سائنسی انداز میں پاکستان میں سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دینے کا آغاز پہلے مارشل لا کے ساتھ ہی فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔ ان کے سادہ ذہن میں یہ بات نہیں بیٹھتی تھی کہ سیاستدان اور سیاسی کارکن بغیر کسی مالی فائدے کے حکومت حاصل کرنے کی فکر میں کیوں رہتے ہیں۔ ان کے گرد و پیش میں سے کسی نے انہیں سجھایا کہ یہ لوگ حکومت حاصل کرکے سرکاری مال سے اپنی جیبیں بھرتے ہیں، ان کے نظریات، جمہوریت اور انتخابات دراصل ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ''دلیل‘‘ جنرل ایوب خان کی تسکین کے لیے کافی تھی لہٰذا انہوں نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو جائز ثابت کرنے کے لیے ایبڈو (منتخب اداروں کے خاتمے کا آرڈیننس) جاری کیا اور اس کے تحت سیاستدانوں کے منہ پر جھوٹ کی کالک پوتی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بدعنوان قرار دے کر نااہلی کی سولی پر چڑھا دیا گیا۔ اس قانون کی زد میں آنے والے یوں تو چھ ہزار سے زائد لوگ تھے لیکن یہ نااہلی اس وقت مذاق بن کر رہ گئی جب اس کا اطلاق گورنر جنرل اور سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین، سابق سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیزالدین خان، انیس سو چالیس میں قراردادِ پاکستان کے محرک اے کے فضل حق اور سابق وزیر اعظم پاکستان حسین شہید سہروردی پر کیا گیا۔ حسین شہید سہروردی پر کچھ خاص کرم بھی ہوا کہ انہیں انیس سو باسٹھ میں ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بھی قرار دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان کو ایک موہوم تصور سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے کر آئے تھے اور اسے ایک جمہوری ریاست کے طور پر آگے بڑھا رہے تھے۔ ان کے اندازِ سیاست سے شاید بہت سے لوگوں کو اختلاف تھا مگر ان لوگوں پر جب بدعنوانی کی کیچڑ اچھالی گئی تو یہ پلٹ کر جنرل ایوب کے چہرے اور اس احتسابی عمل پر ہی پڑی۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے ذاتی اقتدار کو طول دینے کے لیے احتساب اور سکیورٹی رسک قرار دینے کا جو نسخہء کیمیا تیار کیا تھا اس کی افادیت ان کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ اپنے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے یہ نسخہ دیگر آمروں نے تو استعمال کیا سو کیا، خود نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ایک دوسرے کے خلاف خوب استعمال کیا اور اپنے اپنے حصے کی خجالت سمیٹی۔ جنرل پرویز مشرف نے احتساب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ایک قدم بڑھ کر استعمال کیا۔ انہوں نے ہر اس شخص کے گلے میں احتساب کا آہنی طوق ڈال دیا جو جمہوریت کو پاکستان میں واحد طرزِ حکومت سمجھتا تھا۔ جس نے ان کی بیعت کر لی، اسے بے گناہ قرار دے کر اپنے دستر خوان پر ریزہ چنی کی اجازت مرحمت فرما دی۔
انیس سو انسٹھ سے جاری اس احتساب سرکس کو دھچکا دو ہزار چھ میں لگا جب نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں بیٹھ کر میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے طے کر دیا کہ آئندہ احتساب کو سیاست کا حربہ نہ بنائیں گے۔ اس میثاق کے بعد احتساب کے ڈرامے میں ایک وقفہ تو ضرور آیا لیکن ایوب خانی قوتوں کے ہاتھ پاناما لیکس کی شکل میں آتش بازی کا نیا سامان آ گیا۔ ان قوتوں نے مل جل کر ایسے حالات پیدا کر دیے کہ دنیا بھر میں جو دستاویزات چند روزہ سیاسی ہلچل کے بعد اپنی موت آپ مر گئیں، انہیں عدالتوں تک لے جانے کا کارنامہ پاکستان میں سرانجام دے دیا گیا۔ وہ کاغذات جن کی بنیاد پر دنیا کے کسی ملک میں ایک ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی، ان پر پاکستان میں فیصلے لکھے گئے۔ تفتیش ایسی کی گئی کہ اس میں پوچھا جانے والا نیا ترین سوال بھی کم از کم گیارہ سال پہلے کا ہے جبکہ اصل معاملہ کئی عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ احتساب کا سرکس دو ہزار چھ کے دھچکے سے سنبھل گیا ہے، پہلے اس میں صرف بازیگر ہی کرتب دکھاتے تھے، اب جادوگر بھی ہیں جو رسی کے ٹکڑوں کو سانپ کر دکھاتے ہیں۔ اسی لیے اب یہ سرکس کوئی تماشا نہیں، جادو کا کارخانہ لگتا ہے۔
واقعاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاناما پیپرز کا معاملہ جنرل پرویز مشرف پر دستور شکنی کا مقدمہ قائم ہونے کے تقریباً تین سال بعد آیا‘ مگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان میں علت و معلول کا رشتہ نظر آتا ہے۔ علّت یہ کہ جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ درج ہونے کے بعد پاکستانی سیاست میں دھرنوں کا تلاطم
آ گیا جو دستور کے آرٹیکل چھ (جس میں دستور شکنی کی سزا درج ہے) کو بہا کر لے گیا۔ دستور شکنی کا ملزم دندناتا ہوا ملک سے باہر چلا گیا‘ جہاں بیٹھ کر وہ ہماری جمہوریت کا مذاق اڑاتا ہے۔ معلول یہ کہ پرویز مشرف تو ایک دن بھی عدالت میں حاضر نہ ہوا مگر مدعی سے تفتیش شروع ہو گئی۔ واقعاتی اعتبار سے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موت سے جڑے میمو گیٹ اور صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھنے کے درمیان بھی کوئی تعلق نظر نہیں آتا‘ مگر عجیب بات ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی زبان پھسلتی میمو گیٹ پر ہے مگر کچھ عرصے بعد اسے سزا خط نہ لکھنے پر ہو جاتی ہے، گویا میمو گیٹ علّت ہے اور نااہلی معلول۔ بات ذرا پیچھے چلی جائے گی مگر ذوالفقار علی بھٹو بھی تو ایک مثال ہے جو لایعنی سے مقدمے میں ہی پھانسی کے پھندے سے لٹک گیا تھا۔ واضح رہے یہ واقعات بیان کرکے کوئی دلیل قائم کرنا نہیں بس یہ سمجھنے کی کوشش کرنا ہے کہ تاریخ میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ زمانے کے فرق کے باوجود ایک جیسے حادثات ہی کیوں ہوتے ہیں؟
پاکستان میں سیاستدانوں کو شیطان ثابت کرنے کے لیے ایوب خان نے تو ایک طرزِ نو کی بنیاد ڈالی تھی ورنہ گورنر جنرل غلام محمد، صدر سکندر مرزا اور نظریہ ضرورت کے خالق جسٹس منیر جیسے لوگ کسی نہ کسی طرح عوام کا اعتماد رکھنے والوں کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش گرم کیے رکھتے ہیں۔ یہ کام رکا تو خیر کبھی بھی نہیں البتہ یہ فرق ضرور پڑا ہے کہ پہلے جو کام کھلم کھلا کیا جاتا تھا اب ذرا زیادہ ہوشیاری کے ساتھ ایسی چھوٹی چھوٹی وارداتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، جو آخر میں کسی متعین نکتے پر یکجا ہو جاتی ہیں۔ ہر دور میں اصل کھلاڑیوں کو شوقیہ فنکاروںکا تعاون بھی مل جاتا ہے جو ایک چانس کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے کے لئے تیار رہتے ہیں؛ کبھی جان بوجھ کر، کبھی سوچے سمجھے بغیر۔ یہ اسی کاریگری کا کمال ہے کہ ایک طرف نواز شریف اپنی نسلوں کا حساب دے رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان اپنے اکاؤنٹنٹ کی غلطیوں پر پکڑے جا رہے ہیں اور ایک ہی سانس میں دونوں کی نااہلی کی بات بھی کر دی جاتی ہے۔ نواز شریف اس کھیل کو سمجھ رہے ہیں مگر عمران خان تیسرے درجے کے جاسوسی ناولوں کے سنسنی خیز جملوں کے خمیر سے اٹھائی گئی عبارت آرائی کے اسیر ہو کر حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاناما پیپرز کے کیس میں اب خان صاحب واحد فریق نہیں رہے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ حسین نواز کی دورانِ تفتیش تصویر کی اشاعت اور وزیر اعظم کو جے آئی ٹی کی طرف سے طلبی کے سمن جاری ہونے کے بعد کھیل کا پہلا مرحلہ ختم ہو چکا ہے، کیونکہ گزشتہ اٹھاون سالوں میں روایت یہی ہے کہ احتساب کرنے والوں کے پاس سوائے الزامات کے کچھ نہیں ہوتا۔ بات جیسے ہی ثبوتوں تک پہنچتی ہے تو کوئی واضح چیز سامنے نہیں لائی جاتی۔ کل وزیر اعظم سمن کی تعمیل میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو جائیں گے تو اس کھیل کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا جو دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن تک چلے گا جس میں شوقیہ فنکاروں کو کوئی چانس نہیں ملے گا۔