تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-06-2017

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں مگر عشروں سے قوم میں وہ شعور دکھائی نہیں دیا ہے جس کی بے انتہا ضرورت ہے۔ دنیا بھر کی فضول باتیں ہم میں پائی جاتی ہیں اور اگر نہیں پائی جاتی تو بس کام کی دو چار باتیں ہی نہیں پائی جاتیں۔ لوگ گھنٹوں گفتگو کرتے ہیں مگر اُس میں کہیں کوئی ایسا نکتہ دکھائی نہیں دیتا جس کی مدد سے کسی سُود مند نتیجے تک پہنچنا ممکن ہو۔ جو کچھ سوچنا اور بولنا چاہیے بس وہی ہماری گفتگو کا حصہ نہیں، باقی تو سارا مرچ مسالا بخوبی پایا جاتا ہے۔ ؎ 
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں 
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں 
سخت جان قسم کے اندھیرے میں اُمید کی ایک کرن پُھوٹی تو ہے، حبس کا زور توڑنے کے لیے پُروائی کا ایک جھونکا چلا تو ہے۔ ع 
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے 
کے مصداق سوشل میڈیا نے ایک کام ڈھنگ کا کیا اور قوم کو بلا امتیازِ صوبہ و لسان ایک پیج پر پہنچا دیا۔ پھلوں کا تین روزہ بائیکاٹ توقعات کے مطابق رنگ لے آیا ہے۔ ایک زمانے سے صرف رونا پیٹنا چلا آرہا ہے۔ لوگ کسی بھی چیز کے مہنگا ہوتے جانے کا رونا روتے ہیں اور پھر اُسی چیز کو خریدتے بھی جاتے ہیں۔ یہ عجیب بے ڈھنگی کیفیت ہے۔ 
جو لوگ بچت بازاروں سے باقاعدہ خریداری کرتے ہیں اُنہیں کچھ کچھ اندازہ ہوگا کہ لوگ اُسی چیز کی طرف لپکتے ہیں جو کم کم دکھائی دے رہی ہو۔ دکاندار، ٹھیلے اور پتھاریدار اجتماعی نفسیات کے ہر پہلو کو نظر میں رکھ کر چلتے ہیں۔ یہ اپنی حیثیت میں ماہرِ نفسیات سے کم نہیں ہوتے۔ اِنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عوام کی دکھتی رگیں کون کون سی ہیں اور اُن پر کس طرح ہاتھ رکھنا ہے۔ 
اگر آپ بچت بازار جانے کے عادی ہیں تو کبھی غور کیجیے گا کہ جس چیز کا موسم چل رہا ہو، وافر مقدار میں موجود ہو اور قیمت بھی گِری ہوئی ہوتی ہو اُس میں لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ مثلاً بھنڈی، لوکی یا اروی موسم اور فصل کے مطابق خوب دستیاب ہو تو لوگ اُن کی طرف دیکھنے کے بجائے اُن سبزیوں کا پوچھتے ہیں جو ٹھیلے یا پتھارے پر دکھائی نہ دے رہی ہوں۔ لوگ بیس تیس روپے فی کلو کے نرخ پر دستیاب لوکی کو چھوڑ کر کڑوے کریلے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے ہیں، خواہ اُس کا نرخ 80 روپے فی کلو ہو!
جون ایلیا نے خوب کہا ہے ؎ 
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا 
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے! 
کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت اس وقت پاکستانی قوم کی نفسیات کی بھی ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہو اُس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی اور جو نظروں سے اوجھل ہو اُس کے لیے بے تاب ہوئی جاتی ہے۔ 
ہر سال ماہِ صیام کی آمد پر شیاطین مقید کردیئے جاتے ہیں اور پاکستان میں منافع خوری کا جن بوتل سے باہر آ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی ایک مہم نے منافع خوری کے جن کو بوتل میں دوبارہ بند کرنے کی طرف کامیاب قدم اٹھایا ہے۔ پھلوں کے تین روزہ بائیکاٹ کی مہم توقع سے کہیں زیادہ کامیاب رہی ہے۔ پھلوں کی منڈی سے آپ کے گھر تک پھل پہنچانے والے یعنی ''بچولیے‘‘ کیا گل کھلاتے ہیں یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سبزی منڈی اور پھل منڈی کے آڑھتی بھی صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہیں مگر اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ اصل مزا تو ''مڈل مین‘‘ لوٹتے ہیں۔ کراچی سمیت ملک بھر میں لوگوں نے پھلوں کا بائیکاٹ کیا ہے تو منافع خوری کے نشے میں بدمست رہنے والوں کو بھی اندازہ ہوا ہے کہ معاملات اب ویسے نہیں رہیں گے جیسے رہتے آئے ہیں۔ ایک ہی دن میں مختلف پھلوں کے نرخوں میں 20 تا 30 روپے فی کلو کمی واقع ہوگئی! 
سوشل میڈیا پر پھلوں کے تین روزہ بائیکاٹ کی کال دی گئی۔ عوام اور حکام سبھی نے بھرپور ساتھ دیا۔ کراچی کے کمشنر اعجاز احمد خان نے کھل کر اس مہم کا ساتھ دیا تو ملک بھر میں اعلٰی حکام بھی کمر کس کر میدان میں آگئے۔ اور یوں ایک ماحول بن گیا۔ جمعہ کو پھلوں کے بائیکاٹ کا پہلا دن تھا۔ ٹھیلوں پر پھل بیچنے والے پہلے ہی جھٹکے میں نرخ 30 تا 40 فیصد کم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یکم رمضان کو معاملہ یہ تھا کہ لوگ پھل خریدنے نکلے تو ٹھیلوں پر درجہ اول کا کیلا 140 روپے فی درجن تک دکھائی دیا اور بالکل سُوکھے ہوئے، بے جان سے کیلے 80 روپے فی درجن سے کم نرخ پر دستیاب نہ تھے۔ 
بے حِسی کی انتہا یہ ہے کہ بہت سے دکاندار اور ٹھیلے والے رحمت، برکت اور مغفرت والے ماہِ مبارک کو ''مال بنانے کا مہینہ‘‘ قرار دینے سے ذرا نہیں ہچکچاتے! یہ ذہنیت صرف اِس لیے پروان چڑھی ہے کہ لوگ اپنے کسی بھی کام کو پورا وقت نہیں دینا چاہتے۔ اُن کی خواہش ہے کہ گھر سے نکلیں اور ضرورت کے مطابق سب کچھ کماکر فوراً واپس آجائیں۔ اگر کوئی سبزی والا یا پھل والا ٹھیلا سجاکر نکلتا ہے تو ڈیڑھ دو گھنٹے میں سارا مال بیچنے کے فراق میں رہتا ہے۔ اِس معاملے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ گاہک کے کپڑوں اور گفتگو کی بنیاد پر اُس کی حیثیت کے مطابق نرخ بتائے جاتے ہیں یعنی ہر مُرغے کے لیے الگ چُھری رکھی جاتی ہے۔ جو جیسے کٹ جائے، کاٹ ڈالو۔ پھلوں کے بائیکاٹ سے شروع ہونے والی مہم کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ یہی معاملہ تھوڑا پنپ کر ہم میں سیاسی شعور بھی پیدا کرسکتا ہے۔ جس طرح کا اندھیرا یہاں پایا جاتا ہے اُسے دور کرنے کے لیے ایسے ہی چراغ جلانے کی ضرورت ہے۔ انتخابات کا موسم بھی آیا ہی چاہتا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ووٹرز کی رہنمائی کی جائے، اُنہیں ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔ 
جو کام ہم نے پھلوں کے نرخ نیچے لانے کے لیے کیا ہے وہی کام سیاست دانوں کو بھی درست کرنے کے حوالے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ بیلٹ باکس کا بائیکاٹ تو درست نہ ہوگا مگر ہاں، بیلٹ کا درست استعمال ضرور ہماری مشکلات آسان کرے گا۔ جن کا کوئی کردار ہو نہ کارکردگی اُنہیں نوازنے کے بجائے ہمارا ووٹ اُن کے لیے ہونا چاہیے جن کا کردار بے داغ ہو اور نیت پر بھروسہ ہو۔ ع 
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved