تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-06-2017

زمین کے اندر بھی روشنی ہو

ابھی کچھ دیر پہلے‘ مٹی کی امانت مٹی کو سونپ دی گئی۔ 
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
پندرہ برس ہوتے ہیں‘ اپنی گاڑی میں سوار کرکے رانا صاحب نواب زادہ نصراللہ خان کے ہاں لے گئے۔ ابھی گفتگو کا آغاز ہی تھا کہ اپنی کرسی سے وہ اٹھے اور چھوٹے سے کمرے میں ٹہلنے لگے۔ وہ کمرہ جو نواب زادہ صاحب کا دفتر تھا‘ ڈرائنگ روم اور خواب گاہ بھی۔ الجھن سے‘ میں نے ان کی طرف دیکھا تو رسان سے نواب زادہ نے کہا: بے چینی ہے‘ بے چینی۔ لہجے میں کوئی شکایت تھی اور نہ اعتراض۔ بس‘ ایک حقیقت کا بیان‘ جیسی کہ وہ تھی‘ خوش دلی کے ساتھ‘ جسے گوارا کرنا چاہئے۔
رمضان المبارک کی سترہویں رات‘ نصف شب اپنے اللہ سے جا ملنے والے رانا نذرالرحمن ایسے ہی تھے۔ ایک بے تاب روح‘ وہ لوگ نہیں‘ عمر بھر اپنی قسمت کو‘جو کوستے رہتے ہیں۔ وہ گہری نیند سونے اور صبح سویرے جاگ اٹھنے والے تھے۔ زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھنے‘ ہر حال میں خود اپنا فیصلہ صادر کرنے والے۔ اپنے اعتقادات میں پختہ‘ اپنے یقین میں محکم اور اپنے اصولوں پہ استوار۔
93 سال قبل حافظ آباد کے ایک گائوں میں‘ ایک محنت کش کے ہاں پیدا ہونے والے رانا صاحب نے طویل عمر پائی اور چند ماہ پہلے تک‘ بہت ہی متحرک زندگی جی۔ چند ماہ پہلے تک نوجوانوں کی اسی مستعدی کے ساتھ‘ وہ کاروبار حیات میں جتے رہے اور بے مہریٔ زمانہ کی کبھی شکایت نہ کی۔ یاد نہیں پڑتا کہ نوے سال کو چھو لینے کے بعد بھی‘ خرابی ٔصحت کا رونا کبھی رویا ہو۔ چھوٹا یا بڑا جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوا‘ رانا صاحب کو اپنے مقابلے میں‘ اس نے مستعد پایا۔ رئیس الاحرار نے کہا تھا: زندگی کو اس کے ماتھے کے بالوں سے پکڑو۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: زندگی ایک سواری ہے‘ اگر تم اس پر سوار نہ ہوئے تو وہ تم پر سوار ہو جائے گی۔
میرتقی صاحب نے کہا تھا:
عہدِ جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے‘ صبح ہوئی آرام کیا
رانا صاحب کی زندگی میں بچپن کے بعد جوانی ہی آئی۔ اسّی برس پر پھیلی ہوئی جوانی۔ بڑھاپا ان کے پیکر میں کبھی داخل نہ ہو سکا۔ خود ترحمی کبھی چھو کر نہ گزری۔
فاتحین کی یلغار اور غلامی کی صدیوں نے دو امراض برصغیر میں راسخ کئے ہیں‘ احساس کمتری اور خود ترسی۔ رانا صاحب ان معدودے چند افراد میں سے ایک تھے‘ اپنے آپ سے ہمدردی جن کے آس پاس پھٹک تک نہ سکی۔ لوہے کی لاٹ‘ عمر بھر وہ تن کر کھڑے رہے۔ کبھی کسی سہارے کی آرزو نہ کی۔ مسکینوں اور محتاجوں کے معاشرے میں‘ وہ ایک مرد آزاد تھے۔ 
اپنے طرز کے منفرد کاروباری آدمی اور اپنی طرز کے منفرد سیاسی کارکن۔ اپنے مختصر سے کاروبار میں کبھی طولِ امل کا شکار ہوئے اور نہ سیاسی زندگی میں۔ آخری درجے کے حقیقت پسند۔ 
رحیم یار خان میں مقیم اخبار بین نے رانا صاحب کا ذکر اخبارات میں پڑھا تھا۔ 1969ء میں پہلی بار ملاقات ہوئی تو تلوار کی طرح انہیں آبدار دیکھا۔ انجمنِ شہریان لاہور کے وہ صدر تھے۔ اس طرح کے سماجی کارکن نہیں‘ جو اخبارات میں بیان چھپوانے کے لیے ظہرانے اور عشائیے برپا کیا کرتے ہیں۔ واقعی ایک فعال شہری لیڈر‘ جو کبھی لاہور کی شناخت تھے۔ چار عشرے ہوتے ہیں‘ مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی داتا نگری آئے تو رانا صاحب کی طرف سے دیئے گئے استقبالیے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت کتنے ہی ممتاز رہنما شریک تھے۔
رانا صاحب ایک ترازو تھے۔ اس ترازو میںکم ہی کوئی پورا تل سکا۔ ان کے معیار پہ کم ہی کوئی پورا اترا۔ کبھی جھوٹ نہ بولتے اور کبھی کسی اور کا کذب گوارا نہ کرتے۔ ہمیشہ صاف بات کرتے۔ ''اکل کھرا‘‘ کا لفظ ذہن میں آتا تو رانا صاحب کی تصویر ابھرتی۔ وہ ایک اور عہد ایک اور مزاج کے آدمی۔ اپنے زمانے سے مطابقت پیدا کرنے کی انہوں نے کبھی کوئی کوشش نہ کی۔
اس اضطراب کے باوجود‘ ہمہ وقت جو انہیں متحرک رکھتا‘ بحیثیت مجموعی اپنے آپ سے وہ شاد تھے۔ اس اطمینان نے کہ ذہانت اور ہوش مندی سے وہ جی رہے ہیں‘ ان کے اعتماد کو باقی ودائم رکھا۔ ایک آہنگ ان کی شخصیت میں پیدا کردیا‘ جو آخری سانس تک برقرار رہا۔ وعدے کی پاسداری کرنے والے نظم و ضبط کے وہ پابند تھے۔ دوسروں سے بھی ڈسپلن کا اور دیانت کا وہ مطالبہ کرتے۔
ہوش سنبھالا تو خاندان کو افلاس میں گرفتار پایا۔ طالب علمی کے دور ہی سے محنت مزدوری کا آغاز کردیا‘ چھوٹی موٹی تجارت۔ رفتہ رفتہ ‘ بتدریج ان کا شمار لاہور کے خوشحال اور نمایاں افراد میں ہونے لگا۔ مگر یاللعجب پھر انہوں نے خود کو تھام لیا۔ قارون بننے کا سپنا کبھی نہ دیکھاجو اکثر کو آ لیتا ہے۔ بہت پہلے تعلیمی اداروں کی سائنسی لیبارٹریوں کو ضروری سامان فراہم کرنے کے لیے ''WE BROTHERS‘‘ کے نام سے ایک ادارہ انہوں نے قائم کیا تھا۔ وقت گزرتے کے ساتھ جو پھلا پھولا۔ اب ان کی تیسری نسل کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم نہیں کب پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔ اس میں ان کی ایک عجیب روش تھی۔ کچھ زیادہ نفع بٹورنے کی وہ کوشش نہیں کرتے۔ پوچھا‘ اس میں راز کیا ہے رانا صاحب؟ بولے: میں سوچتا ہوں‘ اگر اس خریدار کی جگہ میں ہوتا؟۔
اپنے بل پر تعلیم کے مراحل مکمل کیے‘ ہیلے کالج آف کامرس سے بی کام اور پھر کاروباری مصروفیات کے ساتھ ہی‘ شاید ایم کام کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ان کی نادر خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ کبھی کسی سے مدد کے طالب نہ ہوتے۔ دوسروں کی مدد کرتے مگر جانچ تول کر‘ دیکھ بھال کر۔ بڑے بننے اور داد سمیٹنے کی آرزو کبھی نہ پالی۔ وہ اپنے ہی ذوق کے آدمی تھے۔ جدوجہد کے قائل‘ زندگی ان کے لئے تگ وتاز اور کشمکش تھی۔
ایک بے حد عملی آدمی مگر رومان پسند بھی۔ ایک اجلی سیاست ہی ان کا رومان تھا۔ سید ابوالااعلیٰ مودودی سے متاثر ہوئے مگر نواب زادہ نصراللہ خان کی پارٹی سے وابستہ رہے۔ ان سے اگرچہ اختلاف کرتے اور ڈنکے کی چوٹ۔ آخر میں تحریک انصاف سے تعلق استوار کر لیا تھا؛ اگرچہ اس کے کلچر سے نباہ کرنا مرحوم کے لیے مشکل تھا۔ 
ایک واقعہ خود سنایا۔ پارٹی کی ایک تقریب میں نواب زادہ مرحوم پہ سخت تنقید کی۔ کہا: پارٹی کی تنظیم آپ نے ادھیڑ ڈالی اور خود کو بھی برباد ہی کیا۔ نواب زادہ اٹھے تو جواب میں یہ کہا۔ 
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے
خود رانا صاحب کو بھی سینکڑوں اشعار ازبر تھے۔ صحت کے ساتھ پڑھتے اور برمحل۔ مجلس آرا بھی تھے‘ میزبانی میں شاد رہتے۔ ان کے ہاں کھانا اس قدر عمدہ پکتا کہ کبھی حیرت ہوتی۔ چھوٹی چھوٹی جزئیات پہ نظر۔ پھل‘ گوشت اور سبزیاں‘ ان کے پڑوس میں سیکھا کہ اچھی خریداری کیسے ممکن ہے۔
قیدوبند سے گزرے؛ اگرچہ ایام ذکر اس کا کم ہی کرتے۔ جلوت و خلوت میں لہجہ ایک سا رہتا۔ کبھی کسی کے منہ پر وہ بات نہ کی جو بعد میں دہرا نہ سکتے ہوں۔ قدرے سخت گیر مگر کبھی خوشامد کی نہ گالی دی۔ اچھی کتاب پڑھتے تو ذکر کرتے‘ دوستوں کو پیش کیا کرتے۔
بہادر اور محنتی۔ خوف اور مرعوبیت ان کی کھال میں کبھی داخل نہ ہو سکے۔ ایک بے حد قابل فہم شخصیت‘ جن کے بارے میں پیش گوئی ہمیشہ ممکن ہوتی۔
ابھی کچھ دیر پہلے‘ مٹی کی امانت مٹی کو سونپ دی گئی۔ 
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
اچھا! رانا صاحب‘ خدا حافظ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved