک ایسے تھے جو اس کانفرنس میں موجود نہ تھے۔ دوسرے الفاظ میں ستانوے فیصد عالم اسلام ریاض میں جمع تھا۔ یہ ایسی کامیابی اور خوشخبری ہے جو عالم اسلام اور عالمی امن کے لئے لائق تحسین ہے۔ چونکہ مذکورہ کانفرنس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شرکت کی تھی، اس لئے اس کانفرنس میں گلاب کی پتیوں کے ساتھ کانٹوں کا بھی تذکرہ شروع ہو گیا ۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف سخت ریمارکس دیئے۔ انہیں امریکہ سے نکالنے کا اعلان کیا۔ انہیں دہشت گرد کہا، اقتدار سنبھالتے ہی اپنے ایجنڈے پر عمل کا آغاز بھی کیا۔ چھ مسلم ممالک کے لئے ویزے بند کر دیئے۔ پروازوں سے مسلمان مسافر اتار دیئے گئے۔ مسلمانوں کو دھکے دیئے جانے لگے۔ پھر کیا ہوا؟ قارئین! یہ سارا کچھ ذرا دیر بعد! پہلے یہ حقیقت کہ دنیا میں دو حکمران ایسے منتخب ہوئے ہیں جو مسلم دشمنی کی بنا پر حکمران بنے ہیں، ان میں پہلا اور سرفہرست حکمران نریندر مودی ہے۔ مذکورہ حکمران کو حکمرانی کرتے ہوئے تین سال مکمل ہو گئے ہیں۔ ان تین سالوں میں انڈیا کے وزیراعظم نے جو جو کہا اس سے بڑھ کراس پر عمل کیا اور مسلم دشمنی میں یہ عمل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ گائے کے ذبیحہ پر کسی ریاست میں 10سال اور کہیں عمرقید کا قانون بن چکا ہے۔ سینکڑوں مسلمانوں کو مذکورہ جرم میں بی جے پی کے لوگ سرعام ہجوم میں قتل کر چکے ہیں۔ مسلمانوں کی لڑکیاں صوبہ اترپردیش میں زبردستی ہندوئوں کے ساتھ بیاہی جا رہی ہیں اور یہ کام وزیراعلیٰ یوپی آدتیہ ناتھ کی نگرانی میں ہو رہا ہے۔ 
آیئے! اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایجنڈا بھی امریکہ میں یہی تھا مگر شاہ سلمان کے ہونہار فرزند سعودیہ کے وزیر دفاع امریکہ میں گئے۔ ٹرمپ سے ملاقات کی اور ان کو اپنا ایسا گرویدہ بنایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا مسلم دشمنی کا ایجنڈا فائل میں بند کر کے ریکارڈ روم میں رکھ دیا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورے کا آغاز ظہور اسلام کی سرزمین سے کیا۔ وہ ریاض پہنچ گئے اور جاتے ہی بیان دیا، دہشت گردی کرنے والے چند لوگ ہیں جن کا اسلام جیسے پرامن دین سے کوئی تعلق نہیں۔ بتلایئے اس تبدیلی یا یوٹرن پر شاہ سلمان اور ان کے فرزند محمد بن سلمان تحسین کے مستحق ہیں یا تنقید کے؟ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے قہوہ کی چھوٹی پیالی جسے فنجان کہا جاتا ہے، اسے بائیں ہاتھ میں پکڑا تو شاہ سلمان نے انہیں بتلایا کہ جناب والا! اسے دائیں ہاتھ سے نوش فرمایئے۔ جناب ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا نے فوراً دائیں ہاتھ سے پینا شروع کر دیا۔ یوں شاہ سلمان کہ جنہوں نے اوباما کو ریاض ایئرپورٹ پر اس وقت چھوڑ دیا تھا جب مؤذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی تھی اور آج انہی شاہ سلمان نے ریاض ایئرپورٹ پر اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک دوسرا رنگ جما کر دنیا بھرکو اک منظر دکھلایا کہ امریکی صدر ان کی بات پر فوراً عمل کرتے ہوئے فنجان کو دائیں ہاتھ میں کر لیتے ہیں۔ تو اس پر شاہ سلمان سلیوٹ و سلام کے مستحق ہیں یا کہ تنقید و دشنام کے؟ یہاں کانٹا چبھونا ضروری ہے یا کہ گلاب کے پھول کو سونگھنا لازمی ہے۔ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
عربوں میں تلوار کو دائیں ہاتھ میں تھامنا اور پھر معمولی اچھل کود کے ساتھ بہادری اور شجاعت کا اظہار کرنا ان کا ایک کلچر ہے۔ بعض یار لوگوں نے اس میں کانٹا اس برے انداز سے چبھویا کہ اسے رقص کا نام دے دیا۔ دراصل منظر یہ تھا کہ یہ لوگ اس طرح صف بندی کر کے کھڑے ہیں جس طرح اسلامی فوجیں صف بندی کیا کرتی تھیں۔ 
اب آتے ہیں ہم اپنے میاں نوازشریف صاحب کی جانب، موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز ریاض کے گورنر رہے اور پھر بادشاہ بن گئے۔ دارالحکومت کا گورنر بادشاہ سلامت کی مؤثر ترین نمائندگی کا سمبل ہوتا ہے۔ چنانچہ ریاض کے گورنر شہزادہ فیصل نے سوائے ٹرمپ کے باقی سربراہان سمیت ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب کا بھی استقبال کیا اور جب کانفرنس سینٹر میں پہنچے تو دروازے پر شاہ سلمان نے خود استقبال کیا۔ یوں ہمارے میاں صاحب کو پوری اہمیت اور عزت دی گئی۔ پھر شاہ سلمان سے وہ چوتھے نمبر پر کھڑے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے تیسرے نمبر پر کھڑے ہیں۔ اسے عزت افزائی کہیں گے یا کچھ اور؟ ہمارے راحیل شریف جو مسلمانوں کی متحدہ فورس کے سالار ہیں وہ بھی اس کانفرنس میں موجود ہیں۔ 55سربراہان کی نشستوں کے بعد اہم ترین نشست پر شہزادہ محمد بن سلمان تشریف فرما ہیں اور ان کیساتھ سالارِ مسلم افواج راحیل شریف صاحب براجمان ہیں۔یہ سعودی مہمان نوازی کی خاطر داری ہے یا کچھ اور ہے؟
شاہ سلمان نے جب کنگ عبدالعزیز ایوارڈ ڈونلڈ ٹرمپ کے گلے میں ڈالا۔ انہوں نے لامحالہ اپنی گردن کو جھکانا ہی تھا۔ اس پر بعض امریکیوں نے تنقید شروع کر دی کہ ہماری بے عزتی ہو گئی ہے۔ ٹرمپ کی بڑی بیٹی ایوانکا کا وہائٹ ہائوس میں اک مقام ہے وہ بھی ساتھ تھیں۔ امریکیوں نے اب ٹرمپ کو ابو ایوانکا کہنا شروع کر دیا ہے۔ یہ خاص اسلامی اصطلاح ہے۔ اسے کنیت کہا جاتا ہے کہ بیٹے یا بیٹی کا باپ۔ الغرض! بہت سارے امریکیوں کو مذکورہ کانفرنس میں گلاب کے پھول دکھائی دیئے تو بعض کو کانٹے دکھائی دیئے۔ وہ گلاب اور اس کی پتیاں دیکھنے سے محروم ہی رہے۔ میرے پاکستان میں بھی بعض لوگوں کو نوازشریف صاحب کی عزت افزائی کا گلاب نظر آیا نہ پتیاں۔ نظر یہ آیا کہ میاں صاحب کی تقریر نہ ہوئی حالانکہ وقت کی کمی کے باعث شاہ سلمان نے ایسے تمام سربراہوں سے معذرت کی جو تقریر نہ کر سکے اور معذرت معزز لوگوں کے ہاں قبول ہوتی ہے،وہ وقت بھی ان شاء اللہ آئے گا کہ جیسے رضا شاہ پہلوی مرحوم بھٹو اور فیصل شہید کے پہلو میں تھے۔ ایران کے صدر بھی سلمان اور نواز کے پہلو میں ہوں گے۔ آخر پر شہزادہ محمد بن سلمان کو سلیوٹ اور سلام کہ ہم مودی کے موڈ کو نہ بدل سکے۔ آپ نے ٹرمپ کو ٹریپ کر کے بدل دیا۔ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی اور تمام دنیا کے مسلمان محفوظ ہو گئے۔ آپ کے دیس میں میرے پاکستانی بھی محفوظ رہیں۔ پاکستان کی معیشت کے جسم میں یہ خون رواں رہے۔ الغرض! ٹرمپ کے بدلنے سے جن کروڑوں مسلمانوں کا خوف امن میں بدلا ان سب کی طرف سے شکریہ اور سلام اے ابن سلمان۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved