تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-06-2017

سُرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

جے آئی ٹی میں معاملات قانون کے مطابق 
چلتے رہیں تو ٹھیک ہے : حسین نواز
وزیراعظم میاں نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ ''جے آئی ٹی میں معاملات آئین اور قانون کے مطابق چلتے رہیں تو ٹھیک ہیں‘‘ ورنہ ساری دُنیا ہمیں جانتی ہے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں بلکہ کام کا آغاز تو ایک طرح ہو بھی چکا ہے اور نہال ہاشمی صاحب کے بیان سے لوگوں کے پسینے چھوٹ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''آج پھر مجھے دو گھنٹے انتظار کرایا گیا‘‘ حالانکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم تھا کہ میں کس کا بیٹا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''لسّی اور لڑائی کو جتنا بھی بڑھایا جائے بڑھتی جاتی ہیں‘‘ چنانچہ ہم نے مجبور ہوکر لسّی میں کافی پانی ملا دیا ہے جس کے نتائج سامنے آتے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے خاندان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا‘‘ کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی ہم نے کوئی ثبوت پیچھے چھوڑے ہیں۔ آپ اگلے روز جوڈیشل اکیڈمی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
الزامات بے بنیاد اور ضابطۂ اخلاق کے 
منافی ہیں : حکومتی ترجمان
حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ ''معزز جج کے الزامات بے بنیاد اور ضابطۂ اخلاق کے منافی ہیں‘‘ اور اس کا بندوبست ہمیں کرنا ہی پڑے گا‘ چنانچہ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کر لیا گیا ہے اور ہمارے اقدامات ایک ایک کر کے سامنے آتے رہیں گے کیونکہ یہی گھوڑا ہے اور یہی اُس کا میدان۔ انہوں نے کہا کہ ''ان الزامات کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت اور وقار کو دھچکا لگا‘‘ جبکہ وزیراعظم صاحب نے اپنے کارناموں سے پاکستان کے وقار کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''معاملے کی آگاہی کے بغیر ریمارکس دیئے گئے‘‘ کیونکہ نہال ہاشمی صاحب اس دن روزے سے تھے اور روزے سے چونکہ دماغ میں غیر معمولی توانائی آ جاتی ہے اس لیے الفاظ خواہ مخواہ ان کے مُنہ سے ادا ہو گئے اور چونکہ جے آئی ٹی والے بھی روزے سے ہوتے ہیں اس لیے حسین نواز سے ان کی تفتیش بھی غیر معمولی تھی۔ تاہم‘ ہم نے بھی چُوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔
میں پاگل نہیں جو نہال ہاشمی کو ایسی باتوں
کے لیے اُکساتا : گورنر سندھ
گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''میں پاگل انہیں جو نہال ہاشمی کو ایسی باتوں کے لئے اُکساتا‘‘ کیونکہ ایسی دلیری صرف ہمارے قائد میں ہے اور وہ نہایت احتیاط کے ساتھ یہ سارا کچھ کرتے رہتے ہیں جبکہ شیر کی دلیری میں کسے شک ہو سکتا ہے‘ علاوہ ازیں جب نہال ہاشمی اور دیگران کی رہنمائی کے لیے وزیراعظم کا میڈیا سیل موجود ہے تو کسی اورکو ایسے مشورے دینے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اداروں کے بارے میں وزیراعظم صاحب کی ہدایت یہی ہے کہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں رہ کر کام کریں‘ البتہ وزیراعظم صاحب کا اپنا دائرہ خاصا بڑا ہے اور زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہے اس لیے کسی اور پر شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ میں بھی اپنے آپ کو تھوڑے ہی عرصے کا مہمان سمجھتا ہوں کیونکہ اس عہدے کا قرعہ فال اب نہال ہاشمی صاحب کے نام کا نکل آیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں سعودی قونصل جنرل کی طرف سے اپنے افطار ڈنر میں گفتگو کر رہے تھے۔
نیب کو شکایات میں اضافہ عوام کے اعتماد کا اظہار ہے : چیئرمین نیب
چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ ''نیب کو شکایات میں اضافہ عوام کے اعتماد کا اظہار ہے‘‘ اگرچہ یہ شکایات زیادہ تر نیب اہلکاروں اور افسران ہی کے خلاف ہوتی ہیں‘ تاہم‘ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ نیب کچھ تو کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''زیرو ٹالرینس پالیسی کے تحت کرپشن کے خاتمہ کے لیے پرعزم ہیں‘‘ اور پُرعزم ہونے کا مطلب ہر کوئی خوب اچھی طرح سے سمجھتا ہے جبکہ حکومت بھی ہر معاملے میں پُرعزم ہی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب کی کوششوں سے پاکستان کرپشن میں 116 ویں نمبر پر آ گیا ہے‘‘ حالانکہ اسے سولہویں نمبر پر ہونا چاہیے تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل والے بھی اپنے اعداد و شمار میں گڑ بڑ کر جاتے ہیں جو کہ اپنی جگہ پر قابل تشویش ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں نیب ہیڈ کوارٹرز میں نیب کے جائزہ اور نگرانی پروگرام میں بریفنگ لے رہے تھے۔
پُوجا کے قابل...؟
یادش بخیر‘ سید نہال ہاشمی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نوازشریف اگر کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کی پوجا کی جاتی اور چونکہ وزیراعظم صاحب کو اپنی پرستش کا بیحد شوق ہے اس لیے نہال ہاشمی کے مشورے کے مطابق انہیں کسی بھی اور ملک میں شفٹ ہو جانا چاہیے تاکہ جی بھر کے اپنی پُوجا کروا سکیں۔ اوّل تو صاحب موصوف اپنے ملک میں بھی پُوجا کے قابل ہیں لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ''گھر کے پیر کو کوئی نہیں مانتا‘‘ یہ ملک اس سعادت سے محروم ہی چلا آ رہا ہے اس لیے آپ خود ہی بتائیے کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟ ہیں جی؟ ہماری ناقص رائے میں پُوجا کروانے کے لیے وزیراعظم کا پسندیدہ مُلک بھارت ہی ہو سکتا ہے جہاں ویسے بھی بُتوں کی پوجا عام ہے‘ تو اگر ایک جیتا جاگتا بُت انہیں دستیاب ہو جائے تو انہیں اور کیا چاہیے جبکہ اس پُوجا سے ان کے اپنے گناہ بھی جھڑ جائیں گے یعنی ایک پنتھ دو کاج۔ چنانچہ اگر اُنہیں پانامہ کیس سے جلد از جلد فارغ کر دیا جائے تو ان کے لیے بھارت چلے جانا ویسے بھی کافی آسان ہو جائے گا۔ چنانچہ اگر ہمارے پاس ایک ایسی دیوتا صفت شخصیت خوش قسمتی سے موجود ہے جس کی پُوجا کے لیے دُنیا کا ہر مُلک بیتاب ہو گا تو سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ اس نیک کام میں دیر نہ لگائے کیونکہ اس کا ثواب اُسے بھی حاصل ہو گا۔
آج کامطلع
مدت سے کوئی بات کوئی گھات ہی نہیں
کیا عشق ہے کہ شوق ِ ملاقات ہی نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved