تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     15-06-2017

شنگھائی تعاون تنظیم

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا 17واں سالانہ اجلاس ہوا‘ جس میں تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان مثلاً روس کے صدر ولادی میر پیوٹن‘ چین کے صدر ژی جن پنگ اور دیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ اس میں پاکستان اور بھارت کو تنظیم کا باقاعدہ اور مستقل رکن بنانے کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت بطور مبصر ممالک اس تنظیم کے سالانہ اجلاس میں گزشتہ دس برسوں سے شرکت کرتے چلے آ رہے ہیں؛ تاہم اب دونوں کو تنظیم کے مستقل ارکان کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ صرف پاکستان اور بھارت کے لئے ہی ایک تاریخی موقع نہیں ہے بلکہ خود شنگھائی تعاون تنظیم کی گزشتہ 16 برس کی تاریخ میں بھی ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے‘ کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم‘ جو ابتدائی طور پر صرف پانچ ارکان (چین‘ روس اور وسطی ایشیا کی تین ریاستوں قازقستان‘ ازبکستان اور تاجکستان) پر مشتمل تھی‘ نے دیگر ممالک کے لئے اپنی مستقل رکنیت کے دروازے بند کر رکھے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رکنیت کو وسعت دینے کے بجائے ایس سی او اپنے مقاصد کے حصول پر پوری طرح توجہ صرف کرنا چاہتی تھی۔ اب مزید ممالک کے لئے اپنے دروازے کھول کر ایس سی او نے یہ ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ تنظیم نہ صرف مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے بلکہ اپنی سرگرمیوں کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو اپنا حصہ بنا کر ایس سی او کی سرحدیں اب بحر ہند اور بحیرہ عرب تک پھیل گئی ہیں اور جلد ہی اس کے پائوں خلیج فارس کے پانیوں کو بھی چھونے لگیں گے۔ اس فیصلے کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم چین‘ روس اور وسطی ایشیا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کی سرگر میاں اب ایشیا کے تین بڑے خطوں یعنی وسطی ایشیا‘ جنوبی ایشیا اور مغربی ایشیا پر محیط ہو جائیں گی۔ ان تینوں خطوں میں دنیا کی آدھی کے قریب آبادی رہتی ہے
اور شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی واحد تنظیم ہے‘ جس کے رکن ممالک میں سے چار یعنی روس‘ چین‘ پاکستان اور بھارت ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے دنیا کی دیگر علاقائی تنظیموں کے مقابلے میں بہت جلد عالمی سطح پر اپنا ایک ممتاز مقام بنایا ہے۔ اس کی ایک وجہ اس میں چین کی موجودگی ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ ایک عرصہ سے اس نے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں افزائش کی رفتار کو تیز تر رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے رکن ممالک‘ خصوصاً وسطی ایشیا میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے‘ اور جہاں ضروری سمجھا قرضہ جات بھی فراہم کئے اور تجارت‘ توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لئے کئی نئے اقدامات بھی کئے ہیں۔ قدیم شاہراہ ریشم کے احیا کے لئے چین کی طرف سے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کو ان اقدامات میں سے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اب جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ جنوبی ایشیا اور مغربی ایشیا تک پھیل گیا ہے‘ اس کے ممکنہ اثرات و نتائج کے بارے میں بھی متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مثلاً ٹھوس شکل میں پاکستان کو اس کا کیا فائدہ پہنچے گا؟ بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ رکن بنانے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات خصوصاً جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ افغانستان میں جنگ‘ تشدد اور دہشت گردی نے زور پکڑ لیا ہے‘ کیا شنگھائی تعاون تنظیم اس آگ کو ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی‘ خصوصاً قطر کے حالیہ بحران کا اس تنظیم کے نئے کردار پر کیا اثر پڑے گا‘ کیونکہ
پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد ایران کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں چین نے باقاعدہ حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ایران کی شمولیت کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کی سرحدیں نہ صرف خلیج فارس کے ساحل تک جا پہنچیں گی بلکہ خلیج فارس کے پورے خطے اور مشرق وسطیٰ میں امن اور سلامتی کے مسائل سے بھی اس تنظیم کا براہ راست تعلق قائم ہو جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی کے تناظر میں سنگھائی تعاون تنظیم خلیج فارس میں کسی بحران سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔
جہاں تک پاکستان کو پہنچنے والے فوائد کا تعلق ہے تو وہ نہ صرف اہم‘ بلکہ مختلف نوعیت کے بھی ہیں۔ اسی لئے اسلام آباد گزشتہ گیارہ برس سے اس تنظیم میں شامل ہونے کی کوشش کرتا چلا آ رہا ہے۔ مستقل رکنیت کے بعد نہ صرف رکن ممالک کے ساتھ پہلے سے موجود تعاون میں اضافہ ہو گا بلکہ تعاون کی مزید راہیں بھی کھلیں گی۔ اس سے پاکستان کی معیشت کو تقویت ملے گی اور اس کی علاقائی تجارت میں اضافہ ہو گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کے بعد پاک چین
اکنامک کوریڈور کو براہ راست تقویت ملے گی۔ چونکہ یہ تنظیم ایشیا کے تین اہم خطوں تک وسیع ہو چکی ہے اور یورپ اور آسٹریلیا تک اس کے رابطے قائم ہونے کا امکان روشن ہے‘ اس لئے اس فورم کے ذریعے ان خطوں میں پاکستان کی تجارت‘ اقتصادی تعاون اور ثقافت کو فروغ ملے گا۔ جہاں تک پاک بھارت تنازعات کے حل میں اور جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کے قیام میں تنظیم کے ممد و معاون ثابت ہونے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ایک بات واضح رہنی چاہئے کہ شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کے دو طرفہ اختلافات کو دور کروانے کا فورم نہیں۔ اس لئے پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات کے حل میں شنگھائی تعاون تنظیم کا کوئی براہ راست ہاتھ نہیں ہو گا‘ لیکن چونکہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں اس تنظیم کے رکن ہیں اور اس کے پلیٹ فارم سے شروع کئے جانے والے منصوبوں اور سرگرمیوں میں برابر کا حصہ لیں گے‘ اس لئے اس تنظیم کی رکنیت کی بدولت پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد اور خیر سگالی کی وہ فضا قائم ہو سکتی ہے‘ جو دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات‘ بشمول کشمیر‘ کے حتمی حل کے لئے نہ صرف مفید بلکہ بے حد ضروری بھی ہے۔ تنظیم کے دیگر رکن‘ خصوصاً بانی ارکان‘ بھی ایسا ماحول پیدا کرنے کے خواہشمند ہیں اور موقعہ ملنے پر وہ ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کو رکن بننے پر مبارک باد دی‘ جو ایک خوش آئند خیر سگالی کا مظاہرہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے قیام کے سلسلے میں ڈائیلاگ کا عمل آگے بڑھانے کے لئے بہتر ماحول پیدا کرنے میں شنگھائی تعاون تنظیم ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ افغانستان کا مسئلہ تنظیم کے لئے اولین ترجیح رکھتا ہے‘ کیونکہ یہ ایک علاقائی سلامتی کا مسئلہ ہے اور اس میں دن بدن حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایس سی او کی سائیڈ لائن پر وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے چار ملکی
(پاکستان‘ افغانستان‘ چین اور امریکہ)کے رابطہ گروپ کے تحت پاک افغان سرحد کے آر پار دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کے لئے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے‘ خصوصاً پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر حالیہ افسوسناک واقعات کے تناظر میں یہ ایک مفید فیصلہ ہے۔ اس تنظیم کے دو رکن ملک چین اور روس‘ افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن کے لئے افغان ڈائیلاگ کا عمل آگے بڑھانے کی بڑی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں کابل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان نے بھی شرکت کی تھی۔ چین خصوصی طور پر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے‘ کیونکہ پاک چین اکنامک کوریڈور کے علاوہ چین کے وسطی ایشیا‘ افغانستان اور خلیج فارس کو ملانے والے اکنامک کوریڈور کی کامیابی کا دارومدار بھی افغانستان میں امن پر ہے۔ اس کے علاوہ چین واحد ملک ہے جسے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور طالبان کا بھی اعتماد حاصل ہے۔ اس لئے چین کی قیادت میں ان افغان امن کوششوں کی کامیابی کا امکان بے حد روشن ہے۔ اگرچہ ایران کی شمولیت کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم براہ راست خلیج فارس سے منسلک ہو جائے گی‘ لیکن اس وقت بھی اس تنظیم میں شامل تمام ممالک خلیج کے علاقے میں امن اور سلامتی کے معاملات میں اہم سٹیک ہولڈرز ہیں۔ اس لئے تنظیم کی طرف سے اس خطے میں کسی بڑے تصادم کی روک تھام کی بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے نہ صرف ان دونوں ملکوں کو اس تنظیم کے فورم سے شروع کئے جانے والے منصوبوں سے براہ راست استفادہ کرنے کا موقعہ ملے گا بلکہ اس سے وسطی ایشیا‘ مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان تجارت میں اضافے‘ توانائی کے بحران کے خاتمے‘ انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے شعبوں میں روابط اور تعاون بڑھانے کے نئے در وا ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved