تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     10-06-2017

سراج الحق صاحب کی دعوت افطار

امیر جماعت اسلامی کی طرف سے دعوت افطار برسوں سے چلی آنے والی ایک روایت ہے۔ امیر جماعت کے اسلوب، ان کے بیان اور طرز بیان سمیت جماعت میں بہت سی چیزیں بدل رہی ہیں۔ چنانچہ اس بار دعوت افطار کا Vanue بھی بدل گیا تھا، امیر العظیم کے بقول، شدید گرمی کے باعث اس دعوت افطار کا اہتمام جماعت کے ہیڈکوارٹر منصورہ کی بجائے شہر میں ایک ائیر کنڈیشنڈ ہال میں کیا گیا۔ یاد آیا، حافظ محمد ادریس صاحب نے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف کے نام ایک کالم میں درخواست کی تھی کہ زیر تعمیر اورنج لائن کے اس سٹیشن کو منصورہ اسٹیشن کا نام دیدیا جائے۔ ہمیں امید ہے وزیر اعلیٰ اس درخواست پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔ منصورہ کے سامنے اس سٹیشن کا نام یہی بنتا ہے جماعت اسلامی ان دنوں وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مخالف جماعتوں میں شمار ہوتی ہے لیکن سیاست میں اور انتخابی سیاست میں حریف اور حلیف بدلتے رہتے ہیں مختلف ادوار میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میں رفاقت کی قابل رشک روایات بھی موجود رہی ہیں۔
1988ء میں بننے والا اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بھی اسکی ایک مثال ہے ہمیں یاد ہے تب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم، نواز شریف کے کس طرح صدقے واری جاتے تھے اور خود شریف فیملی بھی قاضی صاحب کو گھر کے ایک بزرگ کا سا احترام دیتی۔1988 اور 1990 ء کے انتخابات ، دونوں نے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے لڑے۔1990ء کے انتخابی نتائج کے بعد نئے وزیر اعظم کے طور پر ایوان صدر اور اسٹیبلشمنٹ کا چوائس مرنجاں مرنج غلام مصطفٰے جتوئی تھے لیکن خود آئی جے آئی کے اندر میاں نواز شریف کے پرجوش حامیوں میں قاضی صاحب پیش پیش تھے۔ پھر میاں صاحب کی وزارت عظمٰی کے دوران قربتیں فاصلوں میں کس طرح تبدیل ہوئیں ؟ 1993 میں بابائے اسٹیبلشمنٹ صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں نواز شریف حکومت کی بر طرف کی حمایت ، پاکستان اسلامک فرنٹ کا قیام اور جماعت اسلامی کی نئی سیاست ایک الگ کہانی ہے۔ 12 اکتوبر 1999 کے اقدام کی حمایت کے بعد ، 2002 کے الیکشن میں لاہور سمیت بعض علاقوں میں مسلم لیگ ن اور جماعت میں سیٹ ایڈ جسٹ منٹ تھی۔ چیف جسٹس موومنٹ میں بھی دونوں شانہ بشانہ تھے۔جولائی 2007 میں میاں نواز شریف کی دعوت پر لندن کی آل پارٹیز کانفرنس میں پرچوش شرکت کے ساتھ اگلے روز قائم ہونے والی آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم ) میں بھی جماعت اسلامی شامل تھی۔ تب عمران خان کو بھی (خود ان کے بقول )نواز شریف کے جونیئر پارٹنر کے طور پر سیاسی کردار ادا کرنے میں کوئی تامل نہ تھا(بے نظیر بھٹو لندن میں موجود ہونے کے باوجود آل پارٹیز کانفرنس میں تشریف نہ لائیں ، ان کی نمائندگی مخدوم امین فہیم کی زیر قیادت ایک دفدنے کی۔شیریں رحمن لیپ ٹاپ پر اس کانفرس کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی سے محتر مہ کو آگاہ کرتی رہیں اور زیر بحث ایشوز پر پارٹی مئوقف کے لیے ا ن سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔ اگلے روز قائم ہونے والے سیاسی اتحاد (اے پی ڈی ایم) میں بھی پیپلز پارٹی شامل نہیں تھی۔ یہ وہ دن تھے جب محترمہ، پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کے معاملات طے کر رہی تھیں۔ جس میں اس دور کے آئی ایس آئی چیف جنرل کیانی ''وچولے‘‘کا کردار ادا کر رہے تھے۔
بات کسی اور طرف نکل گئی، ہم مسلم لیگ ن اور جماعت میں 
"Love and Hate" سٹوری کا ذکر رہے تھے۔دیگر جماعتوں کی طرح جماعت بھی اب PRAGMATIC اپر وچ کے ساتھ سیاست کرنے والی جماعت ہے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں جماعت اسلامی عمران خان کی تحریک انصاف کے مقابلے میں نواز شریف کی مسلم لیگ کی اتحادی تھی اور وہاں یہ اتحاد اب بھی قائم ہے۔
بدھ کی اس دعوت افطار میں جناب سراج الحق اخبار نویسوں سے گفتگو میں عالم اسلام خصوصاً مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی ، انتشار وافتراق اور باہم محاذ آرائی پر سخت کبیدہ خاطر تھے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاست قطر کے خلاف آخری حد کو چھوتی ہوئی سفارتی وسیاسی کارروائی نے پاکستان کو ایک اور دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے عرب اور ایران کے حوالے سے پل صراط کا سفر بھی کیا کم کٹھن تھا کہ اب ایک او رآزمائش کا سامنا ہے۔ ادھر اپنے خطے میں افغانستان کے ساتھ معاملات کو سنوارنے کی کوئی بھی کوشش اور خواہش ثمر آور نہیں ہو رہی۔ کابل میں ہونے والے حالیہ دھماکوں کا الزام کابل نے پھر پاکستان پر دھر دیا ہے، اشر غنی اسے افغانستان کے خلاف پاکستان کی غیر علانیہ جنگ قراردے رہے ہیں۔ ہندوستان کی آئے روز کی چھیڑ چھاڑ کے جواب میں پاکستانی فوج کی مئوثر کارروائی (5 ہندوستانی سور مائوں کی ہلاکت اور فوجی چوکی کی تباہی) کے بعد، دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان سخت لفظوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ اور ایرانی پارلیمنٹ اور امام خمینی کے مزار پر حملوں نے خطے میں عدم استحکام کے نئے امکانات کی نشاندہی کردی ہے۔
آتش فشاں کی سی اس صورت حال میں ''پاکستان کیسا ہونا چاہیے‘‘ محترم امیر جماعت سے ہمارا مؤدبانہ سوال تھا۔ '' اسلامی پاکستان ، خوشحال پاکستان‘‘ جناب سراج الحق کا جواب تھا لیکن پھر وہ ہمارے سوال کا اصل مفہوم و مدعا سمجھ گئے۔ ان کا کہنا تھا ''ظاہر ہے، ہمیں مستحکم پاکستان کی ضرورت ہے لیکن یہ استحکام قانون کی حکمرانی ہی سے آئے گا‘‘۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا، مشرف دور میں پاکستان عدم استحکام کی کسی کیفیت سے دو چار تھا ، صرف بلوچستان کی مثال لے لیں، ڈکٹیٹر کی انا اور ہٹ دھرمی کے باعث ایک بزرگ بلوچ لیڈر کے قتل نے بلوچستان کو کس شورش اور کن فتنوں کی آماجگاہ بنا دیا تھا۔ پھر یہ سیاسی عمل ہی تھا، آئینی وجمہوری عمل جس نے فائرفائیٹنگ کا کام کیا۔ پاکستان کی مسلح افواج استحکام اور یک جہتی کا ایک فیکٹر ضرور ہیں، مئو ثر فیکٹر۔ لیکن اتحاد واستحکام کا بنیادی عامل آئینی نظام کا تسلسل ہے ، بعض سیاستدانوں کا جذبہ انتقام قومی سلامتی کے تقاضوں پر غالب ہے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہماری عسکری قیادت کو حالات کے تقاضوں اور اپنی آئینی حدود کا بخوبی احساس ہے اور ان کی پابندی کا عزم بھی۔
آئندہ عام انتخابات میں دینی جماعتوں کا اتحاد جناب سراج الحق کی خواہش ہے جس کااظہاروہ مولانا فضل الرحمن سے بھی کرتے رہے۔ دعوت افطار میں اس حوالے سے ایک سوال پر ان کے جواب سے اندازہ ہوا کہ دینی جماعتوں کے ایم ایم اے ٹائپ اتحاد کا امکان تو نہیں البتہ امیر جماعت کی یہ خواہش اور کوشش اب بھی ہے کہ آئندہ انتخابات میں دینی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل نہ ہوں تو کیا وہ خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ سیٹ ایڈ جسٹ منٹ کی خواہش رکھتے ہیں؟ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ خود مولانا بھی کیا اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved