تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     16-06-2017

رحمن ملک کے لئے وہ لمحہ آن پہنچا؟

رحمن ملک کو جے آئی ٹی نے 23 جون کو پیش ہونے کے لیے سمن جاری کر رکھے ہیں۔ ان کے بارے میں کئی کمنٹس کیے جا رہے ہیں۔ اکثریت کا خیال ہے وہ کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ کچھ کہتے ہیں وہ آصف زرداری کی اجازت کے بغیر بھلا کیسے نواز شریف کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں اور آصف زرداری ہرگز نہیں چاہیں گے نواز شریف کو ذرہ برابر بھی نقصان ہو‘ لہٰذا وہ آخری لمحے پر رحمن ملک کو روک دیں گے اور یوں نواز شریف بچ نکلیں گے۔ 
ان باتوں میں وزن اس لیے بھی ہے کہ پاکستان میں سیاست اعلیٰ معیار کے اصولوں پر نہیں کی جاتی۔ یہاں جو بڑی چالاکی کر سکتا ہے، وعدے توڑ سکتا ہے، عوامی بھروسے کا خون کر سکتا ہے وہی بڑا کھلاڑی سمجھا جاتا ہے اور اس کے پیروکار اسی کے نعرے لگاتے ہیں۔ پاکستان میں چالاک انسان کو زیادہ عزت دی جاتی ہے‘ جو معاشرے کو دھوکا دے کر کوئی بڑی پوزیشن حاصل کر سکے کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے ایک دن وہ بھی اس طرح کی چالاکیاں کرکے اوپر جا سکتے ہیں‘ لہٰذا اس طرح کی حرکتوں کو سیاست میں برا نہیں سمجھا جاتا۔ سیاست اور سیاستدانوں کے لیے طے کر لیا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے غلط طریقے استعمال کرکے اعلیٰ عہدے لے سکتے ہیں اور انہیں برا بھلا نہیں کہنا چاہیے‘ کیونکہ یہ زمینی حقائق ہیں۔ یوں پوری قوم کو زمینی حقائق کا درس دے کر میٹھی گولی دی جاتی ہے تاکہ وہ کرپشن سے سمجھوتہ کرکے زندہ رہیں۔ اور پاکستان کی اکثریت نے آرام سے سمجھوتہ کر بھی لیا ہے۔ اگر کسی کے کوئی اخلاقی پوزیشن لینے کی بات کریں تو اس کے ماننے والے آپ کا مذاق اڑائیں گے۔ 
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جو سب سے بڑا ہاتھ دکھا سکتا ہے وہ استاد کا درجہ پاتا ہے اور سب اس کی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ آصف زرداری کے حق میں نعروں کو ذہن میں لائیں تو یہی احساس نظر آئے گا۔ زرداری سب پر بھاری۔ وہ زرداری کو کسی اخلاقی معیار پر بھاری نہیں کہہ رہے ہوتے بلکہ وہ دراصل انہیں تمام اخلاقی قدروں کو روند کر آگے بڑھنے پر خراج تحسین پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں سے زیادہ سمجھدار ہیں جو ہر قیمت پر آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہوں نے یہ ثابت کیا ہے۔ اگر آپ معاشرے میں اعلیٰ اقدار کی فکر کیے بغیر محض اپنی اور اپنے وفاداروں کے مفادات کے لیے کوئی بھی کھیل کھیلیں تو لوگ اسے سراہتے ہیں۔ زرداری بہت ذہین ہوں گے لیکن ان کی تمام تر ذہانت اپنی ذات اور اپنے اردگرد وفاداروں کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ 
تو کیا اب ایک دفعہ پھر زرداری، وزیر اعظم نواز شریف کو بچانے کی کوشش کرینگے؟ کیا وہ نواز شریف کو اپنی سیاست کیلئے اہم سمجھتے ہیں؟ انکے اندر خوف ہے کہ اگر کوئی تیسری سیاسی قوت نواز شریف کو شکست دے دیتی ہے تو پھر انہیں بھی مشکلات نظر آئیں گی۔ وزیر اعظم نواز شریف کئی سکینڈلز اور کرپشن کے الزامات کے دبائو تلے دبے ہوئے ہیں لہٰذا انہیں ہینڈل کرنا اور دبائو میں لا کر اپنی مرضی کے فیصلے کرانا بہت آسان ہے، جیسے ایان علی اور عاصم حسین کے کیس میں ہم نے دیکھا‘ بہ نسبت ایسے سیاستدان کے جس پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں اور اسکے سر پر معاشرے کو درست کرنے کا بھوت بھی سوار ہو۔ اگرچہ بہت سارے لوگ عمران خان کا نام لیتے ہیں کہ وہ نواز شریف اور زرداری کے لیے ایک بھیانک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر ان کو اقتدار مل گیا تو پھر دونوں کی خیر نہیں۔ میرا خیال ہے‘ اب نواز شریف اور زرداری کو عمران خان سے زیادہ خوف نہیں‘ کیونکہ عمران خان کی اپنی پارٹی میں ایسے لوگ شامل ہو گئے ہیں جن کے خلاف عمران خان خود باہر نکلا تھا۔ عمران خان کے حامی لاکھ کہتے رہیں کہ وہ ایماندار ہے اور وہ سب کو ٹھیک کر لے گا، یہ بات نواز شریف اور زرداری جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ جب ایک دفعہ دیگ میں چاول کا ایک دانا گندہ پڑ جائے تو پھر پوری دیگ ہی خراب ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے آپ پوری دیگ کھا جائیں اور مسکراتے بھی رہیں۔ 
تو کیا زرداری صاحب کو سوٹ کرتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف برطرف ہوں؟ تو کیا اب نواز شریف کو سبق سکھانے کا وقت نہیں ہے؟ جس طرح انہوں نے شہباز شریف کے ساتھ سپریم کورٹ جا کر ان کی حکومت کے خلاف میمو گیٹ پر کمشن بنوایا تھا تاکہ ان کی حکومت کو غداری کے سرٹیفکیٹ دلائے جائیں یا پھر جب نواز شریف اور شہباز شریف، گیلانی کو سپریم کورٹ سے برطرف کرانے کے لیے کوشاں تھے اور آخر کامیاب بھی رہے۔ ویسے زرداری‘ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے خلاف سوئس مقدمات بھی نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بنے تھے اور دونوں سوئس عدالتوں میں پیش بھی ہوتے رہے۔ زرداری صاحب شاید بھول گئے ہوں‘ لیکن بینظیر بھٹو کا وہ انٹرویو بھلا کسے بھولا ہو گا جب انہی نواز شریف کے بنائے ہوئے مقدمات پر ایک دن جنرل مشرف دور کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپائو نے ان کی گرفتاری کے ریڈوارنٹ جاری کیے تھے۔ جس دن عالمی میڈیا میں بینظیر بھٹو کے ریڈوارنٹ جاری کرنے کی خبر چھپی‘ اسی روز ان کی بیٹی آصفہ دوبئی سکول سے واپس آئی تو ماں کو بتایا سکول ٹیچر نے اس سے پوچھا تھا کہ آپ کی ماں کے وارنٹ کیوں جاری ہوئے ہیں؟ آپ اب بھی سکول پڑھتی رہیں گی یا پھر آپ بھی ماں کے ساتھ واپس جائیں گی؟ بینظیر نے شاید اسی لمحے جنرل مشرف سے ڈیل کرنے کا فیصلہ کیا ہو گا کہ انہیں اور بچوں کو اس طرح کے سوالات کی اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔
زرداری صاحب کی اپنی زبان کاٹنے والی بات رہنے دیتے ہیں کیونکہ زرداری صاحب کا دل بڑا ہے۔ وہ شاید ایسی ویسی باتوں کو یاد نہیں رکھتے اگرچہ جن دنوں انہوں نے سندھ کے آئی جی رانا مقبول پر یہ الزام لگایا اس وقت وہ چاہتے تھے کہ پورا میڈیا ان کا مقدمہ لڑے۔ مان لیتے ہیں کہ سیاست میں کوئی مستقل دشمن دوست نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاست دیہات کے دو چودھریوں کی طرح کی جاتی ہے جو ساری عمر خود بھی لڑتے ہیں اور مرتے مرتے اگلی نسلوں کو بھی اپنی قسمیں دے کر جاتے ہیں کہ بیٹا میرا بدلہ لینا‘ لیکن کیا کریں پھر جب ان پر ظلم ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ خود شور مچاتے ہیں، جیل سے صحافیوں کو خط لکھتے ہیں، مدد مانگتے ہیں، اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی کہانیاں اور داستانیں چھپواتے ہیں۔ جب اسی مظلومیت کو بیچ کر وہ اقتدار میں لوٹتے ہیں تو پھر وہ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ ان کا دل بہت بڑا ہے۔ وہ انتقام پر یقین نہیں رکھتے۔ سیاست میں کوئی دشمن دوست نہیں ہوتے محض سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ اس وقت سیاسی مفاد رونے پیٹنے اور مظلوم بننے میں تھا اور اب اسی ظالم کو ساتھ ملا کر حکمرانی کرنی تھی ۔ 
اس کا اندازہ مجھے سینیٹر انور بیگ کے گھر اس دن ہوا تھا جب شاہین صہبائی نے پرویز رشید کو یاد دلایا آپ لوگوں نے تو زرداری کا احتساب کرنا تھا۔ کیا بنا؟ پرویز رشید غصے میں آ گئے اور بولے آپ ہمیں لڑانا چاہتے ہیں۔ شاہین صہبائی نے کہا میں تو آپ کو وہ یاد کرا رہا ہوں جو آپ زرداری کے دور حکومت میں پانچ سال پوری قوم سے کہتے رہے۔ اقتدار ملا تو زرداری اور دیگر کا احتساب ہو گا۔ ہمارے دوست پرویز رشید‘ جو کم غصے میں آتے ہیں‘ غصے میں بولے تو پھر آپ اپنی سیاسی پارٹی بنا لیں اور لوگوں سے ووٹ لے کر حکومت بنا کر سب کا احتساب کر لیں۔ ہم سب ہکا بکا اپنے دوست کو دیکھتے رہے۔ اس دن مجھے سمجھ آئی سیاست کس چڑیا کا نام ہے، راج نیتی کسے کہتے ہیں۔ 
جہاں تک رحمن ملک کی گواہی کی بات ہے، میرا خیال ہے وہ ضرور پیش ہوں گے اور جو محنت انہوں نے شریف خاندان کی کئی دہائیوں پر مشتمل کرپشن ڈھونڈ کر دستاویزات کی شکل میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے طور پر کی تھی اسے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ آپ کہتے کچھ رہے ہیں اور کرتے کچھ اور۔ معاشرہ بدل گیا ہے، نوجوان نسل سب کچھ دیکھتی اور سمجھتی ہے۔ 
ویسے رحمن ملک ہمیشہ کہتے رہتے ہیں انہیں نواز شریف نے ڈیڑھ سال جیل میں رکھا۔ ان پر دبائو ڈالا وہ بینظیر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں، ان پر جیل میں تشدد کیا گیا، انہیں برف پر لٹایا گیا، ان پر سانپ چھوڑے گئے، بچھو پھینکے گئے، انہیں پاکستان سے فرار ہونے پر مجبور کیا گیا، وہ پھر بھی بینظیر بھٹو کے وفادار رہے۔ اسحاق ڈار کی طرح وعدہ معاف گواہ نہیں بنے۔ سوال یہ ہے اب وہ نواز شریف سے اپنے اوپر کیے گئے تمام تشدد کا بدلہ لیں گے، یا راج نیتی کا حصہ سمجھ کر بھول جائیں گے؟ 
ویسے میں نے رحمن ملک کے ترجمان ریاض علی طوری سے پوچھا کہ وہ پیش ہوں گے۔ طوری صاحب بولے: وہ بالکل پیش ہوں گے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے گاڈ فادر ناول کی وہ لائن یاد آرہی ہے اگر اس دنیا میں کمزور ترین شخص بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھے، موقع کے انتظار میں رہے تو وہ کبھی نہ کبھی دنیا کے طاقتور ترین انسان سے بھی اپنا بدلہ لے سکتا ہے،تو کیا بیس برس بعد رحمن ملک کے لیے وہ لمحہ آن پہنچا ہے؟


 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved