تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-06-2017

وحشت

ایک قدسی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کو جو کچھ عطا ہو گا ، دانش کے طفیل ہوگا۔ جو کچھ وہ کھوئے گا ، ہوش و خرد سے محرومی کے طفیل کھوئے گا ۔ عجیب بات ہے کہ دنیا کی دوسری اقوام تو اس سچائی کا کچھ نہ کچھ ادراک رکھتی ہیں ۔ بس ایک سرکار ؐ کی امت ہی نہیں ، اللہ اس پہ رحم کرے ۔ 
سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے whatsappپر رابطے کی جسارت کیسے کی؟ 
نواز شریف کے عم زاد طارق شفیع کے ساتھ کسی نے اونچی آواز میں کیوں بات کی ؟ 
جے آئی ٹی میں بچّہ اداس کیوں پایا گیا ؟
نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو انتظار کیوں کرایا گیا ؟دیر تک ان سے تفتیش کیوں ہوئی ؟
حسین نواز کے لیے ایمبولینس کیوں بلوائی گئی ؟اس کی تصویر کیوں جاری ہوئی ؟
نون لیگ کے میڈیا سیل کا تازہ ترین اعتراض یہ ہے : نواز شریف کو مجرم ثابت کر نے کے لیے جے آئی ٹی نے رحمٰن ملک سے مدد کی درخواست کر دی ۔ 
whatsappپر بات کرنا جرم کیسے ہو گیا ؟ 
طارق شفیع کی شان میں گستاخی کا گواہ کوئی اور بھی ہے ؟کیا دنیا میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ تفتیش کرنے والوں کا لہجہ کھردرا ہو گیا ہو؟ 
جے آئی ٹی میں حسین نواز اگر افسردہ پائے گئے تو کیا لازماً اس کے ذمہ دار تفتیش کرنے والے ہیں ؟
وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کے اعترافی بیان میں سعید احمد پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں ۔ اس کے باوجود اہم ترین بینک کے سربراہ وہ کیسے بنے ؟ اگر یہ جائز ہے تو چند گھنٹوں کا انتظار کیوں نہیں ؟ 
ایمبولینس کی کہانی جب بہت دن دہرائی جاتی رہی تو طارق فضل نے اعتراف کر لیا کہ یہ کارنامہ خود انہی نے انجام دیا تھا ۔ 
رحمٰن ملک تو کیا ، گواہی کے لیے ان سے بھی زیادہ گئے گزرے آدمی کو کیوں طلب نہیں کیا جا سکتا ؟
خلقِ خدا نالاں ہے ، اکتاہٹ کا شکار ہے ۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ جب یہ مرحلہ آپہنچے تو حکمران کے لیے گنتی کے دن باقی ہوتے ہیں ۔ نواز شریف اب کوئی بڑا اندیشہ نہیں ۔ پنامہ کیس سے بچ بھی نکلے تو کسی اور طرح ڈوب جائیں گے۔
سوال دوسرا ہے ۔ وہی جو ہر حکمران کے آخری دنوں میں جنم لیتا ہے اور کبھی جس کا جواب نہ دیا گیا ۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں سے نجات کے لیے اپوزیشن پارٹیاں متحد تھیں ۔طاہر القادری اور آصف علی زرداری نہیں ،سید ابوالاعلیٰ مودودی ، نواب زادہ نصر اللہ خاں ، ائیر مارشل اصغر خاں ، چوہدری محمد علی، پیر پگاڑا اور میاں ممتاز دولتانہ ایسے سخت کوش، سلیقہ مند اور با ہمت لوگ قوم کے رہنما تھے ۔ اس کے باوجود ڈکٹیٹر سے نجات پانے کی ہیجان انگیز خواہش نے ملک کو توڑ ڈالا ۔ 
مستعفی ہونے کا ایوب خاں نے اعلان کر دیا تھا ۔ صدارتی کی بجائے پارلیمانی نظام اور بنیادی جمہوریت کی جگہ بالغ رائے دہی رائج کرنے پر وہ آمادہ تھے ۔شیخ مجیب الرحمٰن نے پھر چھ نکات پیش کیے ۔ دوسرے لفظوں میں ایک کمزور کنفیڈریشن کی تجویز ۔ ممتاز دولتانہ ان کی پشت پہ آکھڑے ہوئے اور یہ کہا کہ گول میز کانفرنس ان کے بغیر نہیں ہوگی ۔ ادھر اصغر خاں اس کانفرنس سے بھنا کر نکلے ۔پہلے ہی ذوالفقار علی بھٹو نے ہنگامہ اٹھا رکھا تھا ۔ گول میز کانفرنس کو وہ سبوتاژ کرنے پر تلے تھے ۔ پھر مشرقی پاکستان کے کوچہ و بازار میں'' جالو جالو آگن جالو ‘‘ کے نعرے لگاتے مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی نمودار ہوئے ۔ وہی بھاشانی ، مادرِ ملت کے خلاف جنہوں نے ایوب خاں سے ساز باز کر لی تھی ۔ اس کے باوجود کچھ لوگ بھاشانی کو ایک عظیم ترقی پسند کے طور پر پیش کر رہے تھے ۔بھٹو تو خیر تھے ہی فخرِ ایشیا اور قائدِ عوام ، چند سال پہلے اگرچہ وہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے وزیر تھے ۔ انہیں ڈیڈی کہا کرتے ۔ایشیا کا ڈیگال اور بیسویں صدی کا صلاح الدین ایوبی قرا ر دیتے ۔
بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی تھی ۔ عوامی بغاوت پھوٹ پڑی تھی لیکن مغربی پاکستان کے سب سے مقبول رہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو ملک کو متحد کرنے کی بجائے ،اس باب میں کوئی تجویز، کوئی لائحہ ء عمل پیش کرنے کی بجائے جنرل آغا محمد یحییٰ خاں سے انتقالِ اقتدار کا مطالبہ فرما رہے تھے ، پانچ میں سے فقط دو صوبوںمیں اکثریت انہیں حاصل تھی۔1970ء کے انتخابات میں 56فیصد آبادی کے مشرقی پاکستان میں قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی وہ جیت نہ سکے تھے۔
سات برس بعد 1977ء میںایک بار پھر وہی منظر تھا ۔ مفتی محمود مرحوم کی قیادت میں 9جماعتی اپوزیشن اتحادذوالفقار علی بھٹو کی تجویز کردہ ٹیم کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا کہ ائیر مارشل اصغر خاں نے فوج کو مدعو کیا ۔ چیف آف آرمی سٹاف اور دوسرے افسروں سے مطالبہ کیا کہ وزیرِ اعظم کے غیر قانونی احکامات تسلیم کرنے سے انکار کر دیں ۔ پھر مولانا شاہ احمد نورانی بپھر گئے ۔ مذاکرات دراز ہوتے گئے ؛حتیٰ کہ معیشت مرنے لگی ؛حتیٰ کہ لاہور میں فوجی افسروں نے ہجوم پہ گولی چلانے سے انکار کر دیا ؛حتیٰ کہ مارشل لا نافذ ہو گیا۔ 
2007ء میں وکلا کی عظیم الشان عوامی تحریک کے ہنگام جنرل پرویز مشرف کووردی اتارنے کا اعلان کرنا پڑا ۔ چند ماہ قبل ، جسے انہوں نے اپنی دوسری جلد کہا تھا ، سیکنڈ سکن ۔ اب کی بار قدرے احتیاط کا مظاہرہ ہوا ۔ شاندار وکلا تحریک کے ہنگام سیاسی لیڈر ہوشمندی کا دامن تھامے رہے ؛چنانچہ فوجی اقتدار سے ہنر مندی کے ساتھ نجات پا لی گئی ۔ یہ الگ بات کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل نے آصف علی زرداری ایسے شخص کی راہ ہموار کردی ، جس نے ملک کو چراگاہ بنا دیا ۔ زرداری کے ظاہر و باطن سے آشنانون لیگ کچھ حمیت کا مظاہرہ کرتی ۔دوسری پارٹیوں سے مفاہمت کر لیتی تو پانچ سال تک ملک ایسی ذلت سے دوچار نہ رہتا ۔ 
بالکل جمہوری ، بالکل شائستہ انداز میں تبدیلی ایک بار پھر ممکن ہے ۔ قوم مگر ایک بار پھر ہیجان اور وحشت کا شکار ہے ۔ عجیب و غریب کردار اس میں ابھر آئے ہیں ۔ شیخ محمد رشید ، جو ہر تین ماہ بعد بہت بڑی قربانی کی خبر دیتے ہیں ۔ اور اب جنابِ طاہر القادری نمودار ہوئے ہیں ۔تازہ ترین ارشاد ان کا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی نون لیگ کا الیکشن سیل ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تحقیقاتی کمیٹی کو تشکیل دینے والی سپریم کورٹ ، اس پر اعتبار رکھنے والی ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں ، وکلا کی انجمنیں ، ملک بھر کے دانشور بلکہ دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ احمقوں کے ٹولے ہیں ۔ دنیا بھر کے چھ ارب انسانوں میں سے عقل اگر کسی کی کھوپڑی میں ہے تو وہ فقط شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ طاہر القادری ہیں ۔ 
ایک قدسی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کو جو کچھ عطا ہو گا ، دانش کے طفیل ہوگا ۔ جو کچھ وہ کھوئے گا ، ہوش و خرد سے محرومی کے طفیل کھوئے گا ۔ عجیب بات ہے کہ دنیا کی دوسری اقوام تو اس سچائی کا کچھ نہ کچھ ادراک رکھتی ہیں ۔ بس ایک سرکار ؐ کی امت ہی نہیں ، اللہ اس پہ رحم کرے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved