تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-06-2017

مچھر چھاننے اور اونٹ نگلنے والے

کتنے بادشاہ تھے، جو مٹی میں مل کر مٹی ہو گئے۔ ان سے بھی زیادہ بدقسمت وہ درباری ، جنہوں نے بندوں کی پوجا کی۔ مگر افسوس کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
سارے اقوال سبھی کو یاد ہیں ۔ رسولِ اکرمؐ کے فرامین اور قرآن کے ارشادات بھی۔ اب انہیں کیا ہوا ؟ اب وہ ان کا حوالہ کیوں نہیں دیتے ؟
عالی جنابؐ کا قولِ مبارک وہ سنایا کرتے تھے ، یوسف رضا گیلانی جب عدالت کے کٹہرے میں کھڑے تھے یا ان کے فرزندانِ ارجمند: میری بیٹی فاطمہؓ بھی اگر چوری کرے تو خدا کی قسم میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں ۔ آج جب میاں محمد نواز شریف کا احتساب ہے تو سرکارؐ انہیں کیوں یاد نہیں آتے ؟ کیوں آپ کی عالی قدر حدیث وہ نہیں دہراتے : پچھلی قومیں اس لیے برباد ہو گئیں کہ وہ کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو چھوڑ دیا کرتی تھیں ۔ اب خلفائِ راشدین کے واقعات انہیں کیوں یاد نہیں آتے ؟
تعصب کیا اتنا شدید بھی ہوتا ہے؟ اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا ایسی خیرہ کن چمک ہے ؟ بصارت ہی جاتی رہے ، بصیرت ہی رخصت ہو ؟ خدانخواستہ کیا یہ سم و زر کی چمک ہے یا اقتدار میں شرکت کا نشہ ؟ چھوٹے چھوٹے حقیر مفادات کہ عمر بھر کے سیکھے سکھائے ، پڑھے پڑھائے، بار بار دہرائے گئے آموختے یکسر بھول گئے ؟
متاعِ دین و ایماں لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہئِ خوں ریز ہے ساقی
انصاف ملنا چاہیے ۔ جی ہاں ، شریف خاندان کو انصاف ملنا چاہیے ۔ کیا فقط اسی کو، پاکستانی عوام کو نہیں ، عشروں سے بے دردی کے ساتھ جنہیں لوٹا جا رہا ہے ۔ جن کے مریض ہسپتالوں کے برآمدوں میں مرتے ہیں ۔ جن کی مائیں ہسپتالوں کے صحن میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ جس قوم کے دو کروڑ بچے درس گاہوں سے محروم ہیں۔ بائیس کروڑ میں سے کم از کم پندرہ کروڑ انسان پینے کے صاف پانی سے ۔ ہر روز ہزاروں بچّے، بوڑھے اور عورتیں یرقان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ستم کبھی کسی اور دیار میں ڈھایا گیا ؟
کیا روئے زمین پر ایسی کوئی دوسری قوم بھی موجود ہے ، دن دیہاڑے جس کے ساتھ یہ سلوک ہو... اور اس کے دانشور لٹیروں کا دفاع کریں ؟ کیا کسی اور سرزمین پر بھی یہ سانحہ برپا ہے کہ اس کے حکمران، اس کے اپوزیشن لیڈر اور تاجر پے بہ پے اپنا سرمایہ سمندر پار بھیج رہے ہوں ۔ کم از کم پچیس ملین ڈالر روزانہ ۔ کتنے لوگ روزگار کے مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں؟ بھوکے اور فریاد کرتے ہوئے ۔ رحمۃ اللعالمینؐ کا یہ قول کیسے انہوں نے بھلا دیا: جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا، اس بستی کی حفاظت سے اللہ بے نیاز ہے۔
تمام تر ذہانتیں تفتیش کرنے والوں کے خلاف ہی کیوں بروئے کار ہیں ؟ جن پر الزام ہے... اور پانچ میں سے دو جج پوری طرح تائید کر چکے ، انہی کو معصوم ثابت کرنے کی ایسی والہانہ کوشش کیوں ہے ؟
صحافت کی تاریخ میں لوگ کبھی اس قدر بے حس بھی ہوئے ہوں گے ؟ اس قدر سفاک ، بے رحم اور پتھر دل ؟
عمرو بن العاصؓؓ کے فرزند نے ایک جواں سال کو مارا پیٹا۔ جی ہاں ، مارا پیٹا ، قتل نہیں کر ڈالا، اس کی جائیداد پہ قبضہ کیا اور نہ سرکاری خزانہ لوٹا۔ حج کے بابرکت ایام میں مظلوم کی فریاد سنی گئی۔ امیرالمومنین عمر ابن خطاب ؓ نے لڑکے کو حکم دیا: مار، اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے کو مار... اور اتنا ہی ، جس قدر اس نے تجھے پیٹا تھا۔ عمرو بن العاصؓ کون تھے؟ فاتحِ مصر، چار ہزار مجاہدین کے ساتھ نیل کی سب وادیوں پہ اسلام کا علم انہوں نے گاڑ دیا تھا۔
ان کڑے تیوروں کا آدمی ، فاروقِ اعظمؓ کو ایک بار جس کا مکتوب ملا تھا : تم مجھے جانتے ہو، میں تمہیں جانتا ہوں ۔ تم میرے باپ کو جانتے ہو اور میں تمہارے باپ کو جانتا ہوں ۔ مجھے اس طرح کے خط نہ لکھا کرو۔ یہ ٹیکس وصولی کی بحث تھی ۔ امیرالمومنینؓ نے گورنر کو بہانہ تراشنے کا مرتکب ٹھہرایا تھا۔ جواب میں انہوں نے کہا : صدیوں کی غلامی اور بھوک نے مصریوں کو مار ڈالا ہے۔ نیل کی طغیانیاں ان کی فصلیں بہا لے جاتی ہیں ۔ ان کا حق مدینہ والوں پہ فائق ہے اور مجاہدینِ اسلام پر بھی۔ عمرؓ کو ان کا جواب قرینِ انصاف لگا اور انہوں نے چپ سادھ لی۔
آج مگر عمرو بن العاصؓ کے چپ رہنے کی باری تھی کہ بیٹا ان کا قصوروار تھا۔ وہ کہ خالد بن ولیدؓ کے ساتھ جب وہ سرکارؐ کے شہر میں تشریف لائے تھے تو آپؐ نے ارشاد کیا تھا : مکّہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے دامن میں ڈال دیے ہیں۔
اڑھائی کروڑ روپے، جی ہاں اڑھائی کروڑ روپے وزیرِ اعظم کے ایک غسل خانے پر اٹھ گئے۔ مبلغینِ کرام میں سے کسی کو یاد نہ آیا کہ ایک چھوٹی سی ڈیوڑھی تعمیر کرنے اور ایک دربان ایستادہ کرنے پر کاتبِ وحی امیر معاویہؓ کو امیر المومنینؓ نے دارالحکومت طلب کیا تھا۔ ہاتھ ان کے پشت پر بندھے تھے۔ ملزم کی حیثیت سے بارہ سو کلومیٹر کا سفر اونٹ کی پیٹھ پر انہوں نے طے کیا تھا۔ معاف بھی کر دیا تو یہ کہا ''یہ عربوں کا کسریٰ ہے۔‘‘ ہمارے عہد کے یہ واعظ لوگ کیسے ہیں؟ سیدنا عیسیٰ ؑ نے ارشاد کیا تھا : وہ مچھر چھانتے اور اونٹ نگل جاتے ہیں۔
جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے۔ عبدالمالک نام کے ایک نوجوان کا ذکر باقی رہے گا۔ اس کے باپ کا نام عمرؓ تھا، عمر بن عبدالعزیزؓ۔ سریر آرائے اقتدار ہو چکے تو فرض کے بوجھ سے دبے جاتے تھے۔ شب بھر جاگتے رہے، سحر مسلمانوں کو جمع کیا اور اپنی بیعت سے آزاد کر دیا۔ آمادہ نہ ہوئے جب تک اہلِ ایمان نے اصرار نہ کیا۔ دوپہر ہونے کو آئی تو تکان سے نڈھال تھے۔ کہا : کچھ دیر سو لوں۔ فرزند عبدالمالک سامنے آ کھڑا ہوا ۔ ابّا! کیا آپ کو یقین ہے کہ سو کر آپ زندہ اٹھیں گے۔ ابھی سے ظالمانہ فرامین منسوخ کرنے کا آغاز کیجیے۔
ایک دوست کو امیرالمومنینؓ نے دور دراز کے اس قصبے میں بھیجا، جہاں اب ان کا یہ فرزند مقیم تھا۔ شب کو لڑکا تہجدکے لیے اٹھا اور تلاوت میں گریہ کرتا رہا۔ دن چڑھا تو ایک رفیق نے آ کر اطلاع دی کہ حمام خالی کرا لیا گیا ہے۔ باپ کے سنگھی نے ''شہزادے‘‘ کا ہاتھ پکڑ لیا: تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے ؟ دوسروں سے برتر اور بالا تم کیسے ہو گئے؟ لڑکے نے معافی مانگی اور التجا کی کہ اس کے باپ کو نہ بتایا جائے۔ ارب پتی حسین نواز کی اداسی اور توہین پر رونے والے کیا بتائیں گے کہ کتنے بڑے جرم کا مرتکب وہ نوجوان ہوا تھا؟
جمہوریت نہیں، اس ملک کا تصور پیش کرنے والے علمی مجدّد نے کہا تھا: روحانی جمہوریت۔ انسانی مساوات، اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کے ساتھ... اور 1930ء کے خطبۂ الٰہ آباد میں آزادیٔ وطن کا تصور پیش کرتے ہوئے، عرب ملوکیت کے اثرات سے خبردار رہنے کا مشورہ دیا تھا۔
کتنے بادشاہ تھے جو مٹی میں مل کر مٹی ہو گئے۔ ان سے بھی زیادہ بدقسمت وہ درباری ، جنہوں نے بندوں کی پوجا کی۔ مگر افسوس کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved