تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     07-06-2017

تاریخی کردار یا دستوری کردار؟

پانچ مئی دو ہزار سات کی شام میں لاہور کی مال روڈ پر کھڑا اس وقت کے معطل چیف جسٹس افتخار چودھری کا انتظار کر رہا تھا، جو اسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہو چکے تھے مگر جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ استقبال کی وجہ سے ان کے قافلے کی رفتار بہت آہستہ تھی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور لوگ چھوٹی بڑی ٹولیوں میں بٹے کہیں فٹ پاتھ پر بیٹھے تھے تو کہیں سڑک پر ہی آلتی پالتی مار کر مجلس آرائی میں مصروف تھے۔ میں اپنے صحافتی فرائض کے سلسلے میں کبھی وکلا سے مل رہا تھا تو کبھی کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں سے سوال جواب کر رہا تھا۔ رات دس بجے کے قریب یہ طے ہو گیا تھا کہ کم ازکم آج کی رات تو چیف جسٹس لاہور نہیں پہنچ پائیں گے مگر لوگ تھے کہ مسلسل اور مع اہل و عیال آرہے تھے۔ لوگوں سے ملتا ملاتا چلتا جا رہا تھا کہ میری نظر پروفیسر ڈاکٹر فیصل باری پر پڑی جو اپنی بیگم مرحومہ عائشہ ہارون (ایک انگریزی روزنامے کی ایڈیٹر) کے ساتھ سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی چھوٹی سی دیوار پر بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں ان کی طرف بڑھا اوران کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ ہم لوگ جہاں بیٹھے تھے اس کے قریب ہی مسلم لیگ ن کے کچھ لوگوں نے اپنا چھوٹا سا استقبالی کیمپ بنا رکھا تھا جس میں چند کارکن خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ فیصل باری مجھے سے مخاطب ہوئے اور اس کیمپ کی طرف اشارہ کرکے بولے، ''اندازہ کرو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے صرف دس سال پہلے اپنی حکومت کا فائدہ اٹھا کر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیا تھا اور آج ایک دوسرے چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک کا حصہ بنے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا، ''ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے کہ اگر کوئی چیف جسٹس دستوری ترمیم کو منسوخ کرنا چاہے جیسا کہ سجاد علی شاہ کر رہے تھے تو اس کے خلاف اپیل سوائے عوام کے اور کون سن سکتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے میری بات پر کچھ چونکے اور کہنے لگے تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو ہوا ٹھیک ہوا تھا؟ میں بحث بڑھانے کے موڈ میں نہیں تھا اس لیے اتنا کہا کہ جناب عالی میں تو سوال کر رہا ہوں آپ کوئی جواب دیجیے۔ ان کے جواب دینے سے پہلے ایک بڑے وکیل صاحب‘ جو بعد میں چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کے کیمپ میں چلے گئے تھے، شاملِ گفتگو ہو گئے۔ میرا سوال ان کے سامنے رکھا گیا تو مجھ سے کہنے لگے، آ پ نے نکتہ تو خوب اٹھایا ہے اب دلیل بھی دیجیے۔ میں نے عرض کیا کہ صحافی کے پاس خبر ہوتی ہے یا سوال، دلائل دینا آپ کا کام ہے البتہ ایک طالب علم کے طور پر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ دستور جمہوری طریقے سے کی گئی ترامیم کے ساتھ درحقیقت معاشرے کی متفق علیہ دستاویز ہوتا ہے، اگر ایک جمہوری دور میں ہی اس متفقہ دستاویز کو توڑ مروڑ کر کوئی بھی اپنی مرضی کے معنی پہنانے کی کوشش کرے گا تو عوام اس کے خلاف فوری طور پر بروئے کار آئیں گے، کبھی عدلیہ کے پیچھے کھڑے ہو کر اور کبھی عدلیہ کے مقابلے میں کھڑے ہو کر۔ ہاں آمریت ہو تو عوامی ردعمل میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے مگر یہ ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے‘‘۔ میری بات سن کر وکیل صاحب نے ایک ہنکارا بھرا اور کہنے لگے، آپ کی بات میں وزن ہے مگر اس کا فیصلہ تاریخ ہی کرے گی کہ کیا ٹھیک تھا اور کیا غلط۔ وکیل صاحب کی بات سے میرے سمیت وہاں موجود سب لوگوں نے اتفاق کیا اور گفتگو کا رخ معطل چیف جسٹس کے فقیدالمثال استقبال کی طرف مڑ گیا۔ 
اس واقعے کے کئی سال بعد بہاولپور بلدیاتی انتخابات کی کوریج کے دوران ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جسے عدالت نے سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کی پاداش میں انتخابات کے لیے نااہلی کی سزا سنائی تھی۔ باتوں باتوں میں اس سے پوچھا کہ کیا اسے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا ہے؟ تو اس کا جواب چونکا دینے والا تھا، کہنے لگا، ''حبیب صاحب! میں ایک جمہوری شخص ہوں اور اپنے بدترین دشمن کے ساتھ بھی قانون کے مطابق سلوک کا خواہاں ہوں، اور میں نے اس وقت جو کچھ بھی کیا وہ قانون اور دستور کی بالادستی کے لیے کیا تھا۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ ایک المیے کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے ایک سیاسی لڑائی کو عدالتی فورم پر لڑنا چاہا اور بری طرح ہار گئے۔ مجھے نااہل قرار دے دیا گیا تو کیا ہوا، ہم آج پھر حکومت میں ہیں اور سجاد علی شاہ نجانے کہاں ہیں‘‘۔ 
چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہماری عدالتی تاریخ کا المیہ اس لیے بن گئے کہ انہیں بھی یہ غلط فہمی ہو گئی تھی قانونی و دستوری معاملات پر ان کا کہا ہوا حرفِ آخر ہے۔ قانون کی بعض کتابوں کے مطابق دستور کی تشریح کا حتمی اختیار اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہی ہے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ یہ اختیار اسی وقت تک مؤثر رہتا ہے جب تک حدود و قیود کا پابند رہے۔ خاص طور پر جن تنازعات میں سیاسی جماعتیں فریق بن جائیں، عدلیہ کو اپنے اختیار کا استعمال بہت ہی سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس صورت میں خود عدلیہ کے متنازعہ ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ سجاد علی شاہ اس نکتے کو فراموش کر گئے تھے اور ان کی طرح سابق چیف جسٹس افتخار چودھری بھی اس نکتے کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اپنے دورِ عدالت میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو اتنا زچ کیا کہ کم از کم ایک بار صدر آصف علی زرداری کے سامنے عدلیہ کے ساتھ ''سیاسی انداز‘‘ میں نمٹنے کی بات بھی کی گئی مگر انہوں نے اپنے لوگوں کو آرام سے بیٹھنے اور برداشت کرنے کا حکم دیا۔ ان کی طرف سے انکار کے بعد ہی پیپلزپارٹی کے کچھ دوستوں نے چیف جسٹس کے بیٹے کی سرگرمیاں لوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کی مگر صدر آصف علی زرداری کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ جسٹس افتخار چودھری سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ نہ سمجھ سکے اور انجام کار جب وہ اپنے وقت پر عدلیہ سے فارغ ہوئے تو ان کے پاس وہ عزت بھی نہیں بچی تھی جو انہیں عدلیہ سے نکالے جانے پر ملی تھی۔ 
جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس افتخار چودھری اب تاریخ ہیں اور یہ تاریخ ہمیں تین سبق سکھاتی ہے۔ پہلا یہ کہ بعض جج صاحبان اپنے فیصلوں کی وجہ سے کم کم اور اپنے رویے کی وجہ سے اکثر تنازعات میں گھر جاتے ہیں۔ دوسرا سبق یہ کہ پاکستان کے عوام اپنے اداروں سے دستور کے دائرے میں رہنے کی توقع کرتے ہیں اور اگر کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرے تو پھر اس کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ تیسرا اور اہم ترین یہ کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والے ہر مقدمہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے سنا جائے، اگر کسی وجہ سے سننا ہی پڑ جائے تو اس میں ریمارکس دینے سے گریز کیا جائے۔ عدالت کے سوال کا جواب دینا ہر پاکستانی پر فرض ہے، مگر عدالت کو بھی خیال ہونا چاہیے کہ اس کے سامنے پیش ہونے والے ہر پاکستانی کو اپنی عزت بھی عزیز ہے۔ عدالت کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اس کا احترام دستور پاکستان کے تحت لازمی ہے مگر ہر عدالت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اس کا احترام دستور کی بنائی ہوئی پکی سڑک پر چلتے رہنے میں ہے، قانونی بحثوں کے نتیجے میں بنائی گئی کچی پکی پگڈنڈیاں اسے کبھی منزل تک نہیں پہنچائیں گی۔ عدلیہ نے تاریخی کردار نہیں دستور ی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اپنے دائرہ کار میں رہیں گے تو تاریخ بھی بن جائے گی، اس سے باہر نکلیں گے تو المیہ بن جائیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved