پہلی بار جب اسے امینہ سلطان کے ساتھ دیکھا گیا تو یونیورسٹی میں یہ جملہ زبانِ زدِ عام ہوا : نیا بکراقصائی نے تلاش کر لیا ہے ۔ امینہ سلطان کو قصائن ہی سمجھا جاتا تھا۔ انتہائی حد تک حسین ، ایک ایسی لڑکی جو دلوں سے کھیلتی رہتی ، پھر اکتا کر انہیں توڑ دیا کرتی ۔ بکرے کے طور پر اس بار ہمارے دوست مقبول حسین کا انتخاب ہوا تھا۔ ہم سر پیٹتے رہ گئے ۔
مقبول ایک ڈھیلا ڈھالا، سست سا لڑکا تھا۔ اکثر وہ دوسری یا تیسری بار بلائے جانے پر جواب دیتا ۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے لوگ اسے بدھو سمجھتے۔ اس کے قریبی دوست جانتے تھے کہ احمق وہ نہیں ہے ۔ وہ توضرورت سے زیادہ ذہین تھا ۔ ہمیشہ غور و فکر میں مصروف، ہمیشہ کوئی نئی بات سوچتا ہوا۔سونے پر سہاگہ یہ کہ اس سے پہلے کبھی کوئی لڑکی اس کی زندگی میں نہ آئی تھی ۔سننے میں یہ بھی آیا کہ اپنی سہیلیوں سے امینہ نے یہ کہا تھا کہ ایک ہونق کا دل توڑ کر ، اس بار وہ کچھ نیا کرنا چاہتی ہے ۔
جہاں تک مقبول کا تعلق تھا، وہ بے حد متجسس ذہن کا مالک تھا۔ ہمیشہ سچائی کی کھوج میں وہ مصروف رہتا۔ قدرتی مناظر اسے بے حد پسند تھے۔ وہ بادلوں کی تصاویر بنایا کرتا اور پہاڑوں کی۔ رات کو ہاسٹل کی چھت پر کھڑے ہو کر ، دیر تک وہ ستاروں کو دیکھتا رہتا۔بارش ہوتی تو وہ کہیں کھو سا جاتا۔ بعض اوقات تو سردیوں کی بارش میں بھیگتا رہتا۔ ان حالات میں اسے نیم پاگل سمجھنے اور ''سائیں جی‘‘ کا خطاب دینے والے اپنی جگہ درست تھے ۔ یہ اور بات کہ مقبول حسین کی ذہنی وسعتوں سے وہ واقف نہ تھے ۔
سب سے زیادہ دلچسپی مقبول کو مٹی میں تھی ۔ اس کے پاس مختلف لفافوں میں مختلف علاقوں کی مٹی پڑی تھی۔ بیرونِ ملک اپنے کئی رشتے داروں سے بھی اس نے مٹی منگوارکھی تھی ۔ دو تین بار مجھے وہ مٹی سے برتن بنانے والوں کے پاس لے گیا ۔ وہاں وہ گھنٹوں بتایا کرتا۔ میں تو اس کھیل سے اکتا گیا۔ کئی قسم کی مٹی اکھٹی کر کے ، اس میں پانی ڈال کر وہ کیچڑ بناتا ۔ پھر اس کیچڑ کو اپنے ہاتھ پہ رکھ کر دیکھتا رہتا۔ اس کے پاس ایک خوردبین بھی تھی، جس سے وہ مٹی کے ذرات کا جائزہ لیا کرتا۔
مقبول کو میں نے منع کیا تھا۔ اسے بتایا تھا کہ امینہ سلطان اسے مجنوں بنا کر چلتی بنے گی۔ ایسے 2مجنوں پہلے ہی یونیورسٹی میں پھر رہے تھے ۔ مقبول حسین نے مجھے کہا تھا کہ وہ تو صرف جنسِ مخالف میں رکھی گئی کشش کا جائزہ لے رہا ہے ۔ زندگی میں پہلی بار اسے یہ موقع ملا تھا اور اسے وہ کھونے کامتحمل نہیں ۔ پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ خود کو وہ دھوکا دے رہا ہے ۔ سچائی کی تلاش سے بڑھ کر وہ جذبات میں بہہ نکلا تھا۔ آدم کے اس بیٹے کو پہلی بار بنتِ حوا سے پالا پڑا تھا۔ لان میں اکثر انہیں یوں بیٹھا ہوا دیکھا جاتا کہ امینہ باتیں کر تی جاتی اور مقبول حسین ایک ٹک اس کی طرف دیکھ رہا ہوتا۔ دیکھنے والے مسکرا دیتے ۔ بعض یہ کہتے کہ دل توڑنے کے لیے امینہ کو اس قدر شریف انسان کا انتخاب نہ کرنا چاہیے تھا۔
انہی دنوں میں وہ پریشان رہنے لگا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ غلط ہو چکا ۔ مجھے اس نے کہا تھا کہ اس کی ذہنی کیمسٹری میں ایک بڑی تبدیلی آچکی ہے ۔ غالباً وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ امینہ کی محبت سچائی کی تلاش پہ غالب آچکی ہے ۔اس نے کہا کہ چند منٹ بھی اگر امینہ کو وہ نہ دیکھے تو بے چین ہونے لگتاہے ۔ان دنوں وہ کیمیا دانوں کے پاس زیادہ سے زیادہ جانے لگا۔اس نے اپنے دماغ کے سکین (Scan)کرائے ۔ پھر وہ مجھ سے ملا اور یہ کہا کہ اس کا اندازہ درست تھا۔ اس وقت اس کے دماغ کی کیمسٹری ایسی ہو چکی، جیسے نشے کے عادی افراد کی ہوتی ہے ۔ میرا خیال یہ تھا کہ وہ فضول اپنا وقت ضائع کر رہا ہے ۔ مختصر بات یہ کہ امینہ سے اسے شدید محبت ہوچکی تھی ۔ اب یہ اس کے ہاتھ میں تھا کہ کب اور کیسے اسے چھوڑنے کا اعلان کرتی ۔ اس کے بعد اسے تڑپنا بلکنا تھا۔ باقی عشق کے معاملے میں علمِ کیمیا میں کیا رکھا تھا ۔ یہ تو دل بہلانے کی باتیں تھیں ۔
اس کے بعد وہ دماغی معالجوں سے ملنے لگا، ماہرینِ نفسیات سے ۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی چیز کی ایسی غیر معمولی طلب، جس کے بغیر گزارا ممکن نہ ہو، نشہ کہلاتی ہے ۔ نشہ منشیات کا ہو یا مخالف جنس کا ،دماغ کے ماہرین ہی اس سے باہر نکلنے میں مدد دے سکتے ہیں ۔کچھ ادویات بھی وہ لینے لگا تھا۔ اب اکثر وہ اکیلا بیٹھا رہتا ۔ دماغ کے سکین ، ڈاکٹرسے ملنے والی معلومات کا مطالعہ کرتا رہتا۔کاغذ پر مختلف شکلیں بناتا رہتا۔ اعداد و شمار لکھتا اور پھر انہیں مٹا دیتا ۔ اب امینہ سے ملاقات کی وہ درخواست نہ کرتا لیکن وہ ملنے آتی تو انکار بھی نہ کرتا۔ اس کی سہیلیوں کا کہنا تھا کہ امینہ بھی اب جھنجھلانے لگی تھی ۔ اس بات میں اس کی بے عزتی تھی کہ ایک اللہ لوک کو دیوانہ بنانے میں اس قدر وقت اسے صرف کرنا پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یہ کھیل ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
جس روز یہ سب ہنگامہ ہوا، امینہ آئی اور اس نے مقبول حسین سے کہا کہ وہ اس سے اکتا چکی ہے اور مزید کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتی ۔ مقبول اعداد و شمار ، دماغ کے سکینزاور تصاویر میں کھویا ہوا تھا۔ امینہ کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ اس کی یہ بات سن کر مقبول تڑپ اٹھے گا لیکن اسے کوئی جواب ہی نہ ملا۔ اسے شبہ ہوا کہ مقبول نے اس کی بات سنی بھی ہے یا نہیں ۔ اس نے اپنی بات دہرائی ۔ مقبول نے اس سے یہ کہا : سارے حساب کتاب کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گیارہ ماہ میں تم میرے دماغ سے نکل جائو گی۔ میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ یہ گیارہ مہینے بہت تکلیف دہ ہوں گے لیکن زمینوں اور آسمانوں کے نور کو چھو ڑکر جو مٹی سے محبت کرے ، تکلیف سے تو اسے گزرنا ہوگا۔ چند لمحات کے لیے امینہ کو یقین ہی نہ آیا کہ مقبول نے اسے 'مٹی ‘ کہا ہے ۔ پھر وہ چیخنے چلّانے لگی ۔ لڑکے لڑکیاں اکٹھے ہو گئے ۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ مقبول خاموش بیٹھا تھا اور امینہ حلق کے بل چیخ رہی تھی ۔ ایک تماشا لگ گیا۔
اس دن کے بعد امینہ سلطان اور مقبول حسین اکٹھے نظر نہ آئے۔ ہاں البتہ امینہ بھی اب مقبول ہی کی طرح کھوئی کھوئی سی رہنے لگی تھی ۔