تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-06-2017

’’کھلے دل‘‘ کے لوگ

تحقیق کے بازار میں آج کل بہت عجیب قسم کی کرنسی چل رہی ہے۔ جس موضوع کا عملی زندگی میں کہیں وجود نہ ہو وہ بھی اِس بازار میں آپ کو اِس شان سے ملے گا کہ آپ دیکھ کر رشک کریں گے اور آخری میں رشک کا ''ر‘‘ ناپید ہو جائے گا یعنی صرف شک رہ جائے گا! مگر خیر، رشک کی باقیات تک پہنچتے پہنچتے آپ اِس قدر محظوظ ہو چکے ہوں گے کہ سَودا خسارے کا نہیں رہے گا! 
فی زمانہ تحقیق کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ علامہ اقبالؔ کے بیان کردہ ''اپنی دنیا آپ پیدا کر ...‘‘ کے فارمولے پر کاربند رہتے ہوئے موضوع کا بھی اہتمام کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ جب تحقیق کی دنیا پر نظر دوڑائی جاتی ہے تب یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے موضوعات تخلیق ہی نہیں کیے جا سکتے بلکہ اُن پر دادِ تحقیق بھی دی جا سکتی ہے! مثلاً اگر کسی کو ہاتھ کے ناخن دانتوں سے کترنے رہنے کی عادت ہے تو محققین اِس عادت کی کوکھ سے ایسے ایسے نکات برآمد کریں گے کہ آپ پڑھ اور سُن کر حیران رہ جائیں گے اور آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ ناخن کترتے رہنے کی عادت میں تو نفسی اُمور سے متعلق علم کا خزانہ پایا جاتا ہے! اِس ایک عادت کی بنیاد پر محققین تحلیلِ نفسی کی منزل سے یُوں گزرتے ہیں کہ ناخن کترنے کے شوقین مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ دانتوں سے ناخن کترتے رہیں یا اِس لت کو چھوڑ کر کسی اور لت کی دنیا میں قدم رکھیں۔ 
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین دور کی، بلکہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔ 276 افراد کی عادات اور طرزِ گفتگو کا جائزہ لینے کے بعد یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ گالیاں بکتے ہیں وہ بہت کھلے دل کے ہوتے ہیں، کسی کے لیے اپنے دل میں بے جا بُغض نہیں رکھتے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولنے سے رغبت نہیں رکھتے۔ بات برطانیہ کی ہے اور وہ بھی کیمبرج یونیورسٹی کی۔ ہم ٹھہرے ایک پس ماندہ ملک کے معمولی سے قلم کار۔ ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا کہ اِتنی بڑی جامعہ کے محققین کے علم کو للکاریں۔ ہم تو اُس خرمن کے خوشہ چینوں میں سے ہیں مگر چونکہ مرنے کے بعد خدا کو منہ بھی دکھانا ہے اِس لیے ڈرتے ڈرتے ہی سہی، اِتنا ضرور عرض کریں گے کہ گوروںکی ہر بات گوری نہیں ہوتی یعنی ضروری نہیں کہ جو کچھ بھی ولایت سے آئے وہ برحق اور درست ہی ہو۔ اب آپ ہی پوری ایمان داری سے بتائیے کہ گالیاں بکنے والوں کے سَروں پر دستارِ فضیلت باندھنے کی یہ کوشش آپ کے حلق سے اُتری؟ نہیں نا؟ بس، اس معاملے میں ہم اور آپ ایک ہی پیج پر ہیں۔ ہم بھی کیمبرج کی تحقیق برحق اور درست ماننے کو تیار نہیں۔ 
ویسے تو خیر اب پورے پاکستان ہی میں اُس ''کھلے دل‘‘ کے لوگ بہ کثرت پائے جاتے ہیں جس کا ذکر کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں کیا گیا ہے اور معاملہ ع 
ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں 
کی منزل تک پہنچ گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اب کراچی باقی ملک پر بازی لے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے طے کردہ معیار کے مطابق کھلے دل کے، بے جا بغض اور جھوٹ سے رغبت نہ رکھنے والے ملک کے چپّے چپّے پر موجود ہیں مگر وہ سب ابھی پرائمری کی سطح پر ہیں اور کراچی کے متعدد علاقوں کے مکینوں کو اس معاملے میں یونیورسٹی کے طلباء شمار کیجیے! 
لوگوں نے قدم قدم پر ڈے اینڈ نائٹ ہوٹل قائم کرکے اہلِ کراچی کو بھرپور موقع دیا ہے کہ وہ خود کو کھلے دل کا، بے جا بغض نہ رکھنے والا اور جھوٹ سے نفرت کرنے والا ثابت کریں! اب عالم یہ ہے کہ کراچی کے ان ہوٹلوں پر لوگ رات رات بھر بیٹھے رہتے ہیں اور اِس دوران بات بات پر اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو کھلے دل کا ثابت کریں! جھوٹ سے رغبت نہ رکھنے والے یہ اہلِ دل و اہلِ زبان ''تسلیم شدہ‘‘ مغلّظات کے ذریعے ایک دوسرے کا سچ اِس شان سے بیان کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب سُننے اور برداشت کرنے کے لیے جگر نہیں، جگرا درکار ہے! مغلظات کے دریا میں تیرنے والے اپنے جذبات پر قابو کہاں رکھ پاتے ہیں؟ آن کی آن میں کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں یعنی محترم رشتوں کو آپس میں یوں گڈمڈ کر دیتے ہیں کہ سُننے والے انگشت بہ دنداں رہ جانے کے سِوا کوئی آپشن نہیں پاتے! کراچی کے جن علاقوں میں مغلظات بکنے کی عادت کو پھیپھڑوں میں آکسیجن بھرنے جیسے عمل کا درجہ دے دیا گیا ہے وہاں عالم یہ ہے کہ کوئی بھی، بہ قولِ غالبؔ، گالیاں کھاکے بے مزا نہیں ہوتا! اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی کسی کی بات کا بُرا کیوں مانے جب معاملہ ع 
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز 
والا ہو۔ بیچ میں چاہے جتنے بھی مراحل آئیں، بات گالی سے شروع ہوکر گالی پر ختم ہوتی ہے۔ اِن علاقوں کا مجموعی ماحول اِس قسم کا ہے کہ اگر خود کو کھلے دل کا ثابت کرنے سے گریز کرتے ہوئے جھوٹ بولنے سے رغبت ظاہر کرنے پر توجہ دیجیے یعنی تہذیبی تقاضے نبھاتے ہوئے شائستہ انداز سے، نپے تُلے غیر مغلّظ الفاط کی مدد سے کچھ کہنے کی کوشش کیجیے تو لگتا ہے بس اگلے ہی لمحے قے ہو جائے گی! اِن علاقوں میں رہنا پڑے تو ''جو بھی نمک کی کان میں پہنچا نمک ہوا ‘‘والا فارمولا اپنانا پڑتا ہے یعنی جیسا دیس ویسا بھیس کے اصول پر عمل کرتے ہوئے خود کو ''کھلے دل‘‘ کا ثابت کرنا ہی پڑتا ہے! اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ نئے آنے والے زیادہ کھلے دل کے ثابت ہوتے ہیں۔
ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں کہ نقصِ امن کے خدشے کے پیش نظر اِن علاقوں کی عمومی گفتگو کا کوئی حصہ جُوں کا تُوں اِس کالم میں نقل نہیں کر سکتے اور اگر کچھ رد و بدل کرکے بات پیش کرنے کی کوشش کی تو پھر اُس کا سارا ''حُسن‘‘ ہی غارت ہو جائے گا لہٰذا ہم نے جو چند ایک اشارے کیے ہیں اُن کی مدد ہی سے اندازہ لگا لیجیے کہ کھلے دل کا معاملہ اب کہاں تک پہنچ چکا ہے اور مزید کہاں تک پہنچ سکتا ہے! 
ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کیمبرج یونیورسٹی کے محققین ذرا سی زحمت کرتے ہوئے کراچی کے چند علاقوں کا چکّر لگا لیں تو اُنہیں اندازہ ہو جائے کہ لوگ لوگ کس طرح خود کو کھلے دل کا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ''کھلے دل‘‘ کے لوگوں کی تلاش و تعین سے متعلق اپنی اب تک کی تحقیق پر لعنت بھیجتے ہوئے دادِ تحقیق دینے کا نیا راؤنڈ شروع کرنے مجبور ہوں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved