تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-06-2017

سید انیس شاہ جیلانی کا سفرنامہ اور خانہ پُری

...شاہد ندیم (چراغ) کی فرمائش کے مطابق میں نے آپ کی شاعری پر اپنا مضمون 11، ستمبر کو ان کے پتے پر بھیج دیا تھا۔ ابھی تک رسید نہیں آئی، براہ کرم رسید بھجوائیے۔ مضمون اگر پسند نہ آئے جب بھی مجروح نمبر آنا چاہیے۔ بیگم اختر جمال اور ان کے میاں احسن علی خاں بعض ذاتی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ اس لیے وہ لوگ مضمون لکھنے سے معذور ہیں۔ دیکھیے آپ سے میری دوسری ملاقات کب ہوتی ہے۔ جملہ احباب سے سلام کہیے۔
آپ کا نظر صدیقی
بخدمت جناب مجروح سلطان پوری، چینائے کالونی، جوہو تارا روڈ جوہو‘ بمبئی 400049
شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔ 4، اکتوبر 1982ء
برادرم مکرم حامل ہٰذا سید انیس شاہ جیلانی میرے نہایت عزیز دوست ہیں، پہلی مرتبہ ممبئی جا رہے ہیں، آپ سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ بڑے ادب دوست اور بہت اچھے خاکہ نگار ہیں۔ آپ پاکستان آتے رہتے ہیں‘ پھر بھی آپ سے ملاقات ممکن نہیں ہوتی۔ امید ہے کہ رسالہ 'گفتگو‘ نکل رہا ہو گا۔ اس میں لکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن رابطے کا فقدان لکھنے میں حائل ہے۔ اگر ممکن ہو تو گفتگو کے کچھ پرچے انیس کے ہاتھ بھیج دیں۔ زیادہ شوق ملاقات، آپ کا نظیر صدیقی
بخدمت جناب سردار جعفری، ایڈیٹر گفتگو، بمبئی 
شعبہ اردو علامہ اقبال یونیورسٹی، اسلام آباد
ڈاکٹر محمد حسن صاحب، تسلیم میرے دوست سید انیس شاہ جیلانی آپ سے ملنے جا رہے ہیں، بڑے ادب دوست اور اچھے خاکہ نگار ہیں، "عصری ادب" کے کچھ پرچے ان کے ہاتھ بھیج سکیں تو بھیج دیجیے۔ دو پرچے جو آپ نے مجھے دیئے تھے اور جن میں سے کچھ یا کئی پرچے میں حسن نعیم کے پاس امانتاً چھوڑ آیا تھا وہ خیانت کی نذر ہو گئے۔ اور سب بدستور، کبھی ملاقات ہو گی تو بہت سی باتیں ہو ں گی۔ احباب کی خدمت میں سلام عرض ہے ۔ آپ کا نظیر صدیقی
دلی اور علی گڑھ سے میری دو کتابیں چھپی ہیں (1) میرے خیال میں (2) شہرت کی خاطر۔ دونوں ناشروں کو میں نے آپ کا پتا دے رکھا ہے۔ کتابیں شاید ہی پہنچی ہوں۔ یہاں دو تین کتابیں زیر طبع ہیں‘ چھپ جائیں تو بھیجوں۔
آپ کا نظیر صدیقی
بخدمت جناب ڈاکٹر محمد حسن، شعبہ اردو، نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
پڑوس کے ایک محترم زمیندار رشید احمد خاں صاحب نے پُرانے ساتھی غلام محبوب سُبحانی درگاہ نظام الدین اولیاء کے نام ایک مکتوب میرے سپرد کیا۔ ان کو میں نہ پا سکا۔ رشید احمد شاہ میرے کرمفرما ہیں، معروف ادبی حلقوں میں نہ سہی‘ میں تو خط ان کا بھی یہاں نقل کیے دیتا ہوں، یہ سب چیزیں میرے سفر کا حصہ رہی ہیں، افسوس کہ اس سے پہلے میں ایک بار بھی آپ کی خدمت میں عریضہ ارسال نہ کر سکا۔ معذرت خواہ ہوں، بزرگوں کی خدمت میں آداب عرض۔ عزیزانِ دعوات 
786
بستی رشید آباد، ڈاک خانہ ولہار، تحصیل صادق آباد، رحیم یار خان، پاکستان۔ مکرمی و محترمی جناب سبحانی صاحب، سلام مسنون، مزاج شریف، خدا کرے آپ بخیر ہوں۔ پارٹیشن سے پہلے گورنمنٹ انڈسٹریل سکول دہلی، دریا گنج میں آپ لوگ مجھے رشید احمد کہہ کر پکارتے تھے‘ اور اب میں مندرجہ بالا پتے پر مقیم ہوں۔ خداوند کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے زندگی اچھی گزر رہی ہے۔ میرے خاص مہربان بہت عزیز سید انیس شاہ صاحب ہمارے علاقے کے چیئرمین بھی ہیں مگر ہمارے ساتھ ان کے مراسم برادرانہ ہیں۔ آپ ہندوستان تشریف لا رہے ہیں اور دہلی میں میرے واقف کار اصحاب کی طرف تعارفی خط کے لیے ابھی ابھی انہوں نے مجھے لکھا ہے۔ آپ سے بہتر شخص مجھے اور کوئی سمجھ میں نہ آیا۔ اور پھر آپ سے گزرے ہوئے وقت میں بہت بہتر تعلقات کی بناء پر میں نے آپ کی خدمت میں عریضہ لکھا ہے ۔ میں پوری امید رکھتا ہوں کہ آپ شاہ صاحب کو ہرممکن طریقہ سے وہاں امداد پہنچا کر مجھے زندگی میں ایک بار پھر مشکور ہونے کا موقعہ دیں گے۔
والسلام... احقر رشید احمد
اور اب خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل:
ایسے منظر کہیں دیکھے نہ دکھائے ہوئے ہیں
یہی لگتا ہے تر ے خواب میں آئے ہوئے ہیں
شبہ سا ہے کہ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ سے ہم جو کوئی چیز چھپائے ہوئے ہیں
چاہتے ہیں کوئی دروازہ نکل آئے کہیں
درمیاں میں جو یہ دیوار اٹھائے ہوئے ہیں
صاف تھا یوں تو جواب اس کی طرف سے لیکن
جانے کیوں پھر بھی کچھ امید لگائے ہوئے ہیں
رابطہ کچھ نہیں، اور ہو بھی کہاں سکتا ہے
پھر بھی اک تار سے ہم تار ملائے ہوئے ہیں
کوئی صورت ہی نہ تھی اس کے سوا بچنے کی
چور ہیں اور بہت شور مچائے ہوئے ہیں
اپنی موجودگی کس طرح سے ظاہر ہوتی
کسی پھٹے میں یہاں ٹانگ اڑائے ہوئے ہیں
جس جگہ ہم کو نہ ہونا تھا وہیں ہیں موجود
کہیں کھوئے ہوئے ہیں اور کہیں پائے ہوئے ہیں
ہم بھی کچھ ان سے الگ تو نہیں تھے، پھر بھی ظفر 
دوسروں کی طرح بے پرکی اُڑائے ہوئے ہیں
آج کا مقطع
اس عہدِ نامراد سے ناخوش نہ ہو‘ ظفر
آخر بھلے دنوں کی بشارت اسی میں ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved