تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     04-06-2017

بصدادب و احترام گزارش ہے کہ…

نہال ہاشمی کی تقریر کا نوٹس لینا بنتا تھا‘ آپ نے بہت اچھا کیا کہ نوٹس لیا‘ اور اسے اگلے روز عدالت میں طلب کر لیا۔ لیکن اس کی قیادت نے بھی اس کارخیر میں کسی کوتاہی‘ کسی سست روی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ مجھے تو یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ نہال ہاشمی کے خلاف کارروائی میں اس کی قیادت کو اتنی جلدی تھی کہ انصاف کے معروف اصول پر عملدرآمد شوکاز نوٹس اور ''ملزم‘‘ کو صفائی کا موقع دینے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ وزیراعظم (جو نہال ہاشمی کی جماعت مسلم لیگ نون کے سربراہ بھی ہیں) نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے نہایت اہم اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ یہ اجلاس چار گھنٹے سے زائد جاری رہا‘ لیکن انہوں نے نہال ہاشمی کی تقریر کے معاملے کو التوا میں ڈالنے کی بجائے فوری کارروائی کی۔ صبح گیارہ بجے کے قریب نہال ہاشمی کی تقریر میڈیا پر آئی‘ حکومتی ترجمان مریم اورنگزیب صاحبہ نے اسے ہاشمی کے ذاتی خیالات قرار دیتے ہوئے حکومت اور مسلم لیگ نون کی طرف سے اس سے اظہار لاتعلقی کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت کو مسئلے کی سنگینی کا بخوبی احساس تھا۔ ہاشمی مسلم لیگ نون کا پرانا ورکر تھا۔ مشرف آمریت کے آغاز ہی میں‘ کراچی میں نوازشریف کے جو متوالے گریبان چاک کئے سڑکوں پر نکل آئے‘ ان میں مشاہد اللہ خان کے ساتھ نہال ہاشمی بھی تھا۔ اپنی پارٹی سے لازوال وفاداری اور اس میں کسی بھی ابتلاء و آزمائش کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنے کا صلہ اسے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی رکنیت کی صورت میں ملا‘ اس کے علاوہ وہ مسلم لیگ نون سندھ کا جنرل سیکرٹری بھی تھا۔ کراچی میں ہاشمی سے ملاقاتوں میں ہم نے اسے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی پرجوش اور جذباتی پایا۔ اس پر ایک دانشور دوست کا تبصرہ دلچسپ تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں‘ جو مشرقی پاکستان (مرحوم) میں شیخ مجیب الرحمن کی تقریریں سن کر جواں ہوئے۔ مجیب کے سیاسی افکار و نظریات سے نہ انہیں اختلاف تھا لیکن یہ اس کے سٹائل سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ نہال ہاشمی ان بہاریوں میں تھا جو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جان بچا کر ''مغربی پاکستان‘‘ چلے آئے‘ کہ اب یہی ''پاکستان‘‘ تھا۔ اُدھر بنگلہ دیش میں لاکھوں بہاری‘ پاکستان سے وفاداری کے ''جرم‘‘ میں آج بھی کیمپوں میں حیوانوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
نہال ہاشمی اُس روز اسلام آباد ہی میں تھا۔ اسے پرائم منسٹر ہائوس طلب کیا گیا۔ وزیراعظم کے پاس اس سے ملاقات کا وقت نہ تھا۔ آصف کرمانی نے اسے وزیراعظم کے حکم سے آگاہ کیا۔ سندھ مسلم لیگ کی جنرل سیکرٹری شپ اور سینٹ کی رکنیت کے علاوہ اسے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے بھی فارغ کر دیا گیا تھا (ابتلاو آزمائش سے بھرپور طویل سیاسی جدوجہد کے ذریعے اس نے جو سیاسی اثاثہ بنایا تھا‘ اس کی پھوٹی کوڑی بھی اب اس کے پاس نہ تھی) شام پانچ بجے اس کا استعفا سینٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا گیا۔
سیاسی قیادت‘ نہال ہاشمی کے جرم پر اس سے زیادہ کیا کر سکتی تھی۔ (اگرچہ ہم اپنے اس ''موقف‘‘ کا ایک بار پھر اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ اس میں انصاف کے معروف اصول کا پاس نہیں کیا گیا۔ لیکن شاید Damage اتنا سنگین تھا کہ اس کے کنٹرول کے لیے فوری کارروائی ضروری تھی) پارٹی لیڈر شپ کی طرف سے تادیبی کارروائی مکمل ہو چکی تھی۔
جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی ازخود نوٹس کے تحت نہال ہاشمی کو اگلے روز طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں اور اس کے بعد عدالت کے روبرو بھی کلمہ پڑھتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ اس کا نشانہ کوئی اور نہ تھا۔ وہ عدلیہ کا احترام کرتا ہے‘ اس نے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ اس نے حلفاً یہ بات بھی کہی کہ اسے کسی نے یہ تقریر کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ اس نے جو کچھ کہا خود کہا...
عدالت نہال ہاشمی کے اس مئوقف سے مطمئن نہیں تھی تو یہ اس کا حق تھا۔ انصاف کے لیے حقائق تک پہنچنا ویسے بھی عدالت کا فرض ہے۔
ضروری تفتیش و تحقیق کے بغیر یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ یہ نہال ہاشمی کی اپنی تقریر نہیں تھی‘ اس کی آواز میں کوئی اور بول رہا تھا...اور اس سے بھی کہیں سخت تو یہ ''الزام‘‘ کہ حکومت نے ''سسلین مافیا‘‘ (دنیا کی بدترین مافیا) کو جوائن کر لیا ہے۔
خدا شاہد ہے میرے یہ جذبات وزیراعظم کی ذات کی محبت میں نہیں۔ لیکن میں ان کا ووٹر بھی تو ہوں۔ میری طرح تقریباً ڈیڑھ کروڑ پاکستانی ہیں‘ جنہوں نے 2013ء کے الیکشن میں ان کی جماعت کو منتخب کیا۔ پانامہ ہنگامے کے بعد بھی تازہ ترین سروے رپورٹوں کے مطابق اپنی مقبولیت میں صرف دو فیصد کمی کے ساتھ‘ وہ اب بھی ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ اگلے سال ایک بار پھر مجھے پانچ سال کے لیے قومی قیادت کا انتخاب کرنا ہے۔ میں کسی ''مافیا‘‘ کو منتخب کرنے کی غلطی کا اعادہ کیوں کروں؟ کسی ثبوت‘ کسی دلیل‘ کسی تفتیش‘ کسی تحقیق کے بغیر‘ میں کیسے کسی کو ''مافیا‘‘ تسلیم کر لوں۔ اور کیا آپ نے بھی ضروری تفتیش و تحقیق کے بغیر‘ مافیا اور وہ بھی دنیا کی بدترین ''سسلین مافیا‘‘ قرار دے کر قدرے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا؟ 
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی تو ہے۔ اپنی باقی ماندہ مدت کے لیے اسی حکومت کو‘ اسی وزیراعظم کو‘ دنیا میں ریاست پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے۔ ''سسلین مافیا‘‘ کے ''اعزاز‘‘ کی حامل حکومت اور بیس بائیس کروڑ پاکستانیوں کی نمائندگی؟
حکومت پاکستان کے ترجمان نے اس حوالے سے جو تبصرہ کیا‘ یہ اس کا معاملہ تھا‘ لیکن سر! میرا دکھ اپنے حوالے سے ہے...اور اس حوالے سے اور بھی زیادہ کہ اپنے ملک کی عدلیہ اور اس کا وقار میرے لیے اپنے جان و دل سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ جے آئی ٹی کے دو ارکان کے حوالے سے پیدا ہونے والی Controvercy ہی کیا کم تشویشناک تھی کہ نہال ہاشمی کیس میں یہ ریمارکس؟...می لارڈ! عالی مرتبت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرٹیکل 62-63 کے حوالے سے اپنے یہ ریمارکس اگلے ہی روز واپس لے لئے تھے کہ ان پر عملدرآمد کی صورت میں سراج الحق صاحب کے سوا کوئی نہیں بچے گا۔ آپ نے گزشتہ دنوں ایک لیڈر کو سختی سے تنبیہ کی کہ وہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے آپ سے غلط بات منسوب نہ کرے۔ آپ نے وضاحت کی کہ آپ نے وزیراعظم کو جھوٹا نہیں کہا تھا۔ پاک فوج ملک کا ایک اور حساس ادارہ ہے۔ اس نے 29 اپریل کی ٹویٹ واپس لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی تھی۔ اس سے اس کی عزت اور وقار میں اضافہ ہی ہوا۔ آرمی چیف جناب باجوہ کے بقول‘ خودان کے صاحبزادے نے بھی اسے درست فیصلہ قرار دیا تھا۔
می لارڈ! سوموار 5 جون کو عدالت کھلے گی تو اپنی عدلیہ کے عزت و وقار کے لیے انتہائی حساس ایک پاکستانی شہری کے طور پر میں یہ توقع رکھوں کہ آپ اپنے ریمارکس کی کوئی وضاحت فرما دیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved