تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-06-2017

بھینس کا نفسیاتی مسئلہ اوربائیکاٹ کا دور

جس وقت فروٹ بائیکاٹ مہم چلائی جا رہی تھی ، میں اپنی بھینس کے نفسیاتی مسئلے پر غور کر رہا تھا۔ اس نے دودھ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی وے کے قریب چوچہ شیخاں میں ایک فارم میں نے بنا رکھا ہے ۔بیرونِ ملک مقیم اپنے دوست شعیب اختر کے ساتھ مل کر بکروں کا یہ ایک چھوٹا سا فارم ہے ۔ اس سلسلے میں جی ٹی روڈ پر مختلف منڈیوں کا جب دورہ کیا تو یہ معلومات حاصل ہوئیں :قصائیوں کی ایک بڑی تعداد بکروں کی بجائے بوڑھی بکریاں خریدنا پسند کرتی ہے کہ یہ بے حد سستی ہوتی ہیں ۔ اگر دس کلو گوشت کا حامل ایک نوجوان بکرا دس ہزار روپے کا ہے تو اتنے ہی وزن والی بوڑھی بکری صرف چار پانچ ہزار روپے کی ۔یہ کافی سخت ہوتاہے۔ جو گوشت گل نہیں رہا ہوتا، وہ اسی کا ہوتاہے ۔ اس کے بعد پھر بھیڑ کا نمبر آتا ہے ۔بھیڑ لذیذ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اس کی طلب کم ہے ۔ ظہیر الدین بابر نے اپنی خودنوشت میں ایک اونٹ کا ذکر کیا ہے ۔ کہتاہے کہ اس کا گوشت اتنا لذیذ تھا، جیسے اونٹ نہیں دنبے کا ہو ۔بھیڑ کے بعد نوجوان بکری کی قیمت زیادہ ہوتی ہے ،منڈی کی زبان میں اسے پَٹھ کہا جاتاہے ۔ سب سے قیمتی گوشت نوجوان بکرے کا ہوتاہے ۔رہا بوڑھا بکرا تو یوسفی صاحب کے الفاظ میں ، عالمِ اسلام میں کسی بکرے کو اپنی طبعی موت نصیب نہیں ہوتی ۔ 
فارم بنا کر گھر کے لیے ایک بھینس بھی خرید ی گئی ۔ یہ بھینس نہیں بلکہ چوٹی ہے یعنی کم عمر/نوجوان بھینس۔ پہلی بار اس نے ایک کٹی کو جنم دیا ۔ پہلی دفعہ ہی جو بھینس آٹھ کلو دودھ دے، اندازہ یہ ہے کہ تیسرے بچّے کے بعد وہ پندرہ سے بیس کلوتک پہنچ جائے گی ۔ انہی دنوں میری بیٹی مشیئہ بلال پیدا ہوئی ۔ اپنی نورِ نظر کا عقیقہ کرنے کے لیے میں نے ایک بکرا ذبح کیا ۔ میرے دوست اور ملازم شوکت علی نے اس موقع پر یہ کہا کہ بھینس نے یہ خون دیکھ لیا تو وہ گھبرا جائے گی ۔ سب کچھ صاف کر کے بھینس کو پانی پلانے کے لیے صحن میں لایا گیا ۔ ایک دم وہ بھاگ کر واپس اپنے کمرے میں گھس گئی۔ پھر اس نے باہر نکلنے سے انکار کر دیا ؛حتیٰ کہ اسے اندر ہی پانی پلایا جاتا اور اندر ہی نہلا دیا جاتا ۔ شوکت علی کا کہنا تھا کہ خون اس نے سونگھ لیا ہے ۔ میرا خیال تھا کہ کروڑوں برس بھینسیں جنگلات میں رہی ہیں ۔ خون سے انہیں شیراور دوسرے درندے یاد آتے ہوں گے ۔ یہ ان کے جینز میں ہے ۔ 
اس کے ساتھ ہی اب اس نے دودھ دینے سے بھی انکار کر دیا۔ تھنوں میں دودھ نظر آرہا ہوتا لیکن وہ ہمیں تو کیا دیتی، اپنی ٹانگ سے وہ کٹی کو بھی ایک طرف کر دیتی۔شوکت علی بے حد آزردہ تھا۔ دن رات وہ بھینس کی خدمت کرتا ، کٹی کو چومتا رہتا۔ جب اس کا جسم جونکوں سے بھر گیا تھا تو کس قدر وہ پریشان تھا۔ جب دوا داروکے بعد خدا کی حکم سے وہ صحت یاب ہوئی تو کتنا وہ خوش تھا۔ اس نے کہا '' اِس مجی کولوں میڈا دل تڑٹ گیا اے ‘‘ اس نے بتایا کہ کٹی بیچاری اب دودھ کے بغیر زندہ رہنے کی اس قدر عادی ہو گئی ہے کہ اسے کھلا چھوڑا جائے تو بھی بھینس کی طرف نہیں جاتی ۔ اپنے دوست محمد عثمان سے میں نے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ یہ ایک bad habbitہو سکتی ہے ۔ بھینس کو باندھ کر زبردستی دودھ دوہا جائے ۔ 
کل کسی وقت خاموشی سے شوکت علی بھینس کے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ہوش اڑ گئے ۔ اپنی طرف سے بھینس اور کٹی کو کافی فاصلے پر اس نے باندھ رکھا تھالیکن دونوں نے زور لگا کے ، اپنی آخری حد تک آگے جا کر اتنی گنجائش پیدا کر لی تھی کہ چار میں سے ایک تھن کٹی کی دسترس میں تھااور وہ خوب مزے سے دودھ پی رہی تھی ۔ یہ تھا بھینس کا اصل نفسیاتی مسئلہ۔ ہماری غیر موجودگی ہی میں اپنی کٹی کو کسی نہ کسی طرح وہ دودھ پلا دیتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ کٹی کو کھلا چھوڑا جاتا تو بھی وہ اپنی ماں کی طرف نہیں جاتی تھی ۔ خدا وندا! تیرے یہ سادہ دل بندے کہاں جائیں ؟شوکت علی نے کہا: میں بھی کہوں کہ کٹی کو دودھ بھی نہیں مل رہا ۔ پھر بھی اتنی چھلانگیں کیوں مار تی رہتی ہے ۔ 
فروٹ بائیکاٹ مہم اور ایسی ساری مہمات سر آنکھوں پر لیکن جیسا کہ کسی نے پہلے کہا کہ اسے وکلا تحریک جیسی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ جس کے نتیجے میں بدمعاش بن کر ابھرے ۔ سرمائے کا تحفظ یقینی ہونا چاہیے ۔ دنیا میں صرف ایک فیصد لوگ اپنا کاروبار شروع کرنے کی ہمت کرتے ہیں ۔ نقصان سے گزرتے ہیں ، سیکھتے ہیں اور پھر سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو ملازمت دیتے ہیں ۔ موبائل فون کمپنیوں کے بائیکاٹ پر سوال یہ ہے کہ پہلے تو یہ کہا جاتا تھا اور نظر بھی یہی آتاہے کہ پاکستان میں موبائل کمپنیوں کے نرخ دنیا میں کم ترین ہیں ۔ ان پر تو اعتراض ہی یہ تھا کہ اتنے سستے پیکیجز جاری کیے کہ ساری رات اور سارادن نوجوان نسل مصروف رہتی ہے ۔ بعض نے پورے مہینے کا کارڈ جاری کیا ہے۔ پورے ملک میں اپنے دفاتر بنانا،کھمبے گاڑنا، کئی سال تک ہزاروں لوگوں کو جیب سے تنخواہیں ادا کرنا اور اس کے بعد منافع کا مرحلہ آتاہے۔ اس میں بھی سخت مقابلے کا رجحان ہے ۔ کہیں یہ نہ ہو کہ پوری دنیا کو ہم پیغام دیں کہ سرمایہ کاری کرنے والوں کے ساتھ پاکستانی آدم خوروں والا سلوک کرتے ہیں ۔ پہلے ہی کوئی یہاں قدم رکھنے کو تیار نہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی ذاتی زندگی کی ناکامیوں کا بدلہ ہم کامیاب لوگوں سے لینے جا رہے ہیں ؟ 
حکومت ہماری نظر بچا کر سا را دودھ پی آئی اے ، سٹیل مل ،ریلوے اور حکومتی کارپوریشنوں کو پلا دیتی ہے ۔ سالانہ پانچ سے چھ سو ارب روپے ۔ ایف بی آر وہ گوالا ہے ،جو سارا دودھ بھینس کے تھن میں ہی چھوڑ دیتاہے ۔ صرف اور صرف ٹیکس جمع کرنے کا نظام بہتر ہو جائے تو ہمارے سارے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ ملک میں سالانہ دو ہزار ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے ۔ جتنی بھی مہمات چلا لی جائیں ، جب تک انا ہزارے کی طرح انسدادِ کرپشن کی مہم نہیں چلا ئی جائے گی ، جب تک حکومت کو ٹھیک کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا ، ہمارے معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے اورنہ ملازمتیں پیدا ہوں گی ۔اسد عمر کے الفاظ میں تین نسلوں سے شریف خاندان سٹیل کا کاروبار کر رہا ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ سٹیل ہی سے اس نے اربوں روپوں کی جائدیادیں بنائیں لیکن پاکستان سٹیل مل بند پڑی ہے ۔حکومت پر دبائو بڑھے گا تو احتساب ہوگا ، حکومتی کارپوریشنیں ٹھیک ہوں گی ، ٹیکس جمع ہوگا ؛حتیٰ کہ فوڈ کنٹرول اتھارٹیز کام کریں گی ۔ ٹیکس جمع ہوگا تو نوکریاں پیدا ہوں گی ، قرض بھی لینا نہیں پڑے گا اور خارجہ پالیسی آزاد ہوجائے گی ۔ ووٹ دینا جمہوریت کا نصف ہے اور باقی نصف دبائو برقرار رکھتے ہوئے اس کی سمت کو درست رکھنا ہے ۔ اس پر بھی ذرا غور فرمائیے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved