تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-06-2017

باتیں کروڑوں کی…

نئی دہلی کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوئے بزرجمہر یعنی پالیسی میکرز کیا چاہتے ہیں یہ کسی پر نہیں کُھل رہا۔ ایک طرف تو بھارت کی علاقائی بالادستی یقینی بنانے کے بعد اُسے عالمی سیاست و معیشت میں ایک بڑے کھلاڑی کا درجہ دلانے کی تگ و دو کی جا رہی ہے اور دوسری طرف معاملہ مور والا ہے یعنی جس طور مور ناچتے ناچتے اپنے بد ہیئت پیروں کو دیکھ کر روتا ہے بالکل اُسی طرح بھارت بھی اپنی محدود ذہنیت اور تنگ نظری کے چُنگل سے نکل نہیں پارہا۔ 
بھارتی قیادت کا مخمصہ کچھ ایسا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، بلکہ دن بہ دن مزید پیچیدہ ہوا جاتا ہے۔ ایک طرف چین، پاکستان، روس اور ترکی مل کر ایک وسیع تر اتحاد قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور خاص طور پر چین اپنے معاشی، سیاسی اور سٹریٹیجک مفادات کو تحفظ دینے کے حوالے سے بہت متحرک اور پُرجوش ہے اور دوسری طرف بھارت اب تک تنگ نظری کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کر جائیں جو اُنہیں لیڈر کی حیثیت سے امر کر دے۔ مگر اُنہیں معلوم نہیں کہ ؎ 
جادۂ فن میں کئی سخت مقام آتے ہیں 
مِِٹ کے رہ جاتا ہے فنکار امر ہونے تک! 
بھارت وہ مور ہے جس کے پیر بد ہیئت ہیں اور وہ ناچتے ناچتے اپنے پیروں کو دیکھ کر رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مسلم انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا راگ الاپنے والے اب تک ہندو بنیاد پرستی کے چُنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کئی بار اقتدار میں آئی ہے مگر اب تک وہ ''ہندُتوا‘‘ کو پچھاڑنے میں ناکام رہی ہے۔ عالمی سیاست میں اپنا قد بلند کرنے اور بڑی طاقتوں سے اپنی حیثیت منوانے کے شوقین بھارت کی حالت یہ ہے کہ اب تک گائے کے نام پر رُو بہ عمل انتہا پسندی روکنے ہی میں کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور مہا راج اب تک ''گو رکھشا‘‘ کے پھیر میں پڑے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی دنیا گھوم رہے ہیں اور خدا جانے کیسے کیسے راگ الاپ رہے ہیں مگر اپنے وطن میں ذرا ڈھنگ سے گھوم پھر کر ''گو رکھشا‘‘ کے نام پر رچائے جانے والے ڈرامے کو دیکھنے کی توفیق نصیب نہیں ہو رہی۔ 
مودی سرکار نے اپنی کرسی مضبوط رکھنے کی خاطر جُنونی ہندوؤں کو کُھلی چُھوٹ دے رکھی ہے۔ ''کاؤ بیلٹ‘‘ ریاستوں (اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان) میں گائے کو بچانے کے نام پر مسلمانوں اور دلِتوں کو مارا جارہا ہے۔ بھارت میں ایک زمانے سے گائے کے ذبیحے پر پابندی عائد ہے۔ جنوبی بھارت میں اس پابندی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ وہاں کے ہندو گائے کا گوشت بہ رغبت کھاتے ہیں۔ مودی سرکار کو ایسا محسوس ہوا کہ گائے کے ذبیحے پر پابندی کافی نہیں اس لیے اب گائے کے ساتھ ساتھ بیل، بھینس، بھینسے اور اونٹ کے ذبیحے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اور اس پابندی پر عمل درآمد کی نگرانی کے نام پر مذکورہ چاروں ریاستوں میں ''گو رکھشکوں‘‘ کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ وہ جو چاہیں کرتے پھریں... کوئی ٹوکنے والا ہے نہ روکنے والا۔ پولیس کو رپورٹ کی جانے والی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں مگر اِن کے ازالے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ 
شمالی بھارت چاہتا ہے کہ بڑے جانور کا گوشت (بیف) نہ کھایا جائے۔ اور دوسری طرف جنوبی بھارت کی ریاستوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ بیف (اور خاص طور پر گائے کا گوشت) ہر حال میںکھائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ آندھرا پردیش، کیرالا، تامل ناڈو، کرناٹک اور دیگر جنوبی ریاستوں میں ''بیف فیسٹیول‘‘ کا سیزن سا چل رہا ہے۔ حیدر آباد (دکن) یونیورسٹی کے 50 سے زائد طلباء نے گزشتہ ماہ بیف فیسٹیول منعقد کیا اور یونیورسٹی کے لان پر بیٹھ کر بیف کی ڈشوں کا مزا لیا۔ مگر شاید یہ کافی نہ تھا۔ 7 جون کو کیرالا کے دارالحکومت ترو وننت پورم میں ریاستی اسمبلی کے متعدد ارکان نے اسمبلی کی کینٹین میں بیف فیسٹیول منعقد کیا اور ناشتے میں آملیٹ اور پراٹھے کی جگہ بیف کی ڈشیں تناول کیں۔ بیف فیسٹیول منعقد کرنے والوں میں ایک (ایم نوشاد) کے سِوا سبھی ارکان اسمبلی ہندو تھے! 
یہ تو ہوا بیف میلوں کا بیان۔ آئیے، اب ذرا جائزہ لیں کہ اِس کے جواب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیوک اپنے دھرم کی کیا سیوا کر رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کے رکن اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما رمیش اروڑا نے جب یہ دیکھا کہ گوشت کھانے والوں کو روکنا ممکن نہیں تو وہ ایک نیا محاذ کھول بیٹھے ہیں۔ موصوف نے پکوڑوں اور پکوڑیوں پر پابندی عائد کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ٹھیلوں پر فروخت ہونے والے پکوڑوں اور پکوڑیوں کے اجزائے ترکیبی ناقص ہیں۔ انہوں نے نمک کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے دعوٰی کیا ہے کہ اِس کے استعمال سے متعدد خطرناک امراض پنپ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل سڑک پر کھڑے ٹھیلوں سے پکوڑیاں نہ کھائے کیونکہ اس سے صحتِ عامہ کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں۔ رمیش اروڑا نے پکوڑوں اور پکوڑیوں کی فروخت پر پابندی لگوانے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر خوراک اور چیف سیکرٹری سے ملاقات بھی کی اور اِس اہم ''قومی ایشو‘‘ پر اُنہیں ماہرانہ رائے سے نوازا۔ 
اِسے کہتے ہیں باتیں کروڑوں کی، دکان پکوڑوں کی! بھارتیہ جنتا پارٹی عالمی سیاست و معیشت میں قد بلند کرنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیل رہی ہے اور دوسری طرف اپنی سرزمین پر اُس کے اپنے رہنما گوشت اور پکوڑوں میں الجھے ہوئے ہیں! ایک طرف بھارت نے مِرّیخ کے لیے مشن روانہ کیا ہے اور دوسری طرف بھارتی سرزمین ہی پر کروڑوں بھارتیوں کو غیر ارضی مخلوق قرار دے کر مرکزی دھارے سے الگ رکھنے کا عمل جاری ہے۔ بی جے پی ترقی بھی وہ چاہتی ہے جو صرف اور صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا بھلا کرے۔ بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ غیر مسلموں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو ''شائننگ انڈیا‘‘ کی ایک بھی کرن نصیب نہ ہو۔ نریندر مودی کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو کروڑوں کی باتیں کرکے پکوڑوں کی دکان کھولنے سے باز رکھیں۔ اگر وہ اِس ٹرینڈ کو روکنے میں ناکام رہے تو ساری محنت اکارت جائے گی، بھارت بہت کچھ پا کر بھی محروم ہی رہے گا اور کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی جگہ چکّر کاٹتا رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved