تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     03-06-2017

زخم پر زخم اور بے بسی کا عالم

اپنے ڈرائونے ترین خواب میں بھی شریف فیملی اس کا تصور نہیں کر سکتی تھی جو اُن کے ساتھ ہو رہا ہے۔ حسین نواز سے متعدد بار کی گئی پوچھ گچھ، حسن نواز کی طلبی، نواز شریف کے کزن طارق شفیع سے طویل تفتیش، نیشنل بینک کے چیئرمین سعید احمد، جو موجودہ حکمران خاندان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، اور یہی ہماری اسلامی جمہوریہ میں اونچے عہدوں پر پہنچنے کے لیے سب سے بڑا میرٹ ہے، سے پوچھ گچھ۔ طارق شفیع نے شریف فیملی پر لگے پاناما الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کے ہاتھوں سخت سلوک کی شکایت کی۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا تو اس کی آبزرویشن بجا تھی کہ طارق شفیع کو کسی چائے کی دعوت پر نہیں، پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔
اس معاملے کو جس زاویے سے بھی دیکھا جائے، شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ میرا نہیں خیال تھا کہ یہ معاملہ اس نہج تک پہنچ پائے گا‘ لیکن جو کچھ ہو رہا ہے یہ ایک انہونی ہے اور اسی لیے حکمران جماعت پریشان ہے۔ جوڈیشل اکیڈیمی، جہاں تحقیقات جاری ہیں، میں جمع ہونے والے اس کے کارندوں کے ناراض لب و لہجے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ تحقیقات کس طرف جا رہی ہیں اور ان کا دبائو حکمران جماعت پر کس طرح پڑ رہا ہے۔ 
نہال ہاشمی کو تو قربانی کا بکر ا بنا دیا گیا‘ لیکن اُنھوں نے جو کچھ کہا وہ حکمران جماعت کے چھپے ہوئے جذبات کی غمازی کرتا ہے۔ جو کچھ دیگر پارٹی وفاداروں کے دل میں ہے، وہ زبان پر لے آئے۔ حکمران جماعت کو اب احساس ہوتا جا رہا ہے کہ اُسے مہلک خطرے کا سامنا ہے۔ شریف فیملی کے وفادار سوچتے تو ہیں کہ یہ اُن کی قیادت کے خلاف کوئی مذموم سازش ہو رہی ہے، لیکن جو کچھ ہو رہا ہے‘ دراصل ماضی کے افعال ہیں جو آخر کار اُن کے دامن گیر ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ بہت سی رکاوٹوں سے صاف بچ نکلے لیکن پاناما کیس اُن کے اس طرح درپے ہے کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود وہ اس سے جان نہیں چھڑا پائے ہیں۔ عام طور پر پاکستان میں سازشیں اندرونی طور پر فعال فیکٹریوں کی ہی پیداوار ہوتی ہیں لیکن یہ بلائے ناگہانی اتنی دور سے اور اس انداز سے نازل ہوئی کہ پاکستان میں کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ 
پاکستان میں ہر کسی کو، چاہے اُس کا تعلق سیاست، بزنس یا میڈیا سے ہو، پتہ تھا کہ شریف خاندان لندن میں بھاری بھرکم جائیداد رکھتا ہے۔ اور پھر نواز شریف صاحب نے بھی اس پر کوئی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ لندن دوروں کے دوران کہاں قیام کرتے ہیں۔ وہ انہی فلیٹس میں اجلاس بلاتے اور ان کی صدارت کرتے جن کی بابت اب تحقیقات ہو رہی ہیں۔ مشرف دور کی جلا وطنی کے دوران کئی ایک صحافیوں نے اُن سے وہاں ہی ملاقات کی۔ اور تو اور لندن پریس میں بھی انہی فلیٹس کے بارے میں کہانیاں اور انکشافات سامنے آئے۔ مشرف شب خون کے بعد نواز شریف کے چھوٹے بیٹے سے بی بی سی کے ٹم سبسطین نے انٹرویو لیا اور انہی فلیٹس کی ملکیت کے بارے میں سوالات کیے۔ وہ انٹرویو بڑا دلچسپ ہے۔ متواتر پوچھے جانے والے سوالات کے جواب میں آخر کار حسن نے کہا کہ وہ ایک طالب علم ہے اور ایک کرائے دار کے طور پر یہاں رہ رہا ہے اور کرائے کی رقم باقاعدگی سے پاکستان سے آتی ہے۔ 
انہی پراپرٹیز کا ذکر 1999ء میں لندن ہائی کورٹ کے کیس میں آیا‘ جو التوفیق انوسٹمنٹ فنڈ نے شریف فیملی کے خلاف کیا تھا۔ شریف فیملی التوفیق کی قرض دار تھی اور سیانے کاروباری ہونے کے ناتے اُنھوں نے قرض ادا نہ کیا۔ عدالت نے رولنگ دی کہ اگر قرض واپس نہ کیا گیا تو شریف فیملی کی ملکیت میں ہائیڈ پارک فلیٹس کو ضبط کر لیا جائے۔ کوئی چارہ نہ رہا تو قرض کی ادائیگی گمنام طریقے سے سعودی حوالوں سے کر دی گئی۔ اس وقت ان فلیٹس کی ملکیت کے سوال پر کسی قطری کا دور دور تک ذکر نہ تھا۔ پوری عدالتی کارروائی میں کہیں قطر کا نام دیکھنے کو نہیں ملتا۔ 
لیکن اب پاناما کیس کی سماعت کے دوران یہ توقع کرنا کہ جج صاحبان دیر سے اختراع کی ہوئی قطری داستان پر یقین کر لیں گے، اُن کی عقل اور دانائی کی توہین ہے۔ کون ذی شعور شخص اُن دونوں خطوط کو‘ جو عدالت میں پیش کیے گئے، سنجیدگی سے لے گا؟ اور یہاں شریف فیملی اور اُن کے وکلا امید لگائے بیٹھے تھے کہ جیسے ہی ان خطوط کو عدالت میں پیش کیا جائے گا‘ فاضل جج صاحبان فرطِ جذبات میں کہہ اٹھیں گے کہ اُنھوں نے روشنی دیکھ لی، تمام مغالطہ دور ہو چکا اور معزز شریف فیملی بالکل معصوم اور بے گناہ ہے۔ 
اور یہ امید‘ جو شریف خاندان لگائے بیٹھا تھا، اتنی غلط بھی نہ تھی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا، وہ اپنے طویل سیاسی سفر میں کہیں زیادہ پیچیدہ الجھنوں سے بچ نکلے تھے۔ وہ کیسز اور الزامات، جو دیگر سیاست دانوں کو تباہ کر دیتے، یہ خاندان اپنے موافق جوڈیشل فیصلوں کی بنا پر اُن سے بچتا چلا گیا۔ اُس دوران پی پی پی قیادت کو شاذ و نادر ہی عدالتوں سے ریلیف مل سکا‘ لیکن شریف خاندان کی خوش بختی کہ اُنہیں شاذ و نادر ہی ناموافق ججوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 
لیکن وہ ماضی تھا۔ اب ان کا واسطہ پہلی بار آزاد ججوں اور غیر جانبدار تفتیش کاروں سے پڑا ہے۔ اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس تجربے سے کیسے نمٹیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے اُنھوں نے تین مرتبہ اپنے وکلا کی ٹیمیں تبدیل کیں۔ اس سے اُن پر نازل ہونے والی نئی افتاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ کسی تبدیلی سے تسلی نہ ہوئی، ذہین سے ذہین وکیل بھی اُنہیں ناکافی محسوس ہوا۔ لیکن بہترین وکلا بھلا کیا کر سکتے تھے جب اُن کے سامنے واحد دفاعی ڈھال قطری خطوط ہوں جو منظرِ عام پر آتے ہی لطیفہ بن گئے۔ لاہوری تھیٹرز مزاح میں اپنا نام رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ہدایت کار قطری مکتوب کو بنیاد بناتے ہوئے ایک ڈرامہ تشکیل دے تو امید واثق ہے کہ وہ بہت کامیاب ہو گا۔
یہ کوئی سازش نہیں، یہ قدرت اور قسمت کا کھیل ہے۔ جب نواز شریف کو جنرل مشرف کے ہاتھوں سزا کا سامنا تھا تو اُن کے لیے ہمدردی کے جذبات موجود تھے۔ اُن حالات میں جب پاکستان پر فوجی آمریت مسلط تھی تو یہ انوکھا منظر دیکھنے کو ملا کہ نواز شریف، جو کہ ایک فوجی آمر کے پروردہ تھے، جمہوریت کے چمپئن بن گئے۔ اب حالات کا چکر دیکھیں، نواز شریف کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا، وہ منصب سے الگ نہیں ہوئے، وہ اب بھی وزیرِ اعظم ہیں لیکن پھر بھی ایک بڑے امتحان میں پڑ گئے ہیں۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس کا نجام کیا ہو گا۔ 
ایک وقت تھا جب طاقت کے نشے میں چُور، پی ایم ایل (ن) سپریم کورٹ پر حملہ کرنے اور اُس وقت کے چیف جسٹس کو فرار ہونے پر مجبور کرنے سے بھی گریزاں نہ تھی۔ ایسا واقعی ہوا تھا، یہ محض لفاظی نہیں ہے۔ آج پی ایم ایل (ن) کی قیادت دل ہی دل میں کھول سکتی ہے، اور کچھ تاریک خیالات زیرِ لب بیان کر سکتی ہے۔ آج بھی پی ایم ایل (ن) اقتدار میں ہے لیکن اس کے پاس وہ طاقت نہیں جو 1998ء میں تھی‘ جب سپریم کورٹ پر چڑھائی کی گئی تھی۔ ملک میں طاقت کا توازن آج قدرے مختلف ہے۔
پاناما وہ مقام ہے جسے شاید زیادہ تر پاکستانی نقشے پر بھی نہ تلاش کر سکیں۔ اس کے اور پاکستان کے درمیان سات سمندر حائل ہیں۔ اس کے باوجود اس طرف سے چلنے والی آندھی نے ہمارے ہاں ایک رستاخیز برپا کر دیا ہے۔ زمین تھرتھرا رہی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved