تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     13-06-2017

انڈا چرانے پر قید کی سزا

ایسٹر کے تہوار پر دُنیا بھر میں مسیحی افراد کروڑوں کی تعداد میں چاکلیٹ کے بنے انڈے خریدتے ہیں اور ایک دوسرے کو بطور تبرک تحفہ میں دیتے ہیں۔ عام تاثر کے برعکس ایسٹر کا تہوار شمسی نہیں بلکہ قمری کیلنڈر کے مطابق منایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال اس کی تاریخ بدل جاتی ہے۔ جس طرح ہم اکیسویں صدی میں بھی ہر سال ماہ رمضان کے آغاز اور عید الفطر کی صورت میں اختتام پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ یورپ میں بھی بالکل اسی طرح ایک ہزار سال پہلے مسیحی افراد بھی ایسٹر کے تہوار کو خوش سگالی کی بجائے بڑی بدمزگی سے مناتے تھے ۔ چونکہ وہ یہ طے نہ کر پاتے تھے کہ ایسٹر کا تہوار ہوگا کب؟ وہ زمانہ رومن کیتھولک فرقہ کی مکمل بالادستی اور پوپ کی بلا شرکت غیرے بادشاہت کا تھا۔ اس نظام کے جتنے بھی نقصان ہوں ایک بڑا فائدہ یہ ہوا (اور ایک لحاظ سے آج بھی ہو رہا ہے) کہ مسیحی چرچ کو مسلمہ قیادت مل گئی۔ اُس وقت کے پوپ نے ہزاروں پادریوں کو روم میں اپنے صدر مقام Vatican بلایااور وہاں سے جانے کی اجازت نہ دی جب تک کہ ایسٹر کے تہوار کی تاریخ مقرر کرنے کا فارمولا طے نہ پا گیا۔ ایک ہزار سال گزر گئے مگر ایسٹرکا تہوار اپریل میں دُنیا بھر میں ایک ہی دن منایا جاتا ہے۔ 24 مئی کو برطانیہ کے روزنامہ گارڈین میں یہ خبر شائع ہوئی کہ برازیل میں چار بچوں کی ماں ماریہ کو تین سال قبل ایک دُکان سے چاکلیٹ سے بنا انڈا چرانے کے جرم میں عدالت نے قید کی سزا دی۔ اور وہ بھی تین سال دو ماہ اور تین دن۔ گرفتار ی کے بعد اور مقدمہ چلنے تک وہ پانچ ماہ جیل میں رہی اُس کا چوتھا بچہ جیل میں پیدا ہوا۔ برازیل وہ ملک ہے جہاں حال ہی میں اربوں ڈالروں کی کرپشن کا جرم ثابت ہونے پر خاتون صدر کو برطرف کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اُن کا جانشین بھی کرپشن کے جرم میں مواخذہ کا منتظر ہے۔ یہ حال صرف صدر مملکت کا نہیں بلکہ (پاکستان کی طرح) وہاں کے سارے حکمران طبقہ کا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ حال ہی میں برازیل اور جنوبی کوریا کے جو صدور برطرف کئے گئے وہ دونوں خواتین تھیں۔ برازیل کے اخبارات میں شائع ہونے والے اداریوں نے اس نکتہ کو اُجاگر کیا کہ اس ملک میں اربوں ڈالر چرانے والوں کا احتساب نہیں ہوتا اور اُنہیں کوئی سزا نہیں ملتی وہاں نصف ڈالر کا چاکلیٹی انڈا چرانے پر تین سال سے زیادہ قید کی سزا دی گئی اور وہ بھی چار بچوں (جن میں سے ایک نوزائیدہ ہے) کی غریب ماں کو۔ یہ تو تھا برازیل کا ذکر جو ان دنوں (وطن عزیز کی طرح) معاشی اور سیاسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بقول اقبال بھنور کی آنکھ اُس موج کی قسمت پر روتی ہے جو دریا سے اُٹھی مگر ساحل سے نہ ٹکرائی۔ وہ ساحل سے ٹکرائے تو بات آگے بڑھے۔ نہ سکون نہ جمود سے بات بنتی ہے اور نہ کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرہ میں میکانکی طور پر گردش کرنے سے۔
مناسب ہوگاکہ ہم اپنا موازنہ فرانس سے کریں۔ صدارتی انتخاب میں جس 39 سالہ نوجوان کو کامیابی حاصل ہوئی وہ کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کا نامزد کردہ نہیں بلکہ آزاد اُمیدوار تھا۔ اُس نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جن 23 افراد کو وزارتی ذمہ داریاں سونپیں اُن میں سے چار کا تعلق سوشلسٹ پارٹی‘ دو کا بائیں بازو کی ریڈیکل پارٹی‘ تین کا تعلق دائیں بازو کی ری پبلکن تین کا تعلق دائیں اور بائیں بازو کی درمیانی ماڈرن پارٹی اور گیارہ کا تعلق سیاسی جماعتوں کی بجائے سول سوسائٹی کے مختلف شعبوں سے ہے۔ ایک خاتون Sylvie Golaed (یورپی پارلیمنٹ کی رُکن جرمن اور انگریزی زبان پر عبور رکھنے والی) کو وزیر دفاع بنایا گیا۔ Nicolas Hulot ٹیلی ویژن پر اپنے جوہر دکھانے کی وجہ سے مشہور اور مقبول عام شخصیت بن چکے ہیں۔ اُنہوں نے عمر بھر قدیم ماحول کی حفاظت کے لئے کام کیا ہے۔ وہ پہلے دوبار دو صدر کی طرف سے وزارت کی پیشکش کو نامنظور کر چکے ہیں۔ وہ اب صدر عمانوئیل میکرون کی کابینہ میں بطور وزیر ماحولیات شامل ہوئے ہیں۔ نئی کابینہ ایک قسم کی قوسِ قزح ہے جو دائیں اور بازو کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ کیا اس وقت ہماری (یعنی اہل پاکستان کی) اس سے بڑی کوئی اور ضرورت ہو سکتی ہے؟ میرے قارئین ناراض نہ ہوں مجھے اس تجویز کی تکرار کی اجازت دیں کہ ہمیں بھی اگلے پانچ سال کے لئے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر مشتمل (جس میں فوج کی نمائندگی بھی ہو) قومی حکومت بنانی چاہئے اور وہ بھی صدارتی نظام کے تحت۔ ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام کی ناکامی کو جمہوری نظام کی ناکامی سمجھا جاتاہے۔ جو ہر گزدرست نہیں۔ میں ڈاکٹر عطا ء الرحمن کا مشکور ہوں کہ وہ صدارتی نظام کی حمایت میں اپنا موقف اتنے اچھے دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ (ماسوائے ڈاکٹر مجاہد منصوری کے ) ہمارے ذہین طبقہ کی اکثریت کو اُن کے ساتھ اختلاف کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سوچنے سمجھنے والے بہترین دماغ اور ماہرین معیشت وقت قیام میں کھڑے ہونے کی بجائے حالت سجود میں ہیں۔ اور دم بخود ہیں۔ یہ کالم نگار بڑے ادب کے ساتھ ان کو میر تقی میر کے الفاظ میں یہی کہہ سکتا ہے۔ ع
مژگان کو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
کالم اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا کہ میرے کانوں میں ایک موذی مکڑی یا ٹڈی (Weevil) کے پروں کی بھنبنھاہٹ کی آواز آئی۔ غور سے سنا تو پتہ چلا کہ آواز شمالی افریقہ کے ملک تونس سے آرہی ہے۔ اس مکڑی نے تونس میں کھجور کے درختوں پر یلغار کر دی ہے۔ حملہ اتنا شدید ہے کہ تونس میں کھجور اُگانے اور فروخت کرنے والوں اور حکومت کے بڑے افسروں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں اور جوں جوں اس مکڑی کے حملہ میںشدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اُن کے چہرے کا رنگ فق ہوتا جا رہا ہے۔ مصدقہ اطلاع کے مطابق تونس میں کھجور کے کل درختوں کی تعداد54 لاکھ ہے۔ جو ہر سال 231 ملین ڈالر (179 ملین پائونڈ) کی برآمدات کمانے کا کارنامہ سرانجام دیتے ہیں۔ 2015 میں تونس کے ساحل پر بدترین دہشت گردی کے بعد سیاحت برُ ی طرح متاثر ہوئی ۔ بے روز گاری بڑھ گئی اور معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اِن حالات میں کھجور کی برآمدات میں کمی اُونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوگی۔ آیئے ہم شمالی افریقہ سے جنوب مغرب کی طرف سفر کریں اور ایک نظر ایک اور بدنصیب ملک نائیجریا پر ڈالیں جہاں سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں حکومت نے دہشت گردوں بوکو حرام کے حملوں کی وجہ سے قحط کا شکار ہونے والے لوگوں کی مدد کے لئے جو خوراک بھیجی اُس میں سے حکومت کے دو افسروں نے چاولوں کی 180 بوریاں چرا لیں۔ دُنیا میں آپ جہاں بھی جائیں وہاں بچوں کے پارک میں بچوں کی تفریح کے لئے لگی ہوئی سلائیڈ ضرور دیکھیں گے۔ بچے اُس پر پھسلنے سے اتنے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ دوڑ دوڑ کر دوسری طرف لگی ہوئی سیڑھی سے اُوپر چڑھتے ہیں۔ جو بچہ ایک دفعہ اُس پر بیٹھ جائے اور پھسلنا شروع کر دے تو وہ درمیان میں رُکنا چاہے بھی تو رُک نہیں سکتا۔ پاکستان اور نائیجریا کی طرح جو ملک بھی اخلاقی دیوالیہ پن‘ رشوت ستانی‘ بدعنوانی اور کرپشن کا شکار ہو جائے۔ تو سمجھ لیں کہ وہ Slide پر بیٹھا نیچے کی طرف پھسل رہا ہے‘ راستہ میں نہ کوئی بریک اور نہ کوئی فل سٹاپ۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان کا بابرکت مہینہ بھی اشیاء فروخت کرنے والوں کو قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنے سے نہیں روک سکتا۔ وہ دُکاندار جو سارے روزے رکھے گا۔ پانچ کی پانچ نمازیں پڑھے گا‘ وہ بھی ذخیرہ اندوزی کرنے اور گاہکوں کی کھال اتارنے سے باز نہیں آئے گا۔ قول و عمل میں اس بڑے تضاد اور منافقت کے بدترین اظہار سے ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں اور بار بار باقاعدگی سے دیتے ہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اسے سمجھنے میں کوئی دقت پیش آئے۔ ہمارے ملک میں سالانہ ایک ہزار روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ ماہ رمضان میںاور باقی گیارہ مہینوں میں بھی۔ کیا ماہ رمضان کا احترام صرف دن کو کھانے پینے سے پرہیز کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ یا وہ ہمیں ہر اُس کام سے رُوکتا ہے جو دُنیا بھر میں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔میرے ذہین قارئین اس سوال کا جواب جانتے ہیں‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved