تمہارا وہ حشر کریں گے کہ تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔۔۔جانتے ہو کس کا حساب لے رہے ہو؟مسلم لیگ نواز کے (سابق )سینیٹر نہال ہاشمی کی گفتگو اورپھر پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کی ویڈیو اس قدر وائرل ہو چکی ہے کہ اس میں انہوں نے جو الفاظ اور لہجہ ختیار کیا ہے اس سے دسمبر1997 ء کی وہ صبح یاد آ گئی جب سپریم کورٹ پر لاہور اور راولپنڈی سے آئے ن لیگ کے کارکنوں کے بہت بڑے ہجوم نے اچانک ایسا دھاوابولا کہ سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں بیٹھے ہوئے معزز جج حضرات بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے اور اسلام آباد کی پولیس ایک جانب کھڑی تماشا دیکھتی رہ گئی۔۔۔مضحکہ خیزی دیکھئے کہ جنہوں نے اس حملے کا حکم دیا ،جنہوں نے کارکنوں کو کوسٹروں میں لاہور روانہ کیا جنہوں نے انہیں پنجاب ہائوس میں ٹھہرایا وہ اسی طرح پاک صاف رہے ۔استعمال ہونے و الے کچھ لوگوں کو تو سزا دے دی گئی لیکن استعمال کرنے والوں کو کلین مل گئی۔کاش اسی قسم کی کلین چٹ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی دے دی گئی ہوتی کیونکہ انہوں نے بھی کچھ لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا تھا۔ جرم تو سب کا ایک جیسا ہی تھا لیکن یہ تفاوت کیوں یہ فرق کیوں؟۔ یہ بے بسی یا بے حسی کیوں؟۔ اس قسم کا فرق کچھ لوگوں کیلئے کیوں؟۔
اس میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ یہ دھمکی یقینا ججوں اور جائنٹ انٹیرو گیشن ٹیم کو براہ راست دی گئی ہے اور جب بھی کوئی اعلیٰ عدلیہ کو دھمکیاں دیتا ہے تو یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ وہ حکومت پاکستان کی رٹ کو اسی طرح للکارتا ہے جس طرح تحریک طالبان اور دہشت گرد حکومت پاکستان کی رٹ کو للکارتے ہیں۔ نہال ہاشمی نے سپریم کورٹ کے تحت کام کرنے والے ہر ادارے کو للکارا ہے، انہیں براہ راست دھمکیاں دیتے ہوئے حکومت پاکستان کے کاروبار حیات کو تلپٹ کرنے کی دھمکی دی ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔یہ دھمکی اس لئے دی گئی تاکہ وہ سرکاری ملازمین جو احتساب کے عمل کا حصہ ہیں وہ اس دھمکی کے بعد آزادانہ کام نہ کر سکیں۔ نہال ہاشمی کی یہ دھمکی آمیز ویڈیو اس وقت ہر گھر میں دیکھی جا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ جائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کے خاندان کے لوگ بھی اس ویڈیو کو بار بار دیکھ چکے ہوں گے اور بات صرف اس ویڈیو تک ہی محدود نہیں ایک ٹی وی چینل پر بھی انہوں نے براہ راست یہی دھمکی دیتے ہوئے ٹیم کے ار اکین کو سخت خوف زدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔صد شکر کہ اعلیٰ عدلیہ نے اس دھمکی کا نوٹس لیا اور اس بابت کارروائی بھی شروع کر دی۔ ان پر فرد جرم عائد کر کے انہیں کڑی سزا دی جانی چاہیے۔اگر کوئی ان کے پیچھے ہے تو اسے بھی سامنے لایا جانا چاہیے۔
اگر نہال ہاشمی کی اس دھمکی اور توہین آمیز گفتگو کو یہ کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی کہ یہ حنیف عباسی اور دانیال عزیز کی طرح نہال ہاشمی کی روز مرہ کی گفتگو کا حصہ ہے تو یہ سخت بھول ہوتی۔۔۔نہال ہاشمی کسی کے حکم کے بغیر ایسے الفاظ ادا کر ہی نہیں سکتے۔ یقینا انہیں کہیں سے کہا گیا ہو گا جبھی تو یہ الفاظ ادا کرتے وقت ان کی باڈی لینگوئج سب سے زیا دہ خطرناک تھی اور ایسے اگر الفاظ ادا کرائے جا رہے تھے تو بہت کچھ سوچ سمجھ کر اد اکئے گئے تھے۔
آج کل قومی اداروں کے بارے میں وہ کچھ کہا جا رہا ہے جس کا کوئی ذی ہوش تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ اس ملک میں ہر وقت دو قانون کیوں ہوتے ہیں۔ اب تک سوشل میڈیا سے تحریک انصاف کیلئے ہمدر دیاں رکھنے والے ایک درجن سے زائد لوگوں کو ایف آئی اے کی جانب سے اس الزام میں گرفتار کیا چکا ہے کہ وہ اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے تھے۔۔لیکن یہ سب کیا ہے کہ نہال ہاشمی کے علاوہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری جیسے لوگ بھی روزانہ بہت کچھ کہہ رہے ہیں لیکن یہ آزاد ہیں۔۔۔کیا یہ لوگ ہر قسم کے قاعدے قانون سے مبرا ہیں؟۔
افواہیں گردش کر رہی ہیں،کچھ لوگ دبے لفظوں سے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی کسی نہ کسی طرف سے کچھ کیا جانے والا ہے کیونکہ ایوان اقتدار کبھی بھی برداشت نہیں کرے گا کہ ملک کی عدلیہ ان کی آئینی اور قانونی نا اہلی پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر دے اس لئے کچھ ایسا پلان ترتیب دیا جانے والا ہے جس سے ملک کے اداروں کو ہر صورت میں حرکت میں آنا پڑ جائے گا اور اس عمل کو اپنے دیرینہ مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے سیا سی شہا دت کا تمغہ اپنے سر سجا لیا جائے گا۔کہا یہ جا رہا ہے کہ ابھی تو صرف حسین نواز‘ حسن نواز اور سعید احمد کو جے آئی ٹی نے طلب کیا ہے کل کو جب وزیر اعظم یا ان کے خاندان کے کسی دوسرے فرد کو طلب کیا گیا تو حالات قابو سے با ہر ہو سکتے ہیں۔۔۔کیا ا س کیلئے حکومت کے مقتدر اداروں کے پاس مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں اور اگر ان تک یہ سب اطلاعات پہنچ چکی ہیں تو پھر انہوں نے اس کیلئے کیا تدابیر اختیار کی ہیں۔۔۔اگر اس معاملے کو ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ملک میں ایسی انا رکی پھیلے گی کہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکے گا۔
حسین نوازشریف کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے درمیان تفتیشی مراحل کی تفصیلات جو میڈیا کے ذریعے باہر آئی ہیں ان سے بھی زیا دہ حسین نواز شریف نے اپنے عزیزوں کو تنہائی میں بتائی ہوں گی اور اس پر ان کا کیا رد عمل ہو سکتا ہے اس کیلئے ہم سب کو ڈان لیکس کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی ذہنی کیفیت اور غصے کا اندازہ کرنا ہو گا کہ جب تک آئی ایس پی آر کی جانب سے ڈان لیکس پر رائو تحسین اور طارق فاطمی کے بارے میں وزیر اعظم ہائوس کے کئے گئے فیصلے کو نامکمل سمجھتے ہوئے اس پر جاری کی جانے والی احتجاجی ٹویٹ واپس نہیں لی گئی تھی تو حکمرانوں کا غصہ دیدنی تھا اور انہیں اسی وقت چین آیا جب تک ٹویٹ واپس نہیں لے لی گئی ۔نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا اس پر ان کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا گیا تو مستقبل میں بھی اس سلسلے کو نہیں روکا جا سکے گا۔ اگر ہر کوئی آئینی اداروں کے خلاف اٹھ کر باتیں کریں گا اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے جو منہ میں آئے کہتا چلا جائے گا تو اس سے ملک کا نظام تہس نہس ہو جائے گا۔اگر سیاستدانوں کے ہاتھوں ملک کے اعلیٰ ترین آئینی ادارے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے تو ان سیاستدانوں کو ایوان میں جانے کا کوئی حق نہیں۔ کسی بھی ادارے کو نقصان پہنچاتے وقت یہ دیکھ لینا چاہیے کہ یہ ہمارے قومی ادارے ہیں اور انہیں نقصان پہنچنے سے ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے لہٰذا نہال ہاشمی کو ایسی سخت سزا دی جانی چاہیے کہ مستقبل میں کسی اور کو ایسی ہرزہ سرائی کی جرأت نہ ہو سکے۔
اگر سیاستدانوں کے ہاتھوں ملک کے اعلیٰ ترین
آئینی ادارے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے تو ان
سیاستدانوں کو ایوان میں جانے کا کوئی حق نہیں۔
کسی بھی ادارے کو نقصان پہنچاتے وقت یہ دیکھ
لینا چاہیے کہ یہ ہمارے قومی ادارے ہیں اور انہیں
نقصان پہنچنے سے ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے لہٰذا
نہال ہاشمی کو ایسی سخت سزا دی جانی چاہیے کہ مستقبل میں
کسی اور کو ایسی ہرزہ سرائی کی جرأت نہ ہو سکے