حوصلہ رکھو، صبر کرو، سکون سے، جیسے الفاظ نو عمری میں والد کی وفات کا صدمہ سہنے والوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس روز میرے گھر کی چھت اُڑ گئی۔ ہم سارے ننگے آسمان تلے آ پڑے۔ مجھے رفتہ رفتہ خیال آیا‘ دنیا کے سب سے عظیم انسان اور اللہ کے آخری رسول ﷺ پر والدِ محترم کی رحلت کا لمحہ کیسے گزرا ہو گا۔ 13 رمضان 1976ء میرے والد چلتے پھرتے برین ہیمرج کا شکار ہوئے اور منوں خاک کے نیچے جا آسودہ ٹھہرے۔ ٹھیک چالیس سال پہلے آج کے دن۔
گئے تم ایک مگر یوں کہ کر گئے تنہا
تمہارے ساتھ گئیں خوبیاں مقدر کی
زیرو پوائنٹ سے 25 منٹ کی دوری پر میرا گائوںہوتھلہ ہے۔ پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر گائوں بنانے والے میرے پہلے بابا، ملک خان دوران سیدنا علیؓ کی نسبت والے افغانستان کے شہر مزار شریف سے ہجرت کرکے کہوٹہ آئے تھے۔ ہوتھلہ کے عین وسط میں اُن کا مزار ہے‘ جہاں ہر سال ہاڑ کے مہینے میں اُن کا عُر س ہوتا ہے‘ پوٹھوہاری زبان میں جسے میلہ کہتے ہیں۔ اُن کے بیٹے ملک سیدا خان کی قبر اور اُن کے پوتے شیخ الحدیث شیخ محمد عمر کا مزار ہوتھلہ کی نواحی بستی بَن میں مرجع خلائق ہے‘ جہاں کئی سو سال سے اُن کا عرس ہو رہا ہے۔ ملک سُرخرو خان میرے والد صاحب کے دادا تھے اور میرے دادا ذیلدار ملک ناموں خان دونوں کی خاک کی ڈھیریاں ہوتھلہ ہی میں ہیں۔ والدِ محترم اپنے جَدِ امجد والے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔
والد صاحب سَچے تابعدارِ رسولِ عربیﷺ تھے۔ ہمیشہ دُعا کرتے‘ اللہ پاک اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا۔ مالکِ ارض و سماء نے ان کی دُعا کو قبولیت کا شرف بخشا۔ چند گھنٹوں پر مشتمل بیماری کے دوران اُنہوں نے آڈیو ٹیپ ریکارڈ کروائی۔ ( ریکارڈنگ والی ٹیپ میرے چھوٹے بھائی فاروق اعوان ایڈووکیٹ کے پا س محفوظ ہے) جس میں دیگر گھریلو باتوں کے علاوہ والد صاحب نے میرے اماں جی (خُدا اُنہیں عُمرِ خضر عطا کرے) کو گھرانے کا نور قرار دیا۔
والد صاحب 4 وجوہات بیان کرکے اکثر مجالس میں روہانسے ہو کر کہتے‘ مجھے جہنم کی آگ نہیں جلا سکتی۔ پہلی، میں نبی آخرالزماںﷺ کا تابعدار ہوں۔ اُن کی ذات مُبارک سے عشق کرتا ہوں۔ دوسری، میں آلِ رسولﷺ کے لیے صدقہ کرتا ہوں، اُن کے لیے آنسو بہاتا ہوں۔ تیسری میری چھاتی علامہ اقبال کی چھاتی سے ملی ہے اور چوتھی میرے وسائل میری ذات سے زیادہ اللہ کی راہ میں جا تے ہیں۔ علامہ اقبال سے اُن کی ملاقا تیں تحصیل کہوٹہ کے ایک روشن ستارے راجہ حسن اختر‘ جو علامہ صاحب کے انتہائی قریبی دوست تھے اور میرے والدصاحب کے بھی انتہائی قریبی دوست‘ کے ذریعے ہوئیں۔ راجہ حسن اختر گکھڑ قبیلے کے سرخیل سُلطان ظہور اختر کے والد تھے۔ ہماری قریبی رشتہ داریاں وفاقی علاقے کے دیہات پنڈ ملکاں (محفوظ شہید نشانِ حیدر کا گائوں) بہارہ کہوہ، لوہی بھیر اعوان، سوہان، گولڑہ شریف، اسلامی یونیورسٹی والی جگہ واقع چہان مستال میں تھیں۔ میری نانی اماںکا تعلق حالیہ بحریہ ٹائون میں واقع گائوں پنڈ جھاٹلہ سے تھا۔ اماں جی کلیام اعوان گجر خان سے۔ اس لیے جب گائوں میں ماتم ہوتا مہمان دُور دُور سے جنازے میں آتے۔ والد صاحب حُقے تازے کرواتے وسیع صحن اور دالان میں چارپائیاں، سرہانے رکھواتے۔ بچوں اور بڑوں کی ڈیوٹیاں لگتیں‘ باہر کے لوگوں کو جنازہ پڑھنے کے بعد ذیلدار ہائوس لانا ہے اور کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دینا۔ میرے والد نے پیری مریدی کا لقب نہ اپنایا لیکن لنگر شریف چلانا عمر بھر ان کے خون اور روایت میں شامل رہا۔ ان کے چلے جانے سے یہ روایت رکی نہیں۔ الحمدللہ۔
سینیٹر راجہ ظفرالحق کے والد راجہ فضل داد، پوٹھوہار کے سرکردہ سید سرور شاہ آف پنڈوری سیداں، گورنمنٹ ہائی سکول کہوٹہ کے 2 سابق سربراہان ماسٹر مبین ملک اور ماسٹر عبدالقدوس قریشی، چوہدری وادی خان، لاہور ہائی کورٹ اور عالمی عدالتِ انصاف کے جج علی نواز چوہان کے والد چودھری مولا داد انکل اُن لوگوں میں شامل تھے جنہیں میں نے والد صاحب کے اہم ترین دوستوںکی شکل میں قریب سے دیکھا۔ والد صاحب اکثر نظمیں یاد کرا کے اُنہیں تحت الفظی اور باڈی لینگوئج کے ساتھ پڑھنے کا سلیقہ بتاتے۔ جونہی اُن کے دوست ہمارے گھر تشریف لاتے مجھے اُن کے سامنے تازہ تیارکردہ نظم سُنانے کے لیے کہا جاتا۔ مہمان چلے جانے کے بعد والد صاحب نے کئی دفعہ ٹوکا‘ کہا: نظم سناتے وقت ہاتھ مت باندھا کرو۔ زمانے بعد مجھے پتہ لگا کہ وہ مجھ سے ''ٹیبلو‘‘ کرواتے تھے۔
میں نے اماں جی کے ہمراہ زندگی میں پہلی فوتگی والد صاحب کی صورت میں دیکھی۔ گھر میں کوئی اور موجود نہ تھا۔
ہوتھلہ پہلے آبادی کے اعتبار سے پوٹھوہار کی سب سے بڑی یونین کونسل تھی۔ پھر ڈی ایچ اے والی سائیڈ پر لُونا کاٹ کر علیحدہ یونین کونسل بنا۔ نتھوٹ والی سائیڈ ایک اور یوسی میں چلی گئی۔ کہوٹہ میں ڈاکٹر خان ریسرچ لیبارٹری اس کی عالمی شناخت بنی۔ ہوتھلہ سہالہ سے ملحقہ ہے، جس کا پہلا گائوں آڑی سیداں ہے‘ پھر ناڑا سیداں تک کہو ٹہ روڈ پر کشمیر کی طرف جاتے سڑک کی دائیں جانب تحصیل کہوٹہ۔ سڑک کی بائیں طرف وفاقی دارالحکومت کا حصہ ہے۔ اس طرح میرا آبائی گائوں بیک وقت 2 وفاقی یونٹس کا حصہ ہے۔
ہوتھلہ کے داخلی موضع عثمان پور کے باوا نمانڑاں ( بے پروا) عمر میں والد صاحب سے بڑے تھے۔ ساری زندگی پائوں میں جوتا نہ پہنا۔ گائے بکریوں کا بڑا ریوڑ چراتے رہتے۔ بڑا بیٹا راجہ نذیر اسلام آباد میں تھانے دار تھا۔ بے وقت فوت ہوا۔ چھوٹا منیر میرا کلاس فیلو آج کل اچھے عہدے پر ہے۔ اس مہمان کو والد صاحب سر پر بٹھا لیتے۔ تب مجھ میں سوال کی ہمت نہیں تھی۔ ایک دن خود بولے باوا نمانڑاں اس انگریزی فوج کا حصہ تھے‘ جسے برما سے جدہ بھجوایا گیا۔ بحری جہاز پر کسی نے باوے کو بتایا کہ یہ فوج حجاز پر حملے کے لیے جا رہی ہے۔ باوے نے وردی اور بوٹ اتارے اور سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ اسے پتہ نہ چلا کہ وہ کیسے کنارے جا لگا۔ برٹش آرمی نے اسے پہلے فوجی بھگوڑا قرار دے کر گائوں میں چھاپے مارے پھر اسے لاپتہ کی فہرست میں ڈال دیا۔
ہر سال 13 رمضان میرے والد کی برسی پر ان کے دعوے پر یقین اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ مغفرت کے عشرے میں رحلت جب جہنم کے دروازے بند تھے اور جنت کے کُھلے۔ سارے جہانوں کا وہ بادشاہ جو اپنی مخلوق سے 70 مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے‘ ایک مرتبہ کسی کو جنت میں بھیجنے کے بعد کیسے نکال کر جہنم میں ڈالنے کا حکم جاری فرمائے گا۔ وہی جو قادرِ مطلق ہے۔
اس سال 2 فروری مجھے عجیب تجربہ ہوا۔ رات پونے دو بجے یوں لگا جیسے والد صاحب کمرے میں ہیں۔ میں اٹھ بیٹھا، بتیاں جلائیں فیملی آ گئی۔ سارے مجھے دیکھ کر شدید پریشان ہوئے۔ میرا چہرہ اور چھاتی آنسوئوں سے بھیگی ہوئی تھی۔ سب نے حوصلہ دیا۔ میں نے پانی پیا اور والد صاحب کے لیے دعا کی۔ سب کو واقعہ بتایا۔ ساڑھے تین بجے صبح پھر ویسی ہی کیفیت ہوئی۔ پھر سارے واپس آئے میں آنسوئوں سے تر تھا۔ وضو کیا مصلے پر بیٹھا۔ 4 بجے پھر سویا، 5:14 پر اسی کیفیت میں آنکھ کھلی۔ میری ڈائری میں اس رات کی رُوداد یوں منظوم ہے۔
کل بھی خواب میں آئے
کچھ گلاب پھر لائے
روئی کا وہ گالا تھے
پیار کا حوالہ تھے
نور کا وہ حالہ تھے
اس قدر وہ بالا تھے
میں تو چُھو نہیں پایا...
.........
میں بہت ہی تھا چھوٹا، جب سکول سے لوٹا، گر پڑا اٹھایا تھا
گود میں بٹھایا تھا، گال تھپتھپایا تھا، اور پھر بتایا تھا
تم کہاں اکیلے ہو، ساتھ ہیں تیرے بابا۔
............
بادلوں میں رہتے ہیں
روز مجھ سے کہتے ہیں
پھر سے لوٹ آئوں گا
پھر گلے لگائوں گا
میں تو محض بچہ تھا، جب چلے گئے بابا
کچھ بھی کر نہیں پایا، میں بہت ہی چھوٹا تھا
.........
آ کے دیکھ لیں بابا
تیری محنتوں کا پھل، میں نے کس قدر کھایا
اور تیری خدمت میں، کچھ بھی کر نہیں پایا
اب کبھی ملیں بابا
پھر گلے لگیں بابا
پیار یاد آتا ہے، بار بار آتا ہے