9 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام کے چھبیس سالہ فاروق احمد ڈار کو فوجی جیپ کے ہڈ پر انسانی ڈھال کے طور پر باندھنے والے بھارتی فوج کے میجر لیتل گوگوئی کو آرمی چیف بپن راوت نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ میجر گوگوئی کی جگہ اگر وہ خود ہوتے تو وہی کچھ کرتے جو اُس نے کیا ہے ۔سوچئے کہ اگرقابض فوج کے سربراہ کی اس قسم کی سوچ ہو گی تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں بسنے والے محکوم اور بے بس کشمیری بچوں اور عورتوں سے کس قسم کی درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہوگا۔ جس فاشسٹ قوت کیلئے کوئی قانون نہ رہے کوئی اخلاق نہ رہے جسے جواب طلبی انعامات اور اعزازات کی صورت میں ملے وہ کس درجے تک وحشت اور بر بریت کو اپنا اوڑھنابچھوڑنا بنا تی ہو گی؟۔ اس فوج کے جبری قبضے میں اگر ایک ایسی قوم ہو جس سے نفرت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہو تو پھر اس کی درندگی اور خرافات کی تمام حدیں پھلانگنا روز کا معمول بن کر رہ جاتاہے ۔ بھارت کا آرمی چیف کہہ رہا ہے کہ میجر نے اگر کوئی جرم کیا بھی ہو گا تو اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی جائے گی۔سوچئے یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جس نے میجر لیتل کے خلاف تشکیل دی گئی انکوائری کمیٹی کی جانب سے دی جانے والی سزا کی توثیق کرنا تھی۔ کاش ہمارا کوئی سفیر کسی تقریب میں اس ملک کے فوجی سربراہ سے پوچھ سکے جناب والا بطور آرمی چیف آپ بھی ایک انسان کو جیپ کے ہڈ پر باندھ کر انڈین آرمی چیف کی طرح اسے انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کرنا پسند کریں گے؟۔ کیا وزیر اعظم ہائوس جرأت کرے گا کہ میجر لیتل کی جیپ کے ہڈ پر بندھے فاروق ڈار کی تصویر کے ساتھ دنیا کے با اثر اخبارات میں بھارت کی اس روگ آرمی کے اشتہار دے؟۔ اگر کارگل کی جنگ میں بھارت کی مدد کرنے کیلئے 1999ء میں امریکی اخبارات میں اپنی ہی فوج کے خلاف روگ آرمی کے اشتہارات دیئے جا سکتے ہیں تو بے بس کشمیریوں کیلئے کیوں نہیں ؟۔یا یہی سمجھ لیا جائے کہ ان کا ٹارگٹ نریندرمودی نہیں بلکہ عمران خان ہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام کے گائوں چھل کے 26 سالہ فاروق احمد ڈار نے دنیا بھر کی عدالتوں، صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کیلئے ہمہ وقت تڑپنے والی تمام این جی اوز اور جانوروں کی بہبود سے متعلق تنظیموں اور اداروں سے اپیل کی ہے کہ کیا میں کوئی جانور تھا کوئی پتھر تھا یا کوئی لاش تھا جو بھارتی فوج کا میجر لیتل گوگوئی اپنی فوجی جیپ کے ہڈ پرمجھے انسانی ڈھال کے طور پرباندھ کر کشمیری نوجوانوں کے جلوس پر فائرنگ کراتا رہا؟۔ بھارت کے گن گانے والوں اور لاپتہ افراد کے نام پر پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے والے صحافیوں سمیت تمام امریکی اور بھارت نواز دانشوروں سے کہناچاہوں گا۔ جناب والا آپ ہمیشہ پاکستانی فوج کو روگ آرمی کے تبرے بھیجتے رہتے ہیں‘ فوجی جیپ کے ہڈ پر بندھے فاروق ڈار کی تصویر تو آپ نے دیکھ لی ہو گی یہ ہوتی ہےROGUE ARMY۔ یہ ہوتے ہیں کسی بھی روگ آرمی کے کرتوت۔ یہ ہوتی ہے درندگی اور وحشت یہ ہوتی ہے کسی بھی روگ آرمی کی پہچان ۔۔۔۔ سفاکیت کی حد بھارت کے آرمی چیف پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی جے گائو ماتا کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اس طرح سامنے آئے کہ بھارتی فوج کے میجر کی خونریزی کی کھل کر داد دینا شروع ہو گئے۔ نریندر مودی کو مسلم کشی کی یہ نئی روایت اس قدر پسند آئی کہ آرمی چیف بپن راوت کو حکم دیا کہ اس میجر کی انوکھی اور شرمناک درندگی کے بدلے میں اسے خصوصی ایوارڈ سے نواز ا جائے ۔ Which Law in the country makes use of human shield legal یہ ہے وہ سوال جو فاروق احمد ڈار نے ہندوستان ٹائمز کے نمائندے سے پوچھا۔۔۔۔میں بھارت کے آئین اور سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے کرنے والے ان تمام لوگوں سے پوچھ رہا ہوں جو عدالت عالیہ کی کرسی پر ہیں یا قانون بنانے اور اس کی حفاظت کرنے والی پارلیمنٹ کے اندر براجمان ہیں۔۔۔اگر ان میں سے کسی کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں تو پھر بتائیں‘ کیا میں لاٹھی لے کر ان لوگوں پر پل پڑوں جو اس میجر کو اعزازات سے نواز رہے ہیں؟۔ کیا میں کوئی بھینس یا بیل تھا جو مجھے اس طرح جانوروں کی طرح باندھا گیا؟۔ میں نے تو آج تک کبھی کسی مظاہرے میں بھی شرکت نہیں کی تھی بلکہ میں تو ان لوگوں میں سے تھا جس نے کشمیری حریت پسندوں کے بائیکاٹ کی اپیل کے با وجود9 اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں وادی کی حکمران جماعتPDP کے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا تھا اور مجھے ہی بھارتی فوج نے پکڑ کرپورے علاقے میں ہزیمت اور تماشا بناتے ہوئے کئی گھنٹے تک باندھ کر گلیوں بازاروں میں گھمایا‘ اس طرح مجھے جو تکلیف ہوئی اس سے ابھی تک میرے پٹھے زخمی ہیں۔ جن رسیوں سے باندھ کر مجھے28 کلومیٹر تک گھماتے رہے وہ رسیاں میرے گوشت میں چھریوں کی طرح اتر گئیں ۔۔۔۔کیا میں بھی اس ظلم پر دوسرے کشمیری نوجوانوں کی طرح بدلہ لینے کیلئے ہتھیار اٹھا لوں۔۔۔شائد معصوم نوجوانوں کو کشمیر ی مجاہد اسی طرح بنایا جاتا ہے ۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو کہا گیا کہ ہماری جمہوریت اور آئین پر حملہ ہوا ہے ہم اس کا بدلہ لیں گے اور پھر بھارت اپنی فوجیں پاکستانی سرحدوں پر لے آیا تھا۔۔۔لیکن میجر لیتل گوگوئی نے جس طرح مجھے
انسانی شیلڈ کے طور پر اپنی جیپ کے آگے باندھا ہے کیا اس نے بھارتی آئین اور قانون پر حملہ نہیں کیا؟۔ آج مجھے اپنے پاکستانی بھائیوں سے بھی کچھ کہنا ہے کہ ہندوئوں کا نیشنل ازم دیکھئے کہ میجر لیتل گوگوئی کے گائوں نمروپ کے بلاک ایف جو گوہاٹی سے کوئی480 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس کے سواگت کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ بھارت بھر کا میڈیا اور لوگ دور دور سے اس میجر کے گھر کی کوریج کیلئے امڈے چلے آ رہے ہیںاور ایک ہم ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر اپنی فوج کے لتے لینے شروع کر دیتے ہیں۔ لیتل گوگوئی اٹھارہ سال کی عمر میں ہی بھارتی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوا اور پھر9 سال بعد وہ فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مسلم دشمنی کی حد دیکھئے کہ دور دور سے آنے والے انتہا پسند ہندو ئوں نے میجر گوگوئی کے گھر کے درشن کرتے ہوئے اس کے ماتا پتا دھرمسوارگوگوئی اور سورن لتا گوگوئی کے گھر کے باہر دیپ جلاتے ہوئے ان کی پوجا شروع کر دی ہے اور ہم ہیں کہ ذرا سی بات پر لٹھ لئے اپنی فوج کے پیچھے بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں!!