تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-06-2017

معجزہ

سیاستدانوں کے نہیں ، ایسے ہی لوگوں کے بل پر قومیں زندہ ہوتی اور نشوونما پاتی ہیں۔ 
شب تکان نے آ لیا تو ڈاکٹر امجد ثاقب سے عرض کیا کہ کیا نمازِ فجر کے بعد وہ مزید کچھ وقت عنایت کر سکتے ہیں۔ اخوت کے احوال پر ان سے گفتگو کرنا ہے ۔ صبح چار بجے میں نے انہیں دروازے پر منتظر پایا۔ چھوٹی چھوٹی جزئیات کا خیال رکھنے والے ، وہ ایک بلند اخلاق آدمی ہیں۔ بظاہر ایک عامی مگر ایک غیر معمولی منتظم اور مستقل مزاج آدمی۔ متوکل ، مرتّب اور دیدہ ور۔ 
''اخوت‘‘ ایک خیرہ کن معجزہ ہے ۔ ایک امّتی کے اندازِ فکر پہ استوار۔ اب اکثر لوگ جانتے ہیں کہ مواخاتِ مدینہ سے یہ خیال اخذ کیا گیا اور رسولِ اکرمؐ کے ایک قولِ مبارک سے: خیرات کی دس نیکیاں ہیں اور قرضِ حسنہ کی اٹھارہ۔ اقبالؔ کا وہی جملہ : جہاں کہیں دنیا میں روشنی ہے ، مصطفیؐ کے طفیل ہے یا مصطفیؐ کی تلاش میں ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو اگر کبھی نوبل پرائز ملا تو کسی کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے؛ اگرچہ ڈاکٹر صاحب شاید اسے کچھ زیادہ اہمیت نہ دیں ۔ اپنی خدمت پر وہ شاد اور سرمست ہیں ۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا: 
حاصلِ عمر نثارِ رہ یارے کردم
شادم از زندگی ئِ خویش کہ کارے کردم
زندگی بھر کا حاصل یار کی نذر کر ڈالا ۔ اپنی زندگی سے میں شاد ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب کوئی دعویٰ نہیں رکھتے ۔ شہرت اور ستائش سے بے نیاز اس ادارے کو بہتر سے بہتر بنانے میں مگن ہیں ، ایک کروڑ پاکستانیوں کی غربت جس نے کم کر دی ۔ لاکھوں کو ایثار پہ مائل کیا اور ملک کو عزت بخشی ہے۔ 
اعداد و شمار اب ناقابلِ یقین لگتے ہیں ۔ سولہ برس میں بیس لاکھ خاندانوں کو 40 ارب روپے قرضِ حسنہ کے طور پر دیے جا چکے۔ 96 اضلاع میں اخوت کے اب 700 دفاتر 5 ہزار ملازمین ہیں ۔ چار اصول ہیں ، سود سے گریز ، عبادت گاہوں پہ انحصار ، رنگ ، نسل ، ذات پات اور مذہبی امتیاز کے بغیر اعانت اور لینے والے کو دینے والا بنا دیا جائے۔ تھر کی ہندو آبادی اخوت کو بھگوان بینک کا نام دیتی ہے۔ فیض پانے والوں میں غیر مسلموں کا تناسب ان کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ 
چھ برس سے پنجاب حکومت بھی شریکِ کار ہے اور دس ارب روپے دے چکی۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اور اب وفاقی بھی۔ گلگت بلتستان میں اب یہ آغا خان فائونڈیشن سے بڑا پروگرام ہے ۔ ایک ارب روپے کے سرمائے سے اس نئے صوبے کی ایک تہائی آبادی تک وہ پہنچ چکا۔ گورنر پختون خوا کے اصرار پہ قبائلی پٹی میں کام کا آغاز ہو چکا۔ 
اخوت ایک منفرد ادارہ ہے ۔ کسی کا وہ حریف نہیں ۔ 26 ادارے اس کے سائے میں پیدا ہو چکے، جس کے کارکنوں کو اخوت کے ماہرین نے تربیت دی ہے۔ دوسرے ممالک اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے اخوت پر تحقیق کرنے والے آئے دن پاکستان پہنچتے ہیں۔ 
اب ایک اخوت کلاتھ بینک بھی ہے۔ فرسودہ نہیں ، ایسے لباس کا عطیہ وہ قبول کرتے ہیں، جو کوئی اپنے بہن بھائیوں کو پیش کر سکے۔ یہ لباس ڈرائی کلین کرائے جاتے ہیں۔ اب تک چودہ لاکھ خاندانوں کی خدمت میں جو پیش کیے جا چکے۔ سب سے زیادہ قیمتی جوڑا جو کبھی کسی کو دیا گیا، اس کی مالیت کیا تھی ؟ ڈاکٹر صاحب نے اپنے سامع کو ششدر کر دیا ''بیس تیس لاکھ روپے کا‘‘ تیس لاکھ ؟ جی ہاں، عروسی ملبوسات، جو ایک دن کے لیے ہوتے ہیں۔ ہاں مگر دوسرے ملبوسات کے برعکس یہ عاریتاً پیش کیے جاتے ہیں ، صرف تقریب کے لیے۔ پیکنگ کا فریضہ خواجہ سرا انجام دیتے ہیں۔ ''وہ بے حد فرض شناس ہوتے ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا ''بروقت ڈیوٹی پر پہنچتے ہیں اور گپ شپ میں وقت ضائع نہیں کرتے‘‘ چند ماہ ہوتے ہیں، یہ اخبار نویس انہیں دیکھنے گیا، ایک ایسی عمارت میں وہ مصروفِ عمل دکھائی دیے، ائیرکنڈیشنڈ کے بغیر جس کا موسم گوارا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک طباع آدمی ہیں۔ تازہ تصورات کی پذیرائی کرنے والے۔ 
کبھی ڈاکٹر صاحب سے میں نے اصرار کیا تھا کہ تعلیم کے نظر انداز شعبے میں بھی اپنا مبارک قدم انہیں رکھنا چاہیے۔ تین سو پرائمری سکول اب وہ چلا رہے ہیں، حکومتِ پنجاب جن کا بوجھ نہ اٹھا سکتی تھی۔ طلبہ کی تعداد کم تھی یا عمارتیں ناقص۔ فیس ان بچوں سے نہیں لی جاتی۔ 800 سے 850 روپے فی کس حکومتِ پنجاب ادا کرتی ہے۔ باقی اخراجات عطیات سے پورے کیے جاتے ہیں۔ ناکردہ کار سرکاری اساتذہ حکومتِ پنجاب کے حوالے کر دیے گئے۔ اب ان دیہات کی مقامی بچیاں اپنے بہن بھائیوں کو خود پڑھاتی ہیں۔ 3600 طلبہ بڑھ کر 9 ہزار ہو گئے اور امسال 15 ہزار کو پہنچ جائیں گے۔ ''ہم ٹھیکیدار نہیں‘‘ رسان سے ڈاکٹر صاحب نے کہا ''حکومتِ پنجاب کے شریکِ کار ہیں۔‘‘ وہ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کی بنیاد رکھنے والے افسروں میں سے ایک تھے۔ فیصل آباد میں 25 ایکڑ پر پھیلے ایک بائیو ٹیکنالوجی کالج کی اساس دو برس پہلے انہوں نے اٹھائی تھی، جو اکیسویں صدی کی سائنس ہے۔ ایک کالج لاہور میں ہے اور نواحِ لاہور میں 28 ایکڑ رقبے پر ایک یونیورسٹی زیرِ تعمیر۔ تمام صوبوں کے لیے یکساں کوٹہ مقرر ہے۔ بہترین اساتذہ ملک بھر سے تلاش کیے گئے۔ زیادہ تر کیڈٹ کالجوں سے۔ ان میں سے کبھی کسی کو سبکدوش کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ نئے ماحول میں وہ ڈھل جاتے اور حسنِ عمل کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ 
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق 
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحرگاہی کا نم
...اور اب اخوت کلینک ہے۔ شوگر کے ا ن مریضوں کے لیے، ڈاکٹر جن کے اعضا کاٹنے پر تل جاتے ہیں کہ زخم مندمل نہیں ہوتے۔ اخوت والے انہیں اٹھا لاتے ہیں۔ اب تک ایسے 2 سو مریضوں کا علاج کیا جا چکا۔ ہزاروں ان کے سوا ہیں۔ 
یہ پیچیدہ کام بڑی مہارت کا مطالبہ کرتا ہے ۔ زخموں سے بو اٹھتی ہے اور ناقابلِ برداشت۔ اپنی عمارت تعمیر کرنے کے لیے اب اخوت کو عطیات کی ضرورت ہے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: دوسروں کے کام میں جو لگا رہتا ہے، اللہ اس کے کام میں لگ جاتا ہے۔ 
کیا اپنے کام پر انہیں فخر کا احساس ہے؟ جی نہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری کامیابی ایک نظریے کی فتح ہے۔ مانتے تو سبھی مسلمان ہیں کہ سود اللہ سے جنگ کے مترادف ہے۔ اس میدان میں قدم کوئی نہ رکھتا تھا۔ انہوں نے رکھ دیا اور اللہ نے ظفر مندی عطا کی۔ 
عظمت ہے کہ ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔ اس کے باوجود، ملک کے مستقبل پر لوگ مایوس ہوتے ہیں؟ ہاتھ بٹانے والے بڑھتے جائیں گے تو انشاء اللہ وہ انقلابِ عظیم بھی رونما ہو گا، جس کی آرزو میں ہم ماتم گسار ہیں۔ ایثار سے، تعلیم سے، خدمت سے۔ تحمل اور دانش کے ساتھ!
سیاستدانوں کے نہیں، ایسے ہی لوگوں کے بل پر قومیں زندہ ہوتی اور نشوونما پاتی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved