تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-06-2017

نواز شریف اور بھٹو

بھٹو اور نوازشریف میں ،کیا کوئی یکسانیت تلاش کی جا سکتی ہے؟
شخصی اعتبار سے تو شاید نہیں۔ دونوں کا شاکلہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔پسند ناپسند سے لے کر تصورِ حیات تک،دونوں میں کچھ مشترک نہیں۔تاریخ کا عمل مگر اپنی ترجیحات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ وہ بعض اوقات دو مختلف شخصیات کو ایک جیسا کردار سونپ دیتا ہے۔ خارج میں برپا ہونے والے ہنگامے آپ کا کردار متعین کرتے ہیں۔آ دمی ان ہنگاموں میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یوں کاتبِ تقدیر آپ کو ایک راستے کا راہی بنا دیتا ہے۔آثارہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔اس نے1970 ء کی دہائی میں جوکردار بھٹو صاحب کے لیے لکھا تھا،اب وہی نوازشریف کو ادا کر نا ہے۔
بھٹو نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی سر پرستی میں اپنی سیاست کوسنوارا۔ وہ ان کی قائم کردہ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ایک مرحلہ ٰآیا جب انہوں نے فوجی سرپرستی سے بغاوت کرتے ہوئے عوامی سیاست کی۔عوام کی قوت سے اقتدار میں آ گئے مگر پھر فوج، عدلیہ اور سیاسی مخالفین ان کے خلاف متحد ہوگئے۔اس 'تعاون بالخیر‘ کو غیر ملکی سرپرستی بھی میسر آ گئی۔بھٹو صاحب کااقتدار تو گیا ہی تھا ،جان بھی چلی گئی۔
نوازشریف صاحب نے جنرل ضیاالحق کی سرپرستی میں سیاسی آنکھ کھولی۔جنرل صاحب نے دعا کی کہ نوازشریف کو ان کی عمر لگ جائے۔ایک وقت آیاکہ نوازشریف عوامی لیڈر بن گئے۔ فوج ،عدالت اور سیاسی جماعتیں ان کے خلاف متحد ہوگئے۔ پھر12اکتوبر 1999ء آگیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے جنرل مشرف کے اقدام کو آئینی تحفظ دے دیا۔یوں اس کہانی کا ایک باب تمام ہوا،مگرکہانی نہیں۔کیا یہ ادھوری کہانی اب مکمل کی جائے گی؟
میں سیاست کا ایک طالب علم ہوں۔ پس پردہ ہنگاموں یا سازشوںسے واقف نہیں،اس لیے اہلِ سیاست ہی کے کردار پر بات کر سکتا ہوں۔1977 ء کی سیاست بھٹو کے گرد گھوم رہی تھی۔ بھٹو کی حمایت یا بھٹو کی مخالفت۔آج کی سیاست بھی نوازشریف کے گرد گھوم رہی ہے۔اس وقت بھی یہ ثابت کیا جا رہا تھا کہ بھٹو دنیا کا بدترین آ دمی ہے۔آج یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ نوازشریف گاڈ فادر ہے۔ اس و قت بھی سب جماعتیں اپنے اختلافات کو بھلا کر بھٹو صاحب کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے متحد ہو گئی تھیں۔آج بھی سب کا نشانہ نوازشریف ہیں۔1977 ء کی سیاست انتہا پسندانہ تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔انتہائی محبت یا پھر انتہا ئی نفرت۔
1977ء میں بھٹو مخالفین میں سے کوئی اس سوال پر غور کرنے کے لیے تیار نہیںتھا کہ اس انتہا پسندانہ سیاست کا انجام کیا ہوگا؟اہلِ صحافت اوراہلِ سیاست دونوں کا ہدف بھٹو تھے۔ان کے بارے میں ایسے ایسے افسانے تراشے گئے کہ ان کی 'مسلمانی‘ اور'پاکستانی‘ دونوں شناختوں کومشتبہ بنا دیا گیا۔آج بھی گڑھے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں کہ کوئی ایسا مواد ہاتھ لگ جائے کہ نوازشریف کو مجرم بنایا جا سکے۔کیا معلوم کہ کوئی ٹیم جاتی امرا بھی پہنچ چکی ہو کہ میاں شریف مرحوم کے دادا کے بارے میں کوئی ثبوت ہاتھ لگ جائے۔عین ممکن ہے کہ قبر کشائی کی جائے اور 'جینز ‘میں کرپشن کے جراثیم مل جائیں۔
اس زمین پر انسان رہتے ہیں، فرشتے نہیں۔اگر اس طرح تحقیقات کی جائیں تو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ سیارہ دراصل شیاطین (گاڈ فادرز) کا مسکن ہے الا ماشااللہ۔ ہمیں مگر کسی ایک آدھ کی تلاش ہوتی ہے۔ایک انتخاب 1970ء کی دہائی میں ہوا ور ایک2017ء کی دہائی میں۔
دلداری ِواعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے
جب ہیجان اور انتہا پسندی کی فضا میں اپنی نفرت و محبت کو تھامنا مشکل ہو جا تا ہے، اس وقت ہر آ دمی اذیت پسند بن جا تا ہے۔وہ اپنے جذبہ انتقام کی تسکین چاہتا ہے۔اس وقت اگر اس کے جذبات کے برخلاف کوئی بات کہی جائے تو اسے اچھی نہیں لگتی۔وہ یہ گمان کر تا ہے کہ دوسرا موقف رکھنے والا دراصل کسی مفاد کا اسیر ہے۔ایسی فضا میں آزمائش یہی ہے کہ ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے نیازہو کر،وہی بات کہی جا ئے جس پر دل مطمئن ہو۔ 
سیاست اور سماج کے مطالعے سے دو باتیں معلوم ہو تی ہیں۔ایک یہ کہ قانون کی حکمرانی در اصل ایک سماجی تصور ہے۔سماج جب اس باب میں حساس ہو جا تا ہے تو پھر بلا امتیاز قانون کی حاکمیت کو مان لیتا ہے۔اگرسماج کو حساس بنائے بغیر نظامِ عدل منتخب لوگوں کا احتساب کرے تو پھر یہ عمل نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ اس سے جہاں عدل کا نظام اپنی ساکھ کھو دیتا ہے وہاں سماجی سطح پرمجرموں کے لیے ہمدردی پیدا ہو جا تی ہے۔
دوسرا یہ کہ جب کسی فرد یا گروہ کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جا ئے تو پھر اس کا معاملہ مختلف ہو جا تا ہے۔ پھر جی ایم سید اگر 'اب پاکستان کو ٹوٹ جانا چاہیے‘ جیسی کتابیں لکھیں تو ریاست ان کے خلاف اقدام نہیں کرتی،پھولوں کے گلدستے بھیجتی ہے۔ بھٹو صاحب کے خلاف سیاست زدہ قانون متحرک ہوا تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ کیا آج ہمیں پھر اسی صورتِ حال کا سامنا نہیں ہے؟قوم آج نواز شریف کی حمایت اور مخالفت میں منقسم ہو گئی ہے۔اس تقسیم میں اہم پہلو یہ ہے کہ ایک فریق کے نزدیک ریاستی ادارے دوسرے فریق کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے بھٹو صاحب کے حامی خیال کرتے تھے۔ 
آج اگر کوئی اس بات کوسمجھنا چاہے توسوشل میڈیا پر نئے رجحانات کو دیکھ سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمیشہ تحریکِ انصاف کا ٹرینڈ غالب رہا ہے۔پہلی بار اب یہ پلڑا نوازشریف کی طرف جھکا ہے۔یہ رجحان اس وقت بھی سامنے آیا تھا جب ایک ٹویٹ بحث کا مو ضوع تھا۔ میرا احساس ہے کہ اس رجحان میں شدت آئے گی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قضیے کا صرف ایک قانونی پہلو نہیں ہے۔اس کا ایک پہلو سیاسی بھی ہے۔ نوازشریف نے اس پہلو کونمایاں کر دیا ہے۔آنے والے دنوں میں بحث کا عنوان قانونی نہیں‘ سیاسی پہلو ہو گا۔
سیاسی پہلو جب زیرِ بحث آئے گا، لازم ہے کہ تاریخ کا حوالہ بھی آ ئے۔مجھے بھٹو اور نوازشریف میں مماثلت دکھائی دے رہی ہے۔دونوں کو تاریخ نے ایک جیسا کردار سونپ دیا ہے۔ مجھے نوازشریف اپنے ہم عصر سیاست دانوں کی گرفت سے نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔اہلِ سیاست نے اگر اپنے لیے وہی کردار پسند کر لیا ہے جو1977 ء میں قومی اتحاد نے ادا کیا تھا تو انہیں تیار رہنا چاہیے کہ مؤرخ ان کے بارے میں کیا لکھ رہا ہوگا۔ 
میرے نزدیک ہر آنے والے دن اس قضیے کا قانونی پہلو پس منظر میں جائے گا۔اب یہ سیاسی بحث ہے۔ نوازشریف نے اپنی گفتگو میں اس کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔نوازشریف اب ایک نئے تعارف کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ریاستی اداروں، میڈیا،سول سوسائٹی، سب کو اب سوچنا ہے کہ ہم نے 1970 ء کی دہائی کی طرف جانا ہے یا مستقبل کی طرف۔نوازشریف کا تو یہ کہنا ہے کہ تاریخ کا پہیہ اب پیچھے کی طرف نہیں گھمایا جا سکتا۔ کیا لوگ اس جملے کے مضمرات پر غور کر نے پر آ مادہ ہیں؟اس کے لیے ہیجان اور نفرت ومحبت کی انتہاؤں سے باہر نکلنا ضروری ہے۔
کیا تاریخ کے نہاں خانے میں کسی نئے بھٹو کی تخلیق کا عمل جاری ہے؟نوازشریف صاحب نے عدالتی عمل کا ساتھ دیا ہے۔ بھٹو نے بھی دیا تھا۔1970ء میںایک عمل لیکن عدالتی ایوانوں سے باہر جاری تھا۔آج بھی بہت کچھ عدالت سے باہر ہو رہا ہے۔جو ماضی سے عبرت نہیں پکڑتے وہ خود عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved