تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     12-06-2017

اقبال‘ ملائیت اور آج کا پاکستان

علامہ اقبال مفکر پاکستان ہیں۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والا یہ شاعر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بھی متمنی تھا اور اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ برصغیر کے چند نیشنلسٹ علماء مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے مخالف تھے۔اقبال خود جدید علوم کے حصول کیلئے پہلے انگلستان اور پھر جرمنی گئے۔ اپنی استاد پروفیسر نکلسن کے کہنے پر کیمبرج میں یہودی فیملی کے ساتھ رہے کیونکہ یہودی کو شر گوشت کھاتے ہیں جو کہ اسلامی مذبوحہ کے قریب قریب ہے۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ایران کی فکری نمو کے بارے میں تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے۔ سینہ عشق رسولﷺ سے منور تھا۔ مغرب کی دانش کو قریب سے نہ صرف دیکھا بلکہ مغربی تہذیب کے منفی پہلو بھی ان کی تنقید کا ہدف بنے۔ خاک مدینہ و نجف ان کی آنکھ کا سرمہ تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اقبال جدیدیت کے بہت بڑے داعی بھی تھے۔
آج کا پاکستان فکری ژولیدگی کا شکار ہے اور اس حالت زار کا سبب یہ ہے کہ ہم فکر اقبال سے دور ہوتے گئے بقول ضمیر جعفری مرحوم ہم سال میں ایک مرتبہ یوم اقبال ضرور مناتے ہیں لیکن باقی کے دن علامہ کو قوالوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ آج کے پاکستان میں جو انتہا پسندی ہمیں نظر آتی ہے وہ گزشتہ تین دہائیوں سے ہماری فکر پر ملائیت کے غلبے کی وجہ سے ہے۔ یہ وہ ملائیت ہے جو ہمارے راسخ العقیدہ قومی شاعر کو پسند نہیں۔
سب سے پہلے ضروری ہے کہ ملائیت کی تعریف کردی جائے۔ اقبال کے نزدیک ملائیت وہ جامد سوچ ہے جو دو سال سے درس نظامی میں پھنسی ہوئی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ عربی کی گردان کے 14 صیغے رٹ کر زبان پر عبور حاصل ہو جائے گا۔ اقبال کے نزدیک اسلام ایک زندہ رود یعنی بہتی ہوئی ندی ہے جس کا پانی ہمیشہ پاک اور صاف رہتا ہے۔ اسلام کے پاس ہماری زندگی کے تمام سوالوں کا جواب ہے اس لئے اسلام کا عالم طائر لا ہوتی نہیں اس کی پرواز نیچی نہیں بلکہ وہ بلند و بالا اڑ کر اجتہاد اور ریسرچ کے ذریعے ان مشکل سے مشکل مسائل کا حل نکال سکتا ہے۔ جو دور حاضر کے مسلمان کو درپیش ہیں۔ علامہ کی فکر میں کوتاہ بین ملا مسلمانوں کے مسائل کا ادراک رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس ان مسائل کا کوئی حل موجود ہے۔
اے مسلمان اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
ملا کا علم محدود ہے لیکن اس کا حل یہ ہے کہ ہر مسلمان اسلام کا علم رکھتا ہواور دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اس کی مکمل دسترس میں ہو۔ اس ضمن میں اقبال کے افکار سرسید احمد خاں سے قریب تر ہیں۔ شاعر مشرق کا آئیڈیل جوان ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے۔ سرسید راسخ العقیدہ مسلمان تھے لیکن ملائیت سے بہت دور۔ وہ مسلمانان ہند کی نجات جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کے حصول میں دیکھتے تھے۔ اقبال کا تصور خودی در اصل خود کفالت کا نام ہے۔ عزت نفس کے تحفظ کا نام ہے اور جس قوم کے ہاتھ میں آزادی کے ستر سال بعد بھی کشکول ہو وہ اقبال کے افکار کی محافظ و امین نہیں ہو سکتی۔
اقبال چاہتے تھے کہ علماء معاملات کے بارے میں دلجمعی سے ریسرچ کریں اجتہاد کریں۔ ماڈرن زمانے کے مسائل کا حل ڈھونڈیں۔ جب سید الوالاعلیٰ مودودی نے اسلام میں جہاد کے تصور پر اپنی ریسرچ پیش کی تو علامہ کو یہ کاوش پسند آئی کیونکہ اپنے مقالے میں مولانا نے اسلام کے جہاد کے اصولوں کا ماڈرن زمانے کے جنگی قوانین سے موازنہ کیا تھا۔ یہ اپنی طرز کا ایک اجتہاد تھا علامہ کی فکر میں آئیڈیل تعلیم یہ تھی جس میں نوجوان مسلمان دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ شاعر مشرق مولانا مودودی کے علمی کام سے متاثر ہوئے تو انہیں پنجاب لانے میں ممدو معاون بنے۔ لہٰذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے نزدیک 1936ء کا ابوالاعلیٰ مودودی ملائیت سے بالاتر تھا۔
اقبال اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ ان سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں تاریخ اسلام کا سب سے اہم واقعہ کیا ہے جواب دیا کہا ایران کا من حیث القوم مشرف بالاسلام ہونا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں نے اہل بیت کی اتنی مدح سرائی کی ہے کہ بعض لوگ میرا اہل تشیع میں شمار کرنے لگے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اہل سنت اور اہل تشیع ایک ہی بوٹے کے دو پھول ہیں۔ آج جب ملائیت ہمیں فرقوں کی ٹکڑیوں میں بانٹنے کی کوشش میں ہے اقبال کے افکار کو نصب العین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
اقبال پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے تھے جہاں جمہوری نظام رائج ہو۔ بعض لوگ اقبال کے چند اشعار سے یہ نتیجہ ا خذ کر لیتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے خلاف تھے اور اسے ایسا نظام سمجھتے تھے جس میں بندوں کو صرف گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا لیکن جب وہ سلطانی جمہور کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں ہر نقش کہن مٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنے لیکچرز یعنی خطبات میں اقبال نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسلامی ریاست میں اقتدار اعلیٰ کی نمائندہ مقننہ یعنی پارلیمنٹ ہوگی۔ علماء کی ایڈوائزری کونسل کے وہ حق میں تھے لیکن علماء کو ویٹو پاور دینے کے خلاف تھے۔ ان کی ہاں قانون سازی کا حتمی حق پارلیمنٹ کے پاس ہے اور وہ منتخب ہونی چاہئے۔
خواہ داعش ہو یا طالبان ہماری ملائیت کا بیانیہ ہی اور ہے۔ یہ لوگ اسلامی ریاستوں کی موجودہ حدود کے مخالف ہیں کہ ان کا مطمح نظر خلافت کا قیام ہے۔ یہ لوگ آئین اور پارلیمنٹ کو بھی نہیں مانتے۔ یہ گم کردہ راہ اقلیت ماضی بعید میں قید ہے۔ اس کا دور حاضر اور اس کے تقاضوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ بقول اقبال 
قوم کیا چیز ہے قوموں کی حقیقت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
اقبال کا ذہن ملائیت کے بارے میں بالکل صاف ہے۔
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
ہمارے لیڈر اقبال کے افکار سے کوسوں دور ہیں۔ یہ سال کے سال نو (9) نومبر کو یوم اقبال پر لکھی لکھائی تقریریں پڑھ دیتے ہیں۔ انگریز ہمیں میرٹ اور گڈ گورننس کا واضح نظام دے کرگیا تھا ہم اسے ہی قائم نہ رکھ سکے۔ گڈ گوننس اور کرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یہ حکمران بھی اس ملا کی طرح ہیں جو اصولوں کی سودے بازی رزق کے حصول کیلئے کرتا ہے اپنی اڑان نیچی کر لیتا ہے۔
فرض کیجئے کہ علامہ کی روح چند روز کیلئے موجودہ پاکستان کے معروضی حالات کا جائزہ لینے آتی ہے سب سے پہلا شاک جو اسے لگے گا وہ یہ ہوگا کہ حکمرانوں سے لے کر عوام تک کی خودی کا فور ہو چکی ہے۔ کشکول کو ہم نہیں توڑ سکے۔د وسرا صدمہ شاعر مشرق کی روح کو یہ ہوگا کہ دنیا کی چار سو اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان میں نہیں۔ تیسرا صدمہ یہ ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ میں اب بھی لنگری لولی قسم کی جمہوریت چل رہی ہے۔ حکمران امیر تر ہو رہے ہیں اور عوام غریب تر۔ اور اگر شاعر مشرق کی روح پارلیمنٹ کا دورہ کرے تو عوامی نمائندوں کے طرز خطابت سے لے کر ان کی اسلامی معلومات سے بے حد مایوس ہوگی۔
مگر عین ممکن ہے کہ بعض چیزوں سے علامہ کی روح مطمئن بھی ہو وہ یہ دیکھ کر خوش ہوگی کہ پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہے جس کا بازو مروڑنا آسان نہیں اور یہ جان کر بھی آسودہ حال ہوگی کہ آبادی کئی گنا بڑھنے کے باوجود پاکستان گندم کی حد تک خود کفیل ہے۔ مفکر پاکستان یہ دیکھ کر بھی خوش ہوں گے کہ افواج پاکستان کے بہادر سپاہی انتہا پسندی کے خلاف ڈٹ کر لڑ رہے ہیں۔ ملائیت پسپا ہو رہی ہے اور رواداری والے اسلام کو برتری پھر سے حاصل ہو رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved