تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     16-06-2017

پاکستانی جغرافیہ اور آستانہ میں کشمیر کا تذکرہ

آج سے کوئی 25 سال قبل جب میں ماسکو گیا تھا‘ تب روس کے حکمران گوربا چوف تھے، گوربا چوف ایک دانشور، مصنف اور حقیقت پسند حکمران تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کو افغانستان سے واپس بھی بلایا اور آزادی کی طالب 14 ریاستوں کو خودمختار ملک بھی تسلیم کیا۔ اگر گوربا چوف ایسا نہ کرتے تو روس ابھی تک اندرونی خلفشار کا شکار رہتا اور نہ جانے اسے 14 کے بجائے 28 ٹکڑے کروانے پڑتے مگر گوربا چوف نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ روس آج بھی چھوٹا ملک نہیں بلکہ رقبے کے اعتبار سے اب بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ صدر پوٹن نے اس کی عالمی حیثیت کو دوبارہ بحال کر دیا چنانچہ آج وہ پھر امریکہ کے مقابلے میں سپر پاور کی حیثیت سے سامنے کھڑا ہے۔ چند دن قبل قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ''شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کا جو اجلاس ہوا اس میں صدر پوٹن بھی شریک ہوئے۔ صدر پوٹن آستانہ کے ہوائی اڈے پر اترے اور قازق صدر ان کا استقبال کر رہے تھے۔ موجودہ اجلاس میں دو ممبر نئے بنائے گئے ہیں۔ ایک پاکستان ہے اور دوسرا ہندوستان۔ یوں اب ممبران کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔ ان مذکورہ آٹھ ملکوں کی اب ہم جغرافیائی پوزیشنوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
چاروں مسلمان ریاستیں روس اور چین کے درمیان واقع ہیں لہٰذا جب آٹھ سربراہان گروپ فوٹو کے لئے کھڑے ہوئے تو اس میں قازقستان کے صدر وسط میں تھے۔ میزبان بھی تھے اور ان کا ملک بھی باقی تینوں ریاستوں سے رقبے میں بڑا ہے یعنی وہ وسط ایشیائی ریاستوں کی علامت کے طور پر درمیان میں کھڑے تھے۔ ان کے دائیں بائیں صدر پوٹن اور صدر جن پنگ کھڑے تھے۔ جغرافیائی پوزیشن بھی یہی بنتی ہے۔ آٹھ سربراہوں کے کناروں پر میاں محمد نواز شریف اور مسٹر نریندر مودی کھڑے تھے اور دونوں کی جغرافیائی پوزیشن یہی بنتی ہے۔ دونوں کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن آئیڈیل اور مرکزی ہے جبکہ ہندوستان کی جغرافیائی پوزیشن پاکستان کی محتاج اور ضرورت مند دکھائی دیتی ہے۔ ویسے تو ہندوستان کی مغربی سرحد کوئی چار پانچ ہزار کلومیٹر کے قریب چین سے ملتی ہے اور چین سے سڑک شروع ہو کر ہندوستان میں سے گزر کر ممبئی کی بندرگاہ تک بھی آ سکتی ہے مگر یہ انتہائی لمبا اور دشوار راستہ ہے۔ انڈیا کے اوپر چین کے صوبہ تبت کا علاقہ ہے۔ آگے انڈیا کے دشوار گزار علاقے ہیں۔ اگر یہ بن بھی جائے تو اس قدر لمبا ہو گا کہ خرچہ بہت زیادہ ہو گا۔ وسط ایشیائی ریاستیں انتہائی دور ہو جائیں گی۔ ممبئی سے سمندری راستہ بھی بہت دور ہو جائے گا۔ یوں یہ نفع نہیں بلکہ گھاٹے کا سودا ہے لہٰذا یہ ناممکن اور بے مقصد ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا جو معاشی کوریڈور ہے وہ پاکستان اور چین کے شمال مغرب میں ہے۔ چین کا صوبہ سنکیانگ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ملتا ہے۔ پاکستان کے گوادر تک سڑک کا راستہ نسبتاً انتہائی آسان اور انتہائی مختصر ہے۔ پھر گوادر بحیرہ عرب کی بندرگاہ ہے۔ یوں عرب ممالک کے ساتھ بحر احمر کے ذریعے اور افریقہ کے ساتھ تجارت کا راستہ انتہائی آسان اور مختصر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی یہ ہے وہ جغرافیائی پوزیشن جو شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے لئے آئیڈیل اور بہتر ہے۔ 
ہندوستان نے ایران کے ساتھ مل کر پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کا توڑ کرنے کے لئے منصوبہ بنایا اور چاہ بہار کی بندرگاہ پر اربوں ڈالر لگانا شروع کر دیے۔ میرا وہ مضمون آج بھی روزنامہ دنیا کے ذخیرے میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں جغرافیائی پوزیشن کا تذکرہ کرکے ہم نے لکھا تھا کہ یہاں انڈیا کے پیسے ضائع ہو جائیں گے۔ آج بالکل وہی منظر ہے کہ انڈیا نے وہاں کام چھوڑا دیا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک وہاں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہوا۔ ویسے ہندوستان کی لوک سبھا کو مودی سے پوچھنا چاہئے کہ پاکستان سے دشمنی اپنی جگہ مگر دشمنی میں عقل کا استعمال تو ضروری ہے۔ اس کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ اور تو اور مذکورہ چاہ بہار منصوبے سے افغانستان بھی پیچھے ہٹ گیا۔ چین نے افغانستان میں سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا۔ روس اور پاکستان بھی ساتھ شامل ہوئے اور چاروں ممبران کی کوشش سے پشاور تا کابل سڑک بھی بننے جا رہی ہے جو آگے کوہ سالانگ سے گزر کر ازبکستان کے شہر ترمذ کے ساتھ مل جائے گی۔ مزید برآں دریائے کابل پر اب انڈیا کے بجائے چین اور پاکستان ڈیم بنائیں گے جس سے افغانستان اور پاکستان دونوں فائدے میں رہیں گے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان مذکورہ شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر تو بن گیا ہے مگر اسے معاشی پھل کھانے کے لئے جس پلیٹ اور رکابی کی طرف ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے‘ وہ پلیٹ پاکستان ہے۔
مندرجہ بالا حقائق دیکھ دیکھ کر نریندر مودی کو رہ رہ کر غصہ آتا ہے کہ میں کروں تو کیا کروں؟ ہاں جناب! امور خارجہ میں سیاسی پتے تو کھیلے جا سکتے ہیں لیکن جغرافیے میں مذکورہ پتے خزاں کے موسم کی طرح ہیں جو تیز ہوا میں درخت سے دور بھاگ جاتے ہیں لہٰذا عقلمندی کا تقاضا ہے کہ خزاں کے پتوں کے ساتھ دوستی نہ لگائو۔ پاکستانی درخت کے ساتھ اچھے تعلقات بنائو۔ اچھے تعلق میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر ہے۔ میاں محمد نواز شریف‘ وزیر اعظم پاکستان نے بہتر کیا کہ نریندر مودی سے مصافحہ بھی کیا اور کشمیر میں انڈین افواج کے ظلم کا تذکرہ بھی کیا۔ جناب وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بھی کشمیر کے حق خود ارادیت پر اظہار خیال کیا۔ اب نریندر مودی کی دانش کا سوال ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ کشمیر سے اٹھنے والے مظلومانہ احتجاج کو پورے انڈیا میں خلفشار اور بربادی کا باعث بناتے ہیں یا اہل کشمیر کو ان کی آزادی کا حق دے کر عدل کا ترازو تھامتے ہیں اور انڈیا کو نہ صرف بچا لیتے ہیں بلکہ پاکستان کی پلیٹ میں رکھے ہوئے معاشی پھلوں سے استفادہ بھی کرتے ہیں؟ میں کہتا ہوں وہ گوربا چوف سے چودہ گنا کم فراست کا مظاہرہ کر دیں‘ تو بھی ہندوستان کے دانشور وزیر اعظم کہلائیں گے۔ کرنا مگر یہ ہو گا کہ جس طرح آستانہ کے ہوائی اڈے پر قازق صدر جناب پوٹن کا استقبال کر رہے تھے بالکل اسی طرح مسٹر مودی اپنا استقبال سری نگر کے ہوائی اڈے پر کروانے کا فیصلہ کر لیں۔ تو جناب والا! آستانہ میں جیسا مصافحہ پوٹن نے قازق صدر سے کیا ایسا مصافحہ آپ بھی پاکستان کے وزیر اعظم سے سرینگر میں کیجئے۔ انڈیا کے محسن بن جائیں گے۔ جناب جن پنگ اور میاں نواز شریف کی تجویز کہ اگلے پانچ سال اچھی ہمسائیگی کے قرار دیں‘ اس کی پہل کریں۔ اچھی ہمسائیگی میں مسئلہء جموں و کشمیر کے حل کو شامل کر لیں۔ امن زندہ باد ہو جائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved