تو کیا اب حکمرانوں کے لیے پاکستان کے سب اداروں کو ذبح کرنا پڑے گا؟ ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کرنا پڑے گا؟
حیران ہوتا ہوں یہ سوچ کر کہ بھلا انسانی تاریخ میں کب سے چند افراد ایک ریاست، کروڑوں عوام اور اداروں سے زیادہ اہم ہو گئے؟ پریشانی ہو رہی تھی کہ اپنی دلیل میں جان پیدا کرنے کے لیے مجھے ماضی کے حوالے کھنگالنا پڑیں گے۔ قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات کھودنا پڑیں گے۔ ملتان کے عظیم آرکیالوجسٹ ابنِ حنیف کی جان جوکھوں سے لکھی گئی "دنیا کا قدیم ادب" یا "مصر کا قدیم ادب" کی متعدد جلدوں کو کھنگالنا ہو گا کہ جب ان قدیم معاشروں پر ایسی صورت حال بنتی ہو گی تو وہ کیا کرتے ہوں گے؟ شاید کہیں سے ایسا حوالہ مل جائے جس میں ایک بندے یا خاندان کو بچانے کے لیے پوری ریاست یا حکومت کو قربان کیا گیا ہو‘ اور اس کے نتائج اچھے نکلے ہوں؟
سوفلیز کے ڈرامے کنگ ایڈیپس کا خیال آیا کہ کیسے تھیبیر ریاست پر بادشاہ ایڈیپس کی وجہ سے تباہی آ گئی تھی۔ پھر ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آئے جو حکمرانوں کی زیادتیوں کا شکار رہے۔ انتقام کا شکار تو ڈاکٹر ظفر الطاف جنرل مشرف‘ اور بعد میں زرداری دور میں نذر گوندل کے ہاتھوں بھی رہے جو پیپلز پارٹی دور میں وزیرِِ زراعت تھے۔ کسی دن پوری کہانی لکھوں گا کہ انہوں نے ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے اعلیٰ بندے کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ پتہ نہیں آج ڈاکٹر ظفر الطاف‘ جو عمران خان کو کپتان کاردار کے بعد سب سے بڑا کپتان مانتے تھے اور خود عمران خان بھی ان کا مداح تھا، زندہ ہوتے تو ان کا ردعمل کیا ہوتا‘ جب انہیں پتہ چلتا کہ اب ایسے کردار معاشرے میں تبدیلی کے لیے چنے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الطاف نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ان کے والد چوہدری الطاف‘ جو خود وکیل تھے‘ نے ایک دن انہیں اس وقت ڈانٹا جب انہوں نے کسی مقدمے میں اس وقت کے گورنر پنجاب نواب کالا باغ کے حق میں عدالت کے فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔ چوہدری الطاف نے اپنے بیٹے سے کہا: عدالتوں کا مذاق نہ اڑایا کرو‘ عدالت ایسی جگہ ہے کہ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی زندگی میں اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کسی بھی طرح کے حالات کا سامنا عدالت ہی کر سکتی ہے۔ وہی ہوا‘ نواب کالا باغ کی لاش کا مقدمہ عدالت کے سامنے پیش ہوا اور عدالت کے حکم پر ہی لاش ریلیز کی گئی تاکہ تدفین ہو سکے۔
یہ سب باتیں مجھے اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ جس طرح کی زبان عدلیہ کے بارے میں استعمال ہو رہی ہے‘ کہیں ان کا حشر بھی وہی نہ ہو‘ جو نواب کالا باغ کا ہوا تھا۔ اگر خدانخواستہ عدالتوں کو آج بلڈوز کر دیا جاتا ہے تو کیا گارنٹی ہے کل کو دوبارہ جنرل مشرف جیسا انصاف مقدر میں نہ ہو؟ جنرل مشرف کے دور میں عدالتیں جیسی بھی تھیں لیکن کم از کم بھٹو کی طرح نواز شریف کو پھانسی کی سزا نہ سنائی گئی تھی‘ حالانکہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر دبائو تھا۔ عدالتیں جیسی بھی تھیں انہوں نے ہی جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ دیا تھا کہ نواز شریف کو وطن واپس لوٹنے سے نہ روکا جائے۔ اس عدلیہ نے ہی‘ جس پر نواز شریف کے حامیوں نے حملہ کیا تھا‘ لندن اور جدہ سے لوٹنے کے کئی برسوں بعد چودہ سال سزا ختم کی اور ان پر نااہلی کی کلاز بھی اڑا دی تھی۔ لاہور کی عدالت نے ہی نیب میں چلنے والے مقدمات میں ان کو کلین چٹ دی تھی۔ پنجاب میں گورنر راج لگا تو اسی عدالت نے اسے غلط قرار دیا۔ بعض ججوں کو فون پر پیغام لکھوایا جاتا تھا کہ بینظیر بھٹو اور زرداری کو سات سال سے کم سزا نہیں دلوانی اور سب جائیدادیں ضبط کرانی ہیں۔
پاکستانی عدالتوں نے حکمران خاندان کے ساتھ کب تعاون نہیں کیا؟ ان کی کب نہیں سنی گئی؟ انہیں کب انصاف نہیں ملا؟ کیا اسی سپریم کورٹ میں جب نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر پیش ہوئے تھے کہ پیپلز پارٹی کو میمو گیٹ میں غدار قرار دیا جائے‘ تو کیا ان کی فرمائش پر کمیشن نہیں بنا تھا؟ کیا خواجہ آصف کی روزانہ پیٹیشن پر وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف مقدمات قائم نہیں ہوئے تھے؟ کیا عدالتوں نے حکمرانوں کا ساتھ نہیں دیا تھا؟ کیا گیلانی کو نااہل کرانے کی کوششوں میں شہباز شریف اور نواز شریف شامل نہیں تھے؟
حیران ہوتا ہوں کہ عدالتوں نے کب ان کی گستاخی کی کہ وہ اتنے غصے میں ہیں اور ججوں کے بچوں تک کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں؟ ویسے پانامہ سکینڈل پر تو حکمران اور ان کے حامی خوش تھے کہ عدالت کا آرڈر بہت اچھا ہے اور نواز شریف برطرف ہونے سے بچ گئے ہیں۔ جے آئی ٹی کو ویلکم کیا گیا تھا۔ پاکستان کا بڑا طبقہ خوش نہیں تھا کہ نواز شریف بچ گئے‘ لیکن بھٹو اور گیلانی تو نہیں
بچ سکے تھے۔ نواز شریف تو جلا وطنی کے بعد بھی اسی عدالت سے سزا معاف کرانے کے بعد وزیر اعظم بن گئے تھے جبکہ بابر اعوان‘ جو ریفرنس سپریم کورٹ لے کر گئے تھے کہ بھٹو کو دی گئی پھانسی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے‘ اس کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ یوسف رضا گیلانی کی پانچ سالہ نااہلی اب جا کر ختم ہوئی ہے۔ نواز شریف کی برطرف حکومتیں بحال ہوتی رہیں جبکہ بینظیر بھٹو کی ایک حکومت بھی بحال نہ ہوئی۔ پھر بھی انہیں عدالتوں سے گلہ ہے انہیں انصاف نہیں مل رہا۔ نواز شریف صاحب تو اتنے خوش قسمت ہیں کہ اصغر خان کیس میں یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ انہوں نے آئی ایس آئی سے پیسے لے کر الیکشن لڑ کر بینظیر کو ہرایا تھا‘ وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ کسی عدالت نے ان کا راستہ نہیں روکا اور نہ ہی کسی جج نے ان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کیا کہ وہ تو سپریم کورٹ میں ان ناموں میں شامل تھے جنہیں چودہ کروڑ روپے دیے گئے تھے کہ بینظیر بھٹو کو الیکشن ہرانا ہے۔ خاندان کے کچھ ارکان نے بینکوں کا چھ ارب روپے قرضہ واپس نہ کرنے کے لیے بیس سال تک عدالت سے سٹے لیے رکھا۔ پھر بھی عدالتوں سے ناراضی ہے... کمال ہے!
تو کیا اب حکمران خاندان ایسا لاڈلا بچہ بن چکا ہے جس کی ہر فرمائش پوری ہونی چاہیے‘ چاہے ریاست اور اس کے ادارے بچیں یا نہ بچیں؟ اس مقصد کے لئے دھمکیاں تک دی گئیں‘ پھر بھی ان سے نہ پوچھا جائے؟ تو کیا اب ان کی خواہش پر عدالتوں کو ختم کر دیا جائے کیونکہ انہوں نے شاہی خاندان سے کچھ سوالات پوچھنے کے لیے ایک جے آئی ٹی بنا دی ہے؟ اب اس ملک میں کوئی انصاف نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے براہ راست اثرات نواز شریف خاندان پر ہوں گے؟ تو کیا ایک بادشاہ کو بچانے کے لیے اب پوری ریاست کو تباہ کرنا ہو گا؟
کنگ ایڈیپس جیسے بادشاہ کہاں سے لائیں جو ایک صبح اٹھا تو محل کے باہر لوگ رو رہے تھے۔ ماتم ہو رہا تھا۔ پتہ چلا کہ اس ریاست میں برسوں پہلے ایک بے گناہ کا قتل ہو گیا تھا اور ریاست پر تباہی آئی ہوئی تھی۔ دیوتائوں نے اس کا حل یہ بتایا تھا کہ جس قاتل نے بے گناہ انسان کا قتل کیا‘ جب تک اسے پکڑ کر سزا نہیں دی جاتی‘ یہ بلائیں اس ریاست پر حملہ آور ہوتی رہیں گی۔ بادشاہ ایڈیپس نے اس قاتل کی تلاش شروع کرا دی۔ کچھ جو اس قتل کے راز سے آگاہ تھے‘ انہوں نے اسے روکنے کی کوشش کی کہ بادشاہ سلامت سچ تلاش کرنے کی کوشش مت کرو۔ لیکن ایڈیپس نہ مانا اور ایک دن سچ اس کے دروازے پر ان کھڑا ہوا۔ قاتل ایڈیپس (بادشاہ) خود تھا اور مقتول اس کا باپ۔ بادشاہ نے خود اپنے آپ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنی آنکھیں خود پھوڑ لیں اور ریاست کے لوگوں کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لیے اپنی بیٹی انٹیگان کا ہاتھ پکڑ کر ریاست چھوڑ گیا۔
ہزاروں سال پہلے بھی انسان انصاف پر یقین رکھتے تھے ورنہ آسمانی بلائیں نازل ہو جاتی تھیں۔ پانامہ پیپرز بھی شاید اسی طرح کی آسمانی بلائیں ہیں جیسی تھیبر ریاست کے کنگ ایڈپپس کے خاندان پر نازل ہوئی تھیں۔ باقی حکمران کنگ ایڈیپس نہیں ہیں کہ خود کو سزا دے سکیں۔ عدالت کو انصاف کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی... پھر تو آسمانی بلائیں ہی نازل ہوں گی۔ ہو سکتا ہے‘ ماضی کی طرح آپ دھمکیوں اور جبر کے ذریعے انصاف کا ترازو اپنے حق میں موڑ لیں یا توڑ دیں لیکن کیا کریں قدرت جب انصاف کرنے پر آتی ہے تو پھر یہ بادشاہ یا گدا نہیں دیکھتی۔ قدرت کے اٹل قوانین نے تو یونان کے بادشاہ ایڈیپس تک کو معاف نہیں کیا تھا۔