تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     09-06-2017

عرب دنیا کے تازہ اختلافات

پانچ عرب ممالک سعودی عرب‘ مصر‘ یمن‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ زمینی اور ہوائی رابطے ختم ہو گئے ہیں اور اسی فیصلے کی وجہ سے سینکڑوں پاکستانی عمرہ زائرین دو دن تک دوحہ ائیرپورٹ پر بیٹھے رہے کیونکہ اب قطر ائیر کی پروازیں جدہ نہیں جا سکتیں۔ قطر خلیج میں ایک محدود رقبے اور آبادی والا ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے تین جانب خلیج کا پانی ہے اور زمینی بارڈر صرف سعودی عر ب کے ساتھ ملتا ہے۔ قطر اپنی اشیائے خوردنی کا چالیس فیصد سعودی عرب سے امپورٹ کرتا ہے۔ کل آبادی تیئس(23) لاکھ ہے جس میں پچاس فیصد فارنر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قطر میں رہائش پذیر انڈینز کی تعداد لوکل لوگوں سے دوگنی ہے لیکن وہاں لاکھوں دوسری نیشنلٹی کے لوگ بھی موجود ہیں‘ پھر بھی ٹوٹل آبادی ہمارے شہر راولپنڈی سے کم ہے۔ پوری دنیا میں قدرتی گیس کا سب بڑا ذخیرہ خلیج کے پانیوں کے نیچے قطر اور ایران کے درمیان واقع ہے۔ اس گیس فیلڈ میں تینتالیس(43) کھرب کیوبک میٹر گیس دفن ہے۔ ایران اور قطر‘ دونوں باہمی تعاون اور رضا مندی سے اس گیس فیلڈ سے استفادہ کرتے ہیں۔ اپنی بہت ہی مختصر آبادی اور بے پناہ وسائل کی وجہ سے قطر فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
عرب اتحاد میں تازہ ترین شگاف باعث افسوس ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے عرب لیڈروں نے صدر ٹرمپ کی موجودگی میں ایران کے خلاف متحد ہونے کا جو عزم ظاہر کیا تھا اس عزم میں پہلی دراڑ ظاہر ہو گئی ہے۔ صدر ٹرمپ جو کہ سفارتی محتاط لہجے سے باہر ہو کر سیدھی اور کھری کھری بات کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ میں ریاض سمٹ میں بھانپ گیا تھا کہ انتہا پسندی کی فنڈنگ کے بارے جو اشارے ہو رہے تھے وہ تمام کے تمام قطر کی طرف تھے، قطر نے ان تمام الزامات کو رد کیا ہے۔
ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے علاوہ قطر پر جو دوسرا بڑا الزام ہے وہ اس کے اخوان المسلمون اور حماس کے ساتھ اچھے مراسم ہیں۔ سعودی عرب اور مصر‘ دونوں ان تنظیموں سے قطع تعلقی کر چکے ہیں۔ مصر نے تو اس بات کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ اخوان نے چند سال پہلے جمہوری طریقے سے ووٹ حاصل کرکے حکومت بنائی تھی۔ اسی طرح سے غزہ کی پٹی میں حماس کے اثر و رسوخ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اوسلو معاہدے کے بعد سے پی ایل او (PLO) بوجوہ فلسطینی عوام میں اپنی ساکھ قائم نہیں رکھ سکی۔ اس گمبھیر صورت حال میں فلسطینی عوام کا حماس کی طرف جھکائو قابل فہم ہے۔
امریکہ کے مفادات دونوں جانب ہیں ایک طرف سعودی عرب اس کے اسلحے کا بڑا خریدار ہے اور دوسری جانب قطر ہے جہاں امریکہ کا بڑا ائیر بیس ہے۔ عراق اور شام میں داعش کے خلاف فضائی کارروائیاں اسی ائیر بیس سے کی جاتی ہیں۔ اب امریکہ کا مخمصہ یہ بھی ہو گا کہ سعودی اور بحرینی طیارے بھی کبھی کبھار ان فضائی حملوں میں امریکہ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ قطر کے ساتھ حالیہ تنائو کی کیفیت امریکہ کو سوٹ نہیں کرے گی۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ قطر کو اپنی پالیسی بدلنا ہو گی۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ ایران اور اخوان کے ساتھ تعلقات رکھو یا ہمارے ساتھ۔ سعودی وزیر خارجہ نے یہ بیان پیرس میں دیا لیکن فرانسیسی قیادت نے جواب میں کہا کہ قطر ایک آزاد ملک ہے اسے آزادانہ پالیسی سازی کا اختیار ہے۔ لیکن سب سے اچھا سفارتی بیان تہران سے آیا ہے۔ ایران کے وزیر خراجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ہمسائے دائمی ہوتے ہیں جغرافیہ تبدیل نہیں ہو سکتا کسی بھی ریاست پر اپنی مرضی مسلط کرنا مسائل کا حل نہیں آپس کی بات چیت ضروری ہے خصوصاً رمضان کے بابرکت مہینے میں۔ میرا اس بات پر یقین اب مزید واضح ہو رہا ہے کہ مڈل ایسٹ میں سفارت کاری پر جتنا عبور ایران کو حاصل ہے شاید دیگر ممالک کو نہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ترکی کے صدر طیب رجب اردوان نے قطر کی حمایت میں بیان دیا ہے۔ گویا یہ تازہ ترین واقعات پوری اسلامی دنیا کو تقسیم کر رہے ہیں۔
مصر میں اخوان کا ایجنڈا ہمارے ہاں کی بعض مذہبی جماعتوں سے ملتا جلتا ہے اخوان اور اسلامی جماعت میں عرصے سے محبت کا رشتہ قائم ہے مگر ہمارے ہاں مذہبی ذہن کی سیاسی جماعتوں سے وہ سختی نہیں کی گئی جو کہ مصر اور الجزائر میں ہوئی اور میرے خیال میں ہماری پالیسی زیادہ مدبرانہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں مذہبی جماعتیں قومی سیاسی دھارے میں آ گئیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی موجود ہیں جبکہ مصر میں اخوان کالعدم تنظیم ہے اور اس سختی کے باوجود مصر کو استحکام نصیب نہیں ہو سکا۔
بے شک قطر چھوٹا ملک ہے لیکن چند سالوں سے وہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ قطر کا الجزیرہ ٹی وی بھی مختلف مسائل پر کھل کر بات کرتا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورے کے بعد کچھ خلیجی ممالک میں بہت زیادہ اعتماد آیا ہے کہ اب امریکہ ہمارے ساتھ ہے اور تازہ ترین واقعات ٹرمپ کی وزٹ کا شاخسانہ ہیں۔ بیروت میں قائم کارنیگی مڈل ایسٹ سنٹر کے سینئر فیلو یزید صائغ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حکومت نے ایک عرب ملک کو یمن میں اور مصر کو لیبیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بیان امریکہ کے ایک اہم تھنک ٹینک کے بااثر مبصر کا ہے جو مڈل ایسٹ میں رہتا اور وہیں کام کر رہا ہے۔
پاکستان نے اب تک اپنے آپ کو اس جھگڑے سے علیحدہ رکھا ہے اور میرے خیال میں یہ اچھی پالیسی ہے۔ ہم خاموش ہی رہیں تو بہتر ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ او آئی سی کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن میرے اندازے میں ایسی صلح کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ یہ اچھا ہوا کہ کویت اور اردن نے قطر سے قطع تعلق نہیں کیا۔ اب یہ دونوں ممالک صلح کرانے کی پوزیشن میں ہیں اور ہاں سلطنت مسقط و عمان نے بھی اپنی روایتی معتدل خارجہ پالیسی قائم رکھی ہے۔ قطر سے قطع تعلق عمان نے بھی نہیں کیا۔ مجھے پوری امید ہے کہ عمانی لیڈرشپ صلح کرانے کی پوری کرشش کر ے گی مگر اپنی روایتی خاموشی کے ساتھ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved