تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     03-06-2017

عدالت اور سیاست

عدالت اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے۔ ریمارکس اور بیانات میں اگر امتیاز کرنا مشکل ہو جائے تو یہ بات باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔
نہال ہاشمی صاحب کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر حکومتی جماعت سے کیا توقع کی جانی چاہیے تھی؟ یہ کہ وہ بیان سے اظہارِ لاتعلقی کرے اور جماعتی ضوابط کے تحت کارروائی کرے۔ کم از کم یہی ہو سکتا تھا۔ حکومتی جماعت نے کم از کم نہیں، وہ کچھ کیا جو زیادہ سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ ہاشمی صاحب کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا۔ ن لیگ سے وابستگی ختم کر دی گئی۔ بیان سے لاتعلقی ہی کا اظہار نہیں کیا گیا، اسے قابلِ مذمت بھی کہا گیا۔ وزیرِ اعظم نے اپنے اس ردِ عمل کے اظہار میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔ یہ سب کچھ عدالتِ عظمیٰ کے نوٹس لینے سے پہلے ہو چکا تھا۔ کیا حکومت اس کے بعد بھی مجرموں کا ایک گروہ (مافیا) ہی قرار پائے گی؟
ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہیں۔ کیا شریف خاندان نے عدالت کے راستے میں روڑے اٹکائے؟ پاناما کیس شروع ہوا تو حکومت نے عدالت سے مکمل تعاون کیا۔ شریف خاندان کے لوگ اپنے بعض جائز حقوق سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوئے کہ ان پر اصرار عدالت سے فرار نہ سمجھا جائے۔ سماعت کے تمام عرصے میں عدالت کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ عدالت میں اگر کسی فریق کے وکیل سب سے زیادہ باوقار رہے تو وہ شریف خاندان کے وکیل تھے۔ جے آئی ٹی کے ساتھ بھی، تحفظات کے باوجود تعاون کیا گیا۔ حسین نواز شریف صاحب تین دفعہ پیش ہو چکے۔ حسن بھی پیش ہو گئے۔ بایں ہمہ کوئی ایک شہادت ایسی نہیں ہے جو یہ بتاتی ہو کہ حکومت نے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ برسبیلِ تذکرہ، یہ بھی یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف کو تیس سے زائد مرتبہ عدالت طلب کیا گیا اور وہ ایک بار بھی حاضر نہیں ہوئے۔ ان کا جرم پاناما کے الزام سے کہیں سنگین تر ہے۔
ایک بات تواتر سے دھرائی جاتی ہے کہ یہی جماعت تھی جس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ بجا ارشاد! یہ امرِ واقعہ ہے جس کا انکار ممکن نہیں؛ تاہم یہ ادھوری سچائی ہے۔ مکمل سچائی یہ ہے کہ جب یہ حملہ ہوا، اس وقت ن لیگ نہیں، ایک ہی مسلم لیگ ہوتی تھی۔ حملے کے پسِ پردہ جن لوگوں کے نام لیے جاتے تھے، ان میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی بھی شامل تھے۔ چوہدری شجاعت اُس وقت وزیرِ داخلہ تھے۔ اُس دور کے پریس نے لکھا کہ حملہ کے لیے زیادہ تر لوگ گجرات سے لائے گئے تھے۔ طارق عزیز اور اختر رسول جیسے لوگ‘ جو بعد میں ق لیگ کے راہنما بنے‘ سب ہراول دستے میں شامل تھے۔ محترم جہانگیر ترین بھی اُس وقت اس جماعت کا حصہ تھے۔ جب ایک جرم میں بہت سے لوگ شریک ہیں تو ذمہ دار کوئی ایک کیوں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الزام کو تواتر سے دھرانے والے پرویز الٰہی صاحب ہیں یا جہانگیر ترین صاحب۔
اس بات کو ایک اور زاویے سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ وہ ماضی ہے جس سے سیاسی جماعتوں نے اعلانِ برات کیا ہے۔ 'میثاقِ جمہوریت‘ ایک نئے سیاسی عہد کا آغاز تھا۔ یہ صحیح ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اس کی مکمل پاسداری نہیں کی لیکن اس کے نتیجے میں مثبت پیش رفت بھی ہوئی۔ معاملات سیاسی استحکام کی طرف بڑھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے۔ قانون سازی کے باب میں اہم پیش رفت ہوئی۔ بار بار ماضی کی غلطیوں کا حوالہ دینا اس ارتقائی عمل کی نفی کرنا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کا ماضی ایسا نہیں جو لائقِ تحسین ہو۔ شیخ رشید کا ماضی کیا ہے؟ نواز شریف کی وکالت؟ عمران خان کا ماضی کیا ہے؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی عدلیہ کا سامنا کیا اور اب ن لیگ سامنا کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی عدلیہ پر اثر انداز نہیں ہوئی اور نہ موجودہ حکومت ہو رہی ہے۔ توگویا دونوں بڑی جماعتیں عدالت کو سیاسی جماعت بنانے کے حق میں نہیں ہیں۔ عدالت بھی یقیناً یہ نہیں چاہے گی کہ یہ تاثر قائم نہ ہو۔
میڈیا نے معزز جج جسٹس عظمت سعید صاحب کے ریمارکس نقل کیے ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ''مبارک ہو مسٹر اٹارنی جنرل! آپ کی حکومت نے سسلین مافیا کو جوائن کر لیا ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب! آپ کو ایسی کمیونٹی کا حصہ بننا مبارک ہو‘‘۔ ممکن ہے معزز جج صاحب کے پاس ان جملوں کی کوئی ایسی تاویل ہو جس کی طرف اِس عامی کی نظر نہیں جا سکی۔ میرے کانوں سے جب یہ الفاظ ٹکراتے ہیں تو میرا دھیان فوراً عمران خان کی طرف جاتا ہے یا زرداری صاحب کی طرف۔ یہ دونوں روایتی سیاست دان ہیں، جج نہیں، جو حکومتوں کے بارے میں ایسے الفاظ کہتے رہتے ہیں۔ لوگ بھی سن لیتے ہیں کہ سیاست دان ایک دوسرے کے بارے میں ایسے ہی گفتگو کرتے ہیں۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ ان جملوں کا انتساب اہلِ سیاست نہیں، کسی اور طرف ہے۔ اس حیرت کا سبب یہ ہے کہ ایک عام آدمی عدالت کو ہمیشہ سیاست سے ماورا دیکھتا ہے۔
اس وقت ملک میں اضطراب کی کیفیت ہے۔ اداروں کی ساکھ داؤ پر لگ چکی۔ اب ان اداروں کو خود آگے بڑھ کر اپنی عزت کی حفاظت کرنی ہے۔ پارلیمنٹ کی عزت اہلِ سیاست کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اسے عزت کا مستحق نہیں سمجھیں گے تو دوسرے ادارے بھی اس کی تعظیم نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ کی عزت یہ ہے کہ اسے قانون سازی کا ماخذ اور ایک بالاتر ادارہ بنایا جائے۔ فوج کی عزت جنرل صاحبان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر اقتدار کے کھیل میں فریق بن جائیں گے جیسے ضیاء الحق صاحب یا پرویز مشرف بنے تو پھر فوج کی ساکھ پر اثر پڑے گا۔ اسی طرح عدالت کی عزت کا دفاع جج صاحبان کو کرنا ہو گا۔ ان کے کسی ریمارکس سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ عدلیہ کوئی سیاسی جماعت ہے۔ جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے منصبِ قضا پر بیٹھ کر اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنا چاہی تو اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کہنے کو وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں لیکن جمشید دستی ان سے بڑے سیاست دان دکھائی دیتے ہیں۔
حکمران جماعت کی طرف سے اظہارِ لاتعلقی اور انضباطی کارروائی کے بعد، نہالِ ہاشمی صاحب کی تقریر اب ایک انفرادی معاملہ ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی مسرت کا ملالہ پر حملے کو ڈرامہ قرار دینا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک انفرادی رائے تھی جس کے پس منظر میں کوئی گاڈ فادر تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے نہال ہاشمی کے بارے میں یہ کہنا کہ ''نہال ہاشمی کی آواز میں کوئی اور بول رہا تھا‘‘ توجہ طلب ہے۔ انصاف کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ ہر فرد کو بے گناہ سمجھا جائے الا یہ کہ اس کے گناہ گار ہونے کے شواہد موجود ہوں۔ سماعت کے آغاز سے پہلے فیصلے کا تاثر عام آدمی کے دل میں غلط فہمی کو جنم دے سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ عدلیہ کے معزز جج صاحبان اس طرح کی غلط فہمی پیدا نہیں ہونے دیں گے۔
ایک آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ ہماری قومی ضرورت ہے۔ ایک سیاست دان سے اعتماد اٹھ جائے تو ہمارے پاس اس کا متبادل موجود ہوتا ہے۔ عدلیہ اور فوج کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کا معاملہ نازک تر ہے۔ ان پر اعتماد کو ہر صورت میں باقی رہنا چاہیے۔

 

ایک آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ ہماری 
قومی ضرورت ہے۔ ایک سیاست دان سے 
اعتماد اٹھ جائے تو ہمارے پاس اس کا متبادل 
موجود ہوتا ہے۔ عدلیہ اور فوج کا کوئی متبادل 
نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کا معاملہ نازک تر ہے۔ 
ان پر اعتماد کو ہر صورت میں باقی رہنا چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved