گزشتہ ہفتے ڈونلڈٹرمپ نے اپنے پہلے بیرونی ممالک کے دورے کاآغازسعودی عرب سے کیا جس کے دوران انہوں نے یروشلم اورویٹی کن سمیت تینوں توحیدی مذاہب کے مقدس مقامات پرحاضری دی۔ یہ سب کچھ مذہبی ہم آہنگی اورامن کے نام پر ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پرمذہب کوسیاست میں داخل کیا گیا جو درحقیقت ان مذہبی جذبات اورشناخت کوابھارتی ہے جو دہائیوں سے سماجوں کی معاشرتی اورثقافتی اقدارمیں موجودہی نہیں تھیں۔یہ بھی تاریخی ستم ظریفی ہے کہ 1916ء میں محمدعلی جناح نے بمبئی میں کانگریس کی ایک میٹنگ میں گاندھی کو خبردارکیاتھاکہ مختلف عقائدسے تعلق رکھنے والے لوگوں کومتحد کرنے کی جعل سازی کے نام پرسیاست میں مذہب کوداخل کرنے کے تباہ کن نتائج نکلیں گے جس سے صرف تعصبات میں ہی اضافہ ہوگا۔
نہر سویز کی 1956ء کی جنگ میں جب انقلابی تحریکیں عرب ممالک سے شروع ہوکرپوری دنیا میں پھیل رہی تھیں توسامراجیوں نے مذہبی جذبات کواستعمال کرتے ہوئے جدیداسلامی بنیادپرستی کی بنیادڈالی۔ اس وقت سے ہرامریکی انتظامیہ نے اسی پالیسی کوجاری رکھاہواہے۔نام نہادسردجنگ کے خاتمے کے بعدسی آئی اے کے آزمودہ نظریہ ساز'سیموئل ہنٹنگٹن ‘نے اسے اپنے بدنام زمانہ نظریے ''تہذیبوں کے تصادم‘‘کے ذریعے نئی شکل دی۔ماضی میں سامراجیوں نے اسلامی شدت پسندوں اورجہادیوں کوبائیں بازوکی حکومتوں اورتحریکوں کے خلاف استعمال کیا،اب ہنٹنگٹن کے اس نظریے کی بنیادپرمذہبی سیاست کے ذریعے محنت کش طبقے کے اتحادکوپارہ پارہ کرنے اوران کی تحریکوں میں مذہب کی بنیاد پردراڑیں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اپنی تمام تربڑھک بازی کے باوجودٹرمپ کے پاس کوئی نئی خارجہ یاداخلہ پالیسی نہیں۔آج کے عہد کے سامراجی آقا قدیم روم کے بادشاہوں کے قدیم نسخے ''تقسیم کرواورحکمرانی کرو‘‘کواستعمال کررہے ہیں۔ اس بار وہ مذہبی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پریہ تقسیم کررہے ہیں۔
ریاض میں ٹرمپ کے اعزازمیں عرب مسلمان سربراہ کانفرنس‘ جس میں پچپن مسلم ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی‘محض نمائشی ڈرامہ تھا۔حتیٰ کہ گلی کوچے کاعام آدمی بھی اس پرتعیش اورجعلی اجلاس کے ڈھونگ کوسمجھ رہاتھا۔لیکن اسلامی اتحاد کی بجائے اس نے مختلف فرقوں کے درمیان نفرتوں اورتقسیم کومزیدبڑھادیاہے۔ٹرمپ کی ایران،بشارالاسد،حزب اللہ اوردوسرے گروہوں پرتنقید ان خطوں میں مزیدبربادی لائے گی۔اجلاس میں شریک زیادہ ترسربراہان مملکت بحران کی زدمیں ہیں اوراپنی حکمرانی اورمعیشت کوبچانے کے لیے امریکہ سے مددکے طلب گارہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس سامراج سے وہ مددکی درخواست کررہے ہیں وہ خودمعاشی اورتاریخی زوال کی زدمیں ہے۔خطے کی دوسب سے طاقتورریاستوں ، ایران اور سعودی عرب نے ‘جن کی بنیاداپنے اپنے مسلکی عقیدوں پرہے، اس جنگ کوایک دوسرے کے ملکوں میں لے جانے کی دھمکی دی ہے۔سعودیوں نے ٹرمپ کے دورے کوخوب اچھالاتاکہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔جن عرب حکمرانوں کو اجلاس سے خطاب کرنے کا موقع ملا انہوں نے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کے سب سے بڑے منبع اسرائیل کاذکرہی نہیں کیا‘کجاکہ اس پرتنقیدکرتے۔پچھلی دہائیوں میں اسرائیلی صہیونی ریاست اورخطے کے رجعتی حکمرانوں کے درمیان درپردہ بے تحاشا انٹیلی جنس شیئرنگ اورعسکری تعاون ہوتے رہے ہیں۔
ٹرمپ جتنا بھی بے لگام اورخودرو کیوں نہ ہوںوہ اپنے زیادہ ترانتخابی وعدوں سے پھرچکے ہیں اورایسالگتاہے کہ واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ نے اسے آخر کارنکیل ڈال ہی دی‘ جسے اس نے اکھاڑپھینکنے کاوعدہ کیاتھا۔امریکی بورژوا ریاست غالب آچکی ہے اورکارپوریٹ سرمائے نے ٹرمپ کوقابو کرلیاہے۔بہرحال وہ انہی کے صفوں سے تعلق رکھتے ہیں۔واشنگٹن کی سامراجی بالادستی کوقائم رکھنے کے لیے انہوں نے سعودیوں اوردوسری خلیجی ریاستوں سے موٹی رقم نکلوا لی،یروشلم میں پہنچ کراسرائیلیوںکو دل کھول کرامداد دی اوربرسلز میں پہنچ کرنیٹو کی جنگوں میں امریکی اخراجات میں کٹوتیاں کیں۔
مشترکہ ''اسٹریٹجک وژن‘‘، پرجس میں 110اَرب ڈالر کے امریکی اسلحے کی فروخت بھی شامل ہے،دستخط کرنے کے بعدٹرمپ نے کہا،''آج ایک زبردست دن تھا،امریکہ میں شاندار سرمایہ کاری ہوئی ... اب روزگار،روزگاراورروزگارہی ہے۔‘‘تمام سعودی معاہدوں بشمول سائبر ڈیفنس اوردوسری سرمایہ کاریوں کی مالیت تقریباً 350اَرب ڈالرسے زیادہ ہے۔ٹرمپ نے ایران پرتنقیدکرکے سعودیوں سے اتنی رقم نکلوائی کہ آج تک ایک دورے میں کوئی امریکی صدرنہیںنکلواسکا۔لیکن اس سے زمینی حقائق اورخطے میں طاقتوں کے توازن پرکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔سعودی حکمران امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے بے دریغ پیسے اڑا رہے ہیںاوروہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ان کی تیل کی آمدنی گررہی ہے اورانہیں مجبوراً سماجی اخراجات میں کٹوتیاں کرنی پڑرہی ہیں جس سے سماجی خلفشاربڑھے گاجو بادشاہت کے وجودکوخطرے میں ڈالے گا۔فنانشل ٹائمز نے لکھا، ''سعودیوں اوران کے خلیجی اتحادیوں کوایران کامقابلہ کرنے کے لیے،امریکہ سے نئے اسلحے خریدنے کے باوجود، سخت مشکلات کاسامناکرناپڑے گا۔اس بات کے امکانات نہیںہیں کہ ٹرمپ ایران کے خلاف اپنی نعرے بازی کوایک باقاعدہ ایران مخالف پالیسی کی شکل دے کیونکہ اس کے مضمرات کااسے اندازہ ہے۔‘‘
یروشلم میں ائیر پورٹ پراسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے اسرائیل کی تعریف کی اورکہاکہ انہوں نے ''ایک عظیم تہذیب تعمیر کی ہے۔ایک طاقتور اور پختہ قوم جو اس عہدپرکھڑی ہے ‘ وہ پچھلی صدی کی بربادیوں اورقتل عام کودہرانے نہیں دے گی۔‘‘ جہاں ٹرمپ انتظامیہ نے آنے والے بجٹ میں بیرونی امدادمیں کٹوتی کااعلان کیاہے وہیں اس نے اسرائیل کی امداد3.1اَرب ڈالرسے بڑھاکر سالانہ 3.8اَرب ڈالر کرنے کاوعدہ کیا ہے جو 2018سے شروع ہو کر 2028ء تک چلے گی۔ واشنگٹن اور یروشلم کے درمیان دستخط ہونے والی یہ یادداشت ‘امریکہ کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک کودیا جانے والا سب سے بڑادفاعی امدادی پیکج ہے۔ یہ فنڈنگ متعدد اسرائیلی دفاعی پروگراموں ،آئرن ڈوم میزائل انٹرسیپشن سسٹم، ایرو 3 لانگ رینج انٹرسیپٹر پروگرام اور ڈیویڈ سلنگ مڈ رینج راکٹ انٹرسیپٹر کے لیے ہے۔ جبکہ دوسری طرف سامراجی آقائوں نے مصر اور اردن جیسے ملکوں کے حکمرانوں کو پرے پھینک دیاہے اوران کی امریکی عسکری اور معاشی امداد میں 28فیصد اور اس سے بھی زیادہ کی کٹوتیاں کی گئی ہیں۔
تاہم نیٹو کے اخراجات میں کٹوتیوں سے امریکہ کے یورپی اتحادی ناراض ہوں گے لیکن ریکارڈ توڑ خساروں کی وجہ سے امریکی سامراج مجبور ہے کہ اپنے وسیع اخراجات کے تمام شعبوں بالخصوص فوجی اور جنگی اخراجات کے شعبوں میں کٹوتیاں کرے۔ لیکن اس سے ان کی سامراجی تھانیداری کو نقصان پہنچے گا۔ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ شام اور افغانستان سمیت بیرونی مداخلتوں کو بند کردے گا۔ لیکن اب وہ مجبور ہے کہ بحیرہ روم میں واقع امریکی جنگی جہازوں سے کروز میزائل داغے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھائے۔ ٹرمپ کو اب امریکی سامراجی بالادستی اور کمزور ہوتی معاشی طاقت کے درمیان تضاد کا سامنا ہے۔
یہ تنازعات اور تضادات حل نہیں ہو رہے ہیں، اس کی بجائے بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ جاپان سے لے کر کوریا اور جرمنی سے لے کر لاطینی امریکہ تک پوری دنیا میں امریکی فوجی اڈے پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اب انہیں مزید نہیں چلا سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی 'واحد سپر پاور‘ کے سامراجی مقام کا زوال ہو رہا ہے اور ٹرمپ کا دور بے نظیر تنازعات اور خلفشار کا دور ہوگا۔ پورے سیارے میں یہ عدم استحکام ایک بحران زدہ اور ناکارہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہے جو محنت کشوں کو برباد کر رہاہے۔ جب 2011ء میں عرب انقلاب پورے خطے میں پھیل گیا تھا تو بہت کم لوگوں نے اس تحریک کے پسپا ہونے کے مضمرات کے بارے میں سوچا تھا۔ اب پورے خطے میں سامراجی جارحیت اور بنیادپرستی کی وحشت اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن یہ کیفیت بھی تبدیل ہوگی۔ آنے والے دور میں محنت کشوں کی نئی بغاوتیں ناگزیر ہیں۔ اس طرح کی تحریکیں فرقہ وارانہ، مذہبی اور تنگ نظر قوم پرستی کے تعصبات کو چیر دیں گی۔ اس کی فتح ہی اس بربادی، خونریزی، محرومی اور بدحالی سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ اس طرح کی فتح صرف ایک انقلابی پارٹی اور قیادت کے ذریعے ہی ممکن ہوگی۔