تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     06-06-2017

اسلامی تحریکوں کی پُرامن جدوجہد…(5)

مقبوضہ کشمیر میں بھی جماعت اسلامی مسلح جدوجہد کے بجائے دعوت و تبلیغ کا کام کرتی ہے البتہ مقامی کشمیری آبادی مختلف حریت پسند تحریکوں کی صورت میں بھارتی مظالم اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا کہ وہ اپنی عزت و آبرو، گھر اور دکان، کھیت اور کھلیان بچا سکیں۔ یوں دیکھا جائے تو اسلامی تحریکیں پوری دنیا میں جمہوری و آئینی طریقوں سے اپنے معاشروں کو بدلنے اور اصلاح کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر علاقوں میں کوئی بھی اسلامی تحریک سیاسی و جمہوری راستے سے ہٹ کر پالیسی نہیں بناتی۔ ان تحریکوں پر تشدد کا الزام لگانا بدنیتی کے سوا کچھ نہیں۔ 
سید مودودیؒ نے فرمایا:''اس معاملے میں صحیح رائے قائم کرنے کے لیے تین حقیقتیں واضح طور پر آپ کی نگاہ میں رہنی چاہئیں:پہلی یہ کہ آپ اس ملک میں اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔دوسری یہ کہ آپ جس ملک میں کام کر رہے ہیں وہاں ایک آئینی و جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے۔ انتخابات!تیسری یہ کہ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیٔ قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بنا پر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیشِ نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئینی و جمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔ان تین حقیقتوں کو ملاکر جب آپ غور کریں گے تو بالکل منطقی طور پر ان سے وہی نتیجہ نکلے گا جو قراردادمیں بیان کیا گیا ہے۔ آپ انتخابات میں آج حصہ لیں یا دس، بیس، پچاس برس بعد، بہرحال، اگر آپ کو یہاں کبھی اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنا ہے تو راستہ آپ کو انتخابات ہی کا اختیار کرنا پڑے گا۔(تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل، ص: 139۔138)
1963ء میں جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع پر حکومتی غنڈوں نے مسلح حملہ کیا اور ایک کارکن اللہ بخش شہید ہو گئے۔ اس موقع پر صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے جماعتی کارکنان (جن کے پاس لائسنس یافتہ اسلحہ تھا) نے مولانا سے اپنے دفاع میں ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت مانگی۔ مولانا نے سختی سے منع کیا اور فرمایا حکمرانوں کی تو سازش ہی یہ ہے کہ تم اسلحہ استعمال کرو اور وہ پوری دنیا میں پروپیگنڈا کریں کہ یہ لوگ اجتماع کے لیے نہیں بلکہ خونریزی کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ اسلامی تحریکوں کی قیادت نے کیا لائحہ عمل اپنے کارکنان کو دیا ہے، پُرتشدد یا پُرامن؟
اخوان المسلمون کے چوتھے مرشدِ عام جناب محمد حامد ابوالنصر نے بھی اپنی یادداشتیں لکھی ہیں۔ یہ کتاب اردو میں وادی نیل کا قافلہ سخت جان کے نام سے پہلی بار جنوری 1990ء میں حرا پبلی کیشنز نے چھاپی۔ 254صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مرشدِ عام نے اخوان کی پوری تاریخ مکمل جزرسی اور تفصیلات کے ساتھ سینۂ قرطاس پر منتقل کر دی ہے۔اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سختیوں اور تشدد کو جھیلتے ہوئے اخوان نے کس قدر تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ 
محمد حامد ابوالنصر لکھتے ہیں : ''وفد‘‘ اور ''اخوان‘‘ کے درمیان کشمکش کی وجہ وفد کی تنگ نظری تھی۔ باہمی جنگ و جدال کی وجہ سے سبھی سیاسی پارٹیوں کی ہوا اکھڑ چکی تھی۔ وفد کے بہت سے ارکان خصوصاً نوجوان اور اس سے وابستہ مزدور تنظیموں کے لوگ دھڑا دھڑ اخوان میں شامل ہو رہے تھے۔ وفد پارٹی کے لیے یہ صورتِ حال بہت تکلیف دہ تھی۔ انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ سیاسی میدان میں دیگر پارٹیوں کے بے اثر ہوجانے کے بعد اخوان ان کے مضبوط حریف کے طور پر ابھر رہے تھے۔ سیاست پر اپنی اجارہ داری کو خطرے میں پا کر وفد کے یوتھ ونگ نے اخوان کے نوجوانوں پر حملے شروع کر دیے۔ بہت سے شہروں میں شدید لڑائیاں ہوئیں۔ خاص طور پر پورٹ سعید، دمن ہور اور منصورہ کے تصادم بہت خون ریز تھے۔ ایک جانب اخوان کے جوانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور دوسری جانب انھی پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جارہے تھے۔ اخوان نے ہمیشہ قانون کی پابندی کی ہے۔ اس موقع پر بھی اسیرانِ اخوان کا قانونی دفاع کرنے کے لیے ملک کے مایہ ناز وکیل اور مجاہدِ کبیر جناب عمر تلمسانی سرگرم عمل تھے۔ انھوں نے ملک کے طول و عرض میں جا کر اخوان کے مقدموں کی پیروی کی اور اپنی قانونی مہارت کا لوہا منوایا۔ ‘‘(جمال عبدالناصر واخوان المسلمون، محمد حامد ابوالنصر ،اردو ترجمہ۔ وادیٔ نیل کا قافلہ سخت جاں، صفحہ 64-65)
جنابِ محمد حامد ابوالنصر نے طویل اسیری کے ماہ و سال کا تذکرہ کرتے ہوئے اخوان کے صبر و عزیمت کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ کوئی دہشت گرد اس طرح کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ الواحات کے قید خانے کی روداد میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ''جیل کے پُرآشوب دور میں برادر محترم جناب عمر تلمسانی کی مضبوط شخصیت اخوان کے لیے بڑا سہارا تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی پُرتاثیر زبان عطا فرمائی تھی کہ آپ کے درس قرآن اور لیکچر ہمیشہ ہمارے سامنے امید کی شمع روشن رکھتے اور ہمیں ثابت قدمی کی قوت فراہم کرتے تھے۔ آپ نے اخوان کے دلوںمیں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ ظلم کی تائید کسی صورت بھی نہیں کی جا سکتی۔ ناصر کو جناب تلمسانی سے خاص طور پر چڑ تھی، چنانچہ آپ کی پندرہ سالہ مدت قید پوری ہو گئی تو بھی آپ کو رہائی نہ ملی۔ آپ کی فائل پر ناصر نے سرخ قلم سے لکھ رکھا تھا کہ اسے ہرگز رہا نہ کیا جائے۔ آپ پوری سزا بھگتنے کے بعد بھی کئی سالوں تک جیل میں رہے۔ ناصر کی وفات کے ایک سال بعد دیگر اخوانیوں کے ساتھ آپ کو رہائی ملی۔‘‘ (ایضاً:ص:242)
مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور فکر ہو یا ان کے تیار کردہ افراد، امام حسن البنا کی دعوت و تحریک ہو یا اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والا قافلہ سخت جان، بدیع الزمان سعید نورسی کی سندر سوچ ہو یا ان کے حلقہ عقیدت و ارادت میں شامل بندگانِ حق، ہر ایک کی سوچ اور لائحہ عمل، نصب العین اور منزل بالکل متعین ہے۔ جن معاشروں میں شخصی آزادی حاصل نہیں ہوتی ان کے اندر بھی حالات کے مطابق حکمت کے ساتھ اپنا راستہ پُرامن طریقے سے بنانا اسلامی تحریکوں کی سوچی سمجھی رائے اور پالیسی ہے۔ اس کے باوجود جن لوگوں کو جھوٹ کے طومار باندھنے ہیں وہ اپنا کام کرتے رہیں۔ آخر ایک دن ذرے ذرے کا حساب بھی تو ہونا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved